اسلامیات

ہم جنس پرستی کے معاملے میں یہ پسپائی سماج کو کہاں لے جائے گی؟

مولانا عبدالحمید نعمانی Mob.: 9811657503

گزشتہ دنوں ہم جنسی کو غیرفطری عمل اور مرض قرار دینے پر مبنی جو ایک صحیح بیان مرکزی وزیر صحت جناب غلام نبی آزاد نے دیا تھا، اس کی قومی اور بڑے کہے جانے والے اخباروں نے جس طور سے مخالفت کی، اس سے یہ سمجھنے میں اہل ملک کو دقت نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کو کچھ عناصر کس سمت لے جارہے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنسی کو آئینی طور سے جائز قرار دینے سے متعلق جب فیصلہ دیا تھا تو تمام مذاہب کے نمائندوں نے اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے سے سماج اخلاقی اور صنفی زوال کا شکار ہوجائے گا۔ اس معاملے میں ایسا بے مثال اتفاق و اتحاد کا اظہار کیا گیا کہ اور کسی معاملے میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بدلتے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور صنعتی حالات میں بلاشبہ آزادی ایک اعلیٰ ترین قدر کے طور پر ایک حقیقت ہے، لیکن سماجی تانے بانے کو تباہ کردینے اور پورے معاشرے کو خلل و فساد میں ڈال دینے، شادی بیاہ کے بہتر جاری نظام کو بے معنی بنادینے اور انسانی آبادی کے ارتقا کو ختم کردینے والے کسی بھی عمل کو قدرآزادی کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ رشتوں کے تمام تر معانی و مفاہیم قطعی طور سے بدل جائیں گے اور یہ منتج ہوگا رشتوں کی بربادی، انسانی آبادی کے خاتمے اور گھریلو نظام کی تباہی پر۔ مذاہب، خصوصاً اسلام نے ہم جنسی جیسے کریہہ، اخلاق کش عمل کی جس شدت و قوت کے ساتھ مذمت و اظہار نفرت کیا ہے، لیکن یہاں مذہبی حوالہ دینا زیادہ موافقِ حالات نہیں ہوگا، کیوں کہ مذہب خصوصاً اسلام پر یقین و ایمان رکھنے والا کوئی آدمی کسی بھی طرح سے ہم جنسی کے جواز کو حاشیہ خیال اور خواب میں بھی نہیں لاسکتا ہے۔ مذہبی گروہ کا ذہن و تصور اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔ بحث تو یہ ہے کہ ہم جنسی کا مقولیت و شرافت سے کسی بھی درجے میں دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے، عمرانی اور نسل انسانی کی بقا و افزائش اور انسانی آبادی کا ارتقا بھی ایک سو ایک فی صد رُک جاتا ہے، جب تک کسی آبادی یا فرد کی عقل سلیم پوری مسخ نہ ہوجائے تب تک ہم جنسی میں مبتلا نہیں ہوسکتا ہے۔ غلام نبی آزاد نے ابتداً یہ کوئی غلط نہیں کہا تھا کہ یہ غیرفطری اور ایک بیماری ہے، اس عمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کی شکل میں اگر سماج میں فروغ ملتا ہے جیسا کہ وزیر صحت غلام نبی آزاد نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ہم جنس پرست مردوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، تو گھر، ماں باپ، بیٹا بیٹی، بھائی بہن کے رشتے کے نہ تو کوئی معنی ہوں گے اور نہ ہی باہمی اعتماد و تقدس کا رشتہ محفوظ رہ پائے گا، اور سماج پوری طرح جنسی انارکی و انتشار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اور وہ پوری طرح تشکیک کی تاریکی میں گم ہوجائے گا۔ مرد/ لڑکا اپنے دوستوں کی صحبت میں رہے یا تنہائی ہوگی تو اس کے بارے میں بہن، باپ، بھائی کا ذہن کس سمت میں جائے گا، لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ جائے گی تو آنکھوں سے دور اور اوجھل ہوتے ہی باپ،بھائی، ماں، دادا، دادی، بھائی بھابھی کا تصور کس ڈگر پر گردش کرے گا۔ تمام طرح کے رشتے کا تقدس و اعتماد ختم ہوجانے کا راستہ کھل جائے گا۔ لڑکا- لڑکا، مرد-مرد، عورت- عورت، لڑکی-لڑکی کے باہمی جنسی رشتہ سے ایک تو یہ ہوگا کہ یہیں پر دونوں کی دنیا ختم ہوجائے گی کہ آگے راستہ بند ہے۔ بغیر تخلیقی عمل جاری ہوئے لڑکی، لڑکی، لڑکا لڑکا کا سلسلہ آگے کیسے بڑھے گا۔ بے اولاد افراد کی زندگی خاص طور سے حالت ضعیفی میں کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔تخلیقی عمل سے گزرے بغیر دو تعلق والے تخلیق کے مقدس رشتے کے درد کو کبھی جان پائیں گے، ماں باپ، ممی پاپا والا گھر کیسے وجود میں آئے گا۔ یا تو ممی ممی ہوں گی، یا پاپا پاپا، صرف نام کے، جب تخلیقی عمل سے گزر ہی نہیں ہوگا تو ممی ممی، پاپا پاپا کا مفہوم و مطلب کیسے سامنے آئے گا۔ اگر مذہب کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو سماجی ارتقا کی عملی شکل کیا ہوگی۔ غیرفطری جنسی خواہش کے تحت بے قابو ہوکر محض توانائی کے بہاؤ کا عمل کسی سماج کو نہ تو تحفظ فراہم کرسکتا ہے نہ اس کی بقا کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے، ہم جنس پرست مرد، عورت آج بھی اپنے چہرے پر ماس چڑھا کر بے شناخت ہوکے رہ جاتے ہیں، ان کے سماج کا آگے جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، بڑی حیرت کی بات ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات جوش ملیح آبادی جیسے ادیب و شاعر کی بڑی عقل میں نہیں آئی کہ کہہ دیا کہ ہم جنسی ایک فطری عمل ہے، جس پر روک لگانے سے …… یہ نتیجہ ہے فطری رہنمائی کا راستہ ترک کردینے کا۔ جب آدمی عقل سلیم سے کام لینا بند کردیتا ہے تو جوش کی طرح فکری کشمکش کے المیے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کچھ سال پہلے ایک مغربی ملک میں رہنے والے مشہور پاکستانی شاعر نے ہندستان کا سفر کیا تھا اور ہم جنس پرست گروپ سے تعلق رکھنے کا کھلے عام اعلان کرتے ہوئے اپنے خیالات مرحوم ’قومی آواز‘ میں شائع کرائے تھے، اور اپنے دلّی کے کئی دوستوں کا نام لیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خصوصی روگ میں مبتلا ہوجانے کے بعد آدمی کی عقل سلیم اور شرم و شرافت کس طرح لعنت زدہ علاقے میں گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ اگر قدر و شرافت پر یقین رکھنے والا سماج اس لعنت کا مقابلہ کرنے اور اس کو قانونی جواز فراہم کرنے کے عمل پر روک لگانے کی سنجیدہ جدوجہد نہیں کرے گا تو مہذب معاشرہ قیدخانے میں بدل کر رہ جائے گا۔ یہ بند اور ہم جنس پرست معاشرہ آزاد ہوجائے گا، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ غلام نبی آزاد نے اپنی بات کی تاویل اور بیان کردہ واضح موقف کو نیا بیان دے کر کمزور کیوں کیا اور کانگریس نے بھی خود کو آزاد کے بیان سے الگ کرنا کیوں ضروری سمجھا اور اس کے لیے بھی ایک مسلمان شکیل احمد خاں کو آگے کردیا۔ یہ کانگریس پارٹی کے ترجمان، انھوں نے فرمایا کہ وزیر صحت کی حیثیت سے آزاد نے کیا بیان دیا ہے اس کے بارے میں یا تو وہ خود بتاسکتے ہیں یا ان کی وزارت کا کوئی افسر، یہ کانگریس پارٹی کا ایشو نہیں ہے اور غلام نبی آزاد نے بعد کے وضاحتی بیان میں بتادیا کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ میں نے ایچ آئی وی کی بیماری کی طرف اشارہ کیا تھا، نہ کہ ہم جنسی کی طرف، ملک میں ہم جنس پرست مردوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس طبقے میں قومی اوسط کے برابر ہی ایچ آئی وی ہے، ان کا پتا لگانا، ان کو صلاح و مشورہ دینا اور ان کا علاج وزارتِ صحت کے لیے ابھی بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔ آزاد کو اپنی بات کا رُخ بدلنے اور تاویل کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ ہم جنسی کے معاملے میں کانگریس اور مرکزی سرکار کا موقف نہ یہ کہ صرف صاف نہیں ہے، بلکہ کل ملاکر ایسا ہے کہ اس کو تقویت پہنچانے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں آزاد اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑے نہیں رہ سکتے تھے۔ کانگریس کا ان کے بیان سے الگ کرلینا، دوسری طرف میڈیا کے ایک بڑے حلقے کی طرف حملہ تیٰ کہ یہ مطالبہ بھی کرڈالنا کہ انھیں وزارتِ صحت کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے، یہی مطالبہ ہم جنسی پرستوں کی طرف سے کیا گیا۔ ان کے زبردست حامی دہلی کے ایک وکیل آدتیہ بندوپادھیائے نے کہا کہ آزاد سے وزارتِ صحت کا قلمدان لے لینا چاہیے، جب کہ اس کے برعکس کوئی مضبوط آواز سامنے نہیں آئی۔ نتیجتاً حالات کا وزن ہم جنس پرستوں میں چلا گیا، اور وزیر صحت کو گھما کر ناک پکڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگر ہمارے لیڈر اُردو میڈیا پر بھی توقیر و توجہ دیتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اُردو میڈیا الحمدللہ پوری طرح صحت مند اور فطری راہ پر گامزن ہے، اس نے پوری طاقت کے ساتھ زیر بحث غیرفطری اور مریضانہ عمل کی مخالفت کی ہے۔ یہ قابل توجہ امر ہے کہ وزیر صحت آزاد نے اگرچہ حالات کے دباؤ میں تاویل سے کام لے کر بات بنانے کی کوشش کی ہے تاہم انھوں نے ہم جنس پرستوں کو یہ انکشاف کرکے آئینہ بھی دِکھا دیا کہ ایڈز کی بیماری عام بالغ افراد میں ۱۳ء۰ فی صد ہے جب کہ ہم جنس پرستوں کی ۳ء۷ فی صد آبادی اس موذی مرض کی شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کی جڑ اور گہرائی میں جاکر مہذب اقدار پر مبنی سماج اس کا مقابلہ کرے اور خود کو بچانے کی جدوجہد کرے، ہم جنس پرستی کے نتیجے میں موذی مرض کے فی صد میں اضافے سے دواساز کمپنیوں کے لیے کمائی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں میں گلوبلائزیشن کے تحت صارف پسندی کے رجحان میں عالمی سطح پر تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جنسی آزادی، انارکی اور ہم جنس پرستی کے رجحان کو سرمایہ دار اور تاجر طبقے نے اپنے تجارتی مقاصد کے مدنظر ہر شئے کو ”بکاؤ“ بنانے کے ساتھ ہی فروغ دیا۔ کنڈوم اور دیگر ادویات کے استعمال کی خوب خوب تشہیر کی گئی اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے کنڈوم ساز اور دواساز کمپنیوں نے لوٹا اور لوٹ رہی ہیں۔ امریکہ جیسے مغربی اور یورپی ممالک نے ایک خاص مقصد سے آزادانہ جنسی اختلاط اور ہم جنس پرستی کو بے تحاشہ بڑھاوا دے کر اسے ترقی کی علامت بناکر پیش کیا اور افسوس کی بات ہے کہ ہندستان بھی ترقی یافتہ ممالک کے نام نہاد ”جدید کلچر“ کا اسیر ہوگیا ہے۔ ماہر اقتصادیات امرتیا سین اور مشہور ادیب وکرم سیٹھ جیسے لوگ مغربی یورپی کلچر و فکر کی ہی اصلاً پیداوار ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر دانشوروں نے ہم جنس پرستی کی حمایت کی۔ ماضی قریب میں جن اداروں اور تنظیموں نے اس فعل شنیع کی حمایت کی تھی ان میں پلاننگ کمیشن، مرکزی وزارتِ صحت، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، لا کمیشن آف انڈیاوغیرہ بھی شامل ہیں۔ اب مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزاد نے ہم جنسی کو غیرفطری اور مرض قرار دینے کی کوشش کی تو دباؤ بناکر وزارتِ صحت کو پھر پہلی ”ترقی یافتہ“ جگہ پر لانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب اور یورپ میں سارے لوگ ہی مریضانہ راہ پر چل پڑے ہیں، وہاں بھی بہت سے سائنس داں، دانشور اور ادارے ایسے ہیں، جو ہم جنسی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، لیکن کونار اور جیراڈ براڈلے جیسے حضرات کا نام تو بہت نمایاں ہے، جو کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہم جنس پرستی کی تحریک خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے، شادی بیاہ کے نظام، سماجی تقدس، انسانی آبادی اور خاندانی نظام کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر جدوجہد کی جائے، اس سے پہلے کہ ہم جنس پرست آزاد اور اصل سماج قیدی بن کر رہ جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close