مضامین

تحریک عدم تعاون و فتوی ترک موالات کے سو سال

ڈاکٹر ابومسعود


1920ء ہندستانی تاریخ میں مختلف انقلابوں کی بنیاد کا سال ہے۔اسی سال تحریک حریت کے سپہ سالار اعظم اور ملت اسلامیہ ہند کے بطل جلیل حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے مرکزی خلافت کمیٹی بمبئی کے ایک استفتا کے جواب میں انگریزوں سے ترک موالات کا فتوی دیا تھا اورا س کے بعد ان کے شاگرد اور جمعیۃ علماء ہند صدر مولانا مفتی کفایت اللہ ؒ نے اس کی تائید میں ایک دوسرا فتوی صادر فرمایا۔یہ فتوی تحریک عدم تعاون کی تائید میں تھا،اسی سال حضرت شیخ الہند ؒ کی صدارت میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد پڑی، اسی سال بنگلہ والی مسجد میں جماعت تبلیغ کا آغاز ہوا اور اسی سال علماء ملت اسلامیہ نے ملک میں امیر الہند اور قیام امارت شرعیہ پر غور وخوض کیا۔

تاہم اس سال 20ویں صدی کی سب سے حیرت انگیز تحریک ”تحریک عدم موالات“ تھی، حیرت انگیز اس لیے کہ ایک ضعیف گوشت و پوست والا انسان جو خود لاٹھیوں کے سہارے چلتا تھا، اس نے اپنے اوپر حکومت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف عدم مولات کا فتوی دیا تھا۔ ایک ایسا فتوی جس نے برمنگھم کے اقتدار اعلی کو خائف کردیا، وہ حیرا ن تھا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے اپنے سے لاکھوں گنا طاقت کے زیر اقتدار رہ کر ایسا فتوی نہ دیا ہو گیا۔وہ ہندستا ن جہاں قیصر ہند کے آنے پر ۱۱۹۱ء میں جن من گن ادھانائک اور بھارت بھاگیہ ودھاتا کے توصیفی کلمات کہے گئے تھے، اسی ہندستان کی سرزمین پر ایک ایسی جماعت تھی، جس نے حکومت سے ہر طرح کا تعلق توڑنے کا فتوی دیا تھا۔

حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے اس فتوے میں قرآن و سنت کی روشنی میں صاف صاف فرمایا تھاکہ:
”میرا مطمح نظر ہمیشہ مذہب رہا ہے اور یہ ہی وہ مطمح نظر ہے، جس نے مجھے ہندستان سے مالٹا اور مالٹا سے ہندستان پہنچایا۔ بس میں ایک لمحہ کے لیے کسی ایسی تحریک سے اپنے کو علاحدہ نہیں پاتا۔
جس کا تعلق تمام جماعت اسلام کی فوز و فلاح سے ہو یا دشمنانِ اسلام کے حربوں کے جواب میں حفاظت خود اختیاری کے طور پر استعمال کی گئی ہو۔ مالٹا سے واپس آکر مجھ کو معلوم ہوا کہ ہندستان کے ارباب بسط و کشاد نے آخری طریق کار اپنے فرض کی ادائیگی اور اپنے جذبات و حقوق کے تحفظ کا یہ قرار دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی صحیح اور صریح تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک روشن اسوہئ حسنہ کو مضبوط تھام لیں اور نفع و ضرر قومی کا موازنہ اور عواقب کی پوری جانچ کرکے اس کو بے خوف و خطر انجام تک پہنچائیں اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اعدائے اسلام کے ساتھ تعاون و موالات کو اعتقاداً و عملاً ترک کردیں، اس کی شرعی حیثیت ناقابلِ انکار ہے اور ایک صادق مسلمان کی غیرت کا ایسے حالات میں یہ اقتضا ہونا چاہیے کہ وہ (۱) سرکاری اعزازوں اور خطابات کو واپس کردے۔ (۲) ملک کی جدید کونسلوں میں ہونے سے انکار کردے۔ (۳) سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اپنے بچوں کو داخل نہ کرے۔ اس کے علاوہ جو تجاویز وقتاً فوقتاً شائع کی جائیں ان پر عمل کرے، بشرطیکہ ان پر عمل درآمد میں خلاف حکم شرع کا ارتکاب پیش نہ آئے، نیز اس امر کا پورا لحاظ رکھا جائے کہ جن امور میں فساد یا نقض امن کا اندیشہ ہو ان سے احتراز کیا جائے اور ہر کام میں افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال مدِّنظر رکھا جائے۔“
اس فتویٰ کا منظرِ عام پر آنا تھا کہ پورے ملک میں ایک آگ سی لگ گئی اور حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی ایک ایسی لہر رونما ہوئی جس سے انگریزی سامراج بوکھلا اٹھا اور حریت پسندوں کو دبانے کی نت نئے منصوبے تشکیل دیے جانے لگے۔ اس کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کی رہنمائی و صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس عام 19-20-21/نومبر1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا، جس میں ترک موالات سے متعلق ایک تجویز منظور کی گئی، اور پھر حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد پر اسے فتوے
کی شکل میں مرتب کرکے ملک کے معتبر علمائے کرام کے دستخطوں سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں برصغیر کے بڑے بڑے نامور علماء تھا اور اس کے بڑی بات کیا تھی اس اجلاس کی صدارت حضرت شیخ الہندؒ فرما رہے تھے،اس کے مسند کے قریب حضرت مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی، حضرت مولانا ابوالکلا م آزاد، حضرت مولانا عبدالماجد بدایونی،مولانا آزاد سبحانی، مولانا عبدالکافی الہ آبادی، مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری، مولانا خلیل الرحمن سہارن پوری جیسے اساس علم موجود تھے۔ اس تجویز میں انتہائی وضاحت اور صفائی کے ساتھ اعلان کیا گیا تھا کہ: ”موجودہ حالات میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات و نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنا حرام ہے، جس کے تحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں:
(۱) خطابات و اعزازی عہدے چھوڑنا (۲) کونسلوں کی ممبری سے علاحدگی اور اُمیدواروں کے لیے رائے دینا (۳)دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا (۴) کالجوں اور اسکولوں میں سرکاری امداد نہ قبول کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق نہ رکھنا۔ (۵) دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا (۶) عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان کی پیروی نہ کرنا۔
جمعیۃ علماء ہند کی اس تجویز اور اس کی روشنی میں مرتب ہونے والے 473 جید اور معتبر علمائے کرام کے دستخطوں والا یہ فتویٰ جیسے ہی منظرِ عام پر آیا، فوراً برطانوی سامراج نے اسے ضبط کرلیا اور اس پر دستخط کرنے والے مجاہدینِ حریت کی داروگیر کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا۔
ترکِ موالات کی یہی وہ تحریک ہے، جس کے نتیجہ میں سرکاری اعزازات و خطابات کی واپسی کی اس وقت کی ایک جھڑی سی لگ گئی تھی اور جس سے متأثر ہوکر ہزاروں وہ نوجوان جو سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھے، باہر نکل آئے۔ یہی وہ تحریک ہے جس نے جا معہ ملیہ اسلامیہ کو جنم دیا جس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے حضرت شیخ الہندؒ اپنی پیرانہ سالی اور ضعف بیماری کے باوجود علی گڑھ تشریف لے گئے۔ یہی وہ تحریک تھی جس نے ایک طرف مشہور مقدمہئ کراچی کو جنم دیا جس کے ملزمین شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، رئیس الاسلام حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ،
مولانا شوکتؒ، ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ، مولانا نثار احمد کانپوری اور میر غلام جدمٹیاری جیسے علمائے امت وزعمائے قوم کو دو دو سال قیدبامشقت کی سزادی گئی جسے ملت کے ان جیالے علما نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور دوسری طرف مقدمہ کلکتہ وقوع پذیر ہوا جس کی پاداش میں امام الہند مولانا آزادؒ کو ایک سال قید بامشقت برداشت کرنی پڑی۔
ہندستان کی آزادی کی تحریک کا یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس پر ہندستانی مسلمان جتنا بھی فخر کریں وہ کم ہے۔ آج اس تحریک عدم موالات کو سو سال ہو چکے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس اپنے بزرگوں کی اس تاریخی تحریر کو یاد کیا جائے اور نسل نو کو اپنے بزرگوں کے واقعات مجاہدانہ اور خدمات جلیلہ کا سبق پڑھایا جائے۔ بالکل اسی طرح تحریک جامعہ اسلامیہ اور حضرت شیخ الہند ؒ پر تقریب منعقد کرکے یہ بتایا جائے کہ آج جس جامعہ ملیہ کو سوسال ہو چکے ہیں اور جو آج ہندستان کا نمبر ایک ادارہ ہے، اس کی بنیاد بھی حضرت شیخ الہند ؒ کی صدارت میں رکھی گئی جو ظاہر کرتاہے کہ ملک و وطن کے لیے جمعےۃ علماء ہند اور ان کے اکابر کی کتنی خدمات ہیں، جو تاریخ کے گرد میں چھپے ہیں اور جسے ظاہر کرنے کی ہمیں بھی توفیق نہیں ہو تی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close