اسلامیات

خلاصہ ساتواں پارہ

تلخیص: مولانا ڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی

ساتواں پارہ:’’واذا سمعوا‘‘ سے شروع ہے۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیتیں نجاشی بادشاہ اور ان کے ساتھیوں کے ایمان اور ان کی صفات بیان کرنے کے لئے نازل ہوئیں۔ جب انہوں نے حضرت جعفر طیارؓ سے قرآن سنا تو بے اختیار ان کی آنکھو ںسے آنسو جاری ہوگئے۔ قرآن کریم کی آیتوں کو سن کر ان پر جو اثر ہوا اس میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکا تاہم وہ مسلمان ضرور ہوگیا تھا۔ جیساکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پاکیزہ چیزوں کے حرام ٹھہرانے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! پاکیز ہ چیزوں کو حرام مت ٹھہرائو، جن کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اور حد سے تجاوز نہ کرو ،بےشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھائو اور اللہ سے ڈرو ، جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے دوسرا حکم بیان کیا ہے کہ اگر کوئی طیب اور پاکیزہ چیزیں چھوڑنے کی قسم کھالے تو وہ کیا کرے؟ اس سلسلے میں اللہ نے ایک اصول بیان کیا کہ اللہ لغو اور بیکار قسم کے قسموں پر مواخذہ نہیں کرتا ہے، لیکن وہ ایسی قسموں پر مواخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادہ سے کھائی ہے،تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ درمیانی قسم کا کھانا جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنا نا ہے۔اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ اس کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب سے بچنے کا حکم دیا اس لئے کہ شراب حرام ہے، اس کے علاوہ جُوا بھی حرام ہے ، نیز شرک کے لئے نصب کردہ چیزیں ، جن کی وجہ لوگ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں ، وہ بھی حرام ہے ، اور فال کھلوانا بھی حرام قرار دیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ شیطان کے کام ہیں ،لہٰذا ان کاموں سے بچو، اسی میں تمہارے لئے فلاح و کامیابی ہے۔ اس کے بعد حالت احرام میں شکار کے جانور کو قتل کرنے سے منع کیا گیا، اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرے تو اس کو کفارہ دینا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح جانوروں کے لئے حرم کو امن کی جگہ بنایا ہے ، اسی طرح اس کو انسانوں کے لئے بھی امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ اسے دنیوی و اخروی سعادتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنایاہے ،چنانچہ حرم ہرزمانے میں امن کی جگہ رہا۔ اور لوگ مکہ اور مدینہ دونوں مقامات کے حرم کا احترام کرتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتے ہوئے انہیں ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرمایا ، جن کے بارے میں سوال کرنے اور ان کو کریدنے سے کوئی فائدہ نہ ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سوال وجواب میں اگر ان باتوں کو ظاہر کردیا جائے تو تمہیں بُری لگے اور ان کا سننا تمہارے لئے گراں ہو۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایسے جانوروں کی نشاندہی کی جو اہل عرب اپنے بتوں کے لئے نذر میں پیش کیا کرتے تھے۔ کبھی ان کا کان کاٹ دیتے ،کبھی سانڈ بناکر چھوڑ دیتے ، اللہ تعالیٰ نے اس طرح نذر ماننے سے منع کیا۔ چونکہ یہ کام اہل عرب اپنی جانب سے کیا کرتے تھے اور اس کو اللہ کی جانب منسوب کرکے کہتے تھے کہ ایسا کرنے کا اللہ ہی نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے بری رسم کی تردید کی اور اس سے منع کیا۔حضرت ثابت بن ضحاکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ پر ایک اونٹ ذبح کرے گا ،پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ،نبی ﷺ نے فرمایا، کیا وہاں جاہلیت کا کوئی بت تھا، جس کی عبادت ہوتی رہی؟ صحابہ نے کہا، نہیں، پھر آپ نے پوچھا ، کیا وہ جگہ ان کی میلہ گاہ تھی؟ صحابہ نے کہا ، نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اپنی نذر پوری کرلے، ایسی نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اس کی جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو۔ (ابودائود)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کریں ،حتی المقدور نیک کام کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی اصلاح کرلے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدور ادا کرے تو دوسروں کی گمراہی کا وبال اس کے سر نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ قیامت کے دن کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہر شخص کو اپنے کئے کا بدلہ ملے گا۔ دوسرے کا گناہ اس کے سر نہیں ڈالا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور نصرانیوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا۔ اس کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ بیٹا قرار دے دیا، جبکہ وہ اس سے پاک ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا آپ نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کی ماں کو معبود تسلیم کریں اور اللہ کا شریک ٹھہرائیں؟ تو عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے، اے میرے رب! تو پاک اور برتر ہے، ہم نے تو صرف تیرا پیغام پہنچا یا تھا، مجھے تو یہ حق نہیں تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقیناً تو اس کا علم رکھتا ،میں نے انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تونے مجھے حکم دیا تھاکہ اللہ کی عبادت کرو، جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر گواہ تھا ،جب تک میں ان کے درمیان رہا ، پھر جب تم نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگراں تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔
اس کے بعد سورۂ انعام شروع ہے، اس میں توحید، رسالت اور قیامت کا ذکر ہے۔ توحید کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور عظمت وکبریائی کا کثرت سے بیان ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تنہا وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس لئے صرف وہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے، اسی نے اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔ اس لئے وہی حمدوثناء کے لائق ہے۔ آسمانوں اور زمین میں وہی ایک ذات ہے جسے اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور آسمانوں اور زمین دونوں میں اسی کی حکومت ہے اور دونوں میں اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ ہر کھلی اور چھپی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔
اس کے بعد کفار مکہ کے سامنے اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں کے حالات کا ذکر کرکے ان کو ایمان لانے کی ترغیب دلائی ، اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا اہل مکہ نے ان قوموں کا حال نہیں دیکھا جو ان سے پہلے گذر چکی ہیں۔ جیسے قوم عاد، قوم نوح اور آل فرعون۔ ان کے علاؤہ بے شمار ایسی قومیں ہیں جنہیں تم سے بڑھ کر اقتدار عطا کیا گیا وہ تم سے زیادہ طاقتور اور زور آور تھے۔ ان کے پاس آرام وآسائش کے تمام سامان فراہم تھے، لیکن جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی اور کفر اور نافرمانیوں میں حد سے تجاوز کرگئے تو اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ہلاک کردیئے گئے۔ کسی دوسری قوم کو ان کا جانشیں بنادیا گیا۔ چنانچہ کفارمکہ کو بھی گذشتہ قوموں کے احوال سے نصیحت کرنے کی ضرورت ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نفع ونقصان کا مالک اللہ ہے، اس کے علاوہ کوئی اس کی طاقت نہیں رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہی کمال حکمت والا ہے اور وہی ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ اس سورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے بہت سے انبیائے کرام کے حالات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ ان کی قوموں کا ان کے ساتھ کیا رویہ رہا، چنانچہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں کہ آپ کی قوم کے لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں،بلکہ ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے، اس لئے آپ صبر سے کام لیں۔اس سورت میں اس کا بھی ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور تمام چوپائے، پرندے، انسان، جنات وغیرہ سبھی کو جمع کرے گا اور سب کے ساتھ انصاف کرے گا۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی ،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close