مضامین

پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے ہند کی قربانیوں پر فخر کا اظہار

2012 میں پارلیمنٹ میں مولانا محمود مدنی صاحب کا خطاب

مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے پارلیمنٹ کے اپنے الوداعی خطاب میں جمعیۃ علماء ہند کی قربانیوں پر روشنی ڈالی اور چیرمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ جمہوریت کے اس تاج محل میں، میں سب سے پہلے اپنی پارٹی اوراس کے لیڈر چودھری اجیت سنگھ جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اس ہاؤس میں بھیجا۔ ابھی جیساکہ اہلو والیہ جی کہہ رہے تھے، تو مجھے بھی اس بات پر فخر ہے کہ میر ا تعلق اس خاندان اور اس تنظیم سے ہے جس نے ملک کی آزادی کے لیے طویل جد وجہد کی اور قربانیاں دیں، خود میرے دادا مولانا حسین احمد مدنیؒدسیوں سال جیل میں رہے، جب ملک آزادی کے قریب آیا، ملک کی آزادی کا وقت آیا، آج ہم بڑے فخر سے اس بات کو کہتے ہے؟ہماری جماعت نے، ہمارے بزرگوں نے مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالفت کی اور سب لوگوں کے مان لینے کے باجود انھوں نے آخری وقت تک اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا، ہمارے پاس کہیں اور چلے جانے کا اختیار تھا، لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے اختیار ہو نے کے باوجود اس ا ختیار کو منظو رنہیں کیا۔
اس گلی کی ہیں خاک سے، یہیں خاک اپنی ملائیں گے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں، نہ نکالے آپ کے جائیں گے
موقع ہے تو میں کچھ بات عرض کروں، میں جس قوم سے تعلق رکھتاہوں، وہ ہندستان کی دوسری بڑی اکثریت ہے، ہمیں اپنی تاریخ پر فخر ہے، لیکن بد قسمتی سے پچھلے ساٹھ سالوں میں آزادی کے ان معماروں نے، وہ معمار جنھو ں نے ملک کو آزاد کرایا، آزاد کرانے کے لیے قربانیاں دیں،ملک کو ایک صحیح رخ دینے کی کوشش کی، صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی، مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے نام پر کام کرنے کی کوشش کی، بدقسمتی سے ان معماروں کو جن سے آج کے نوجوان پیڑھی کو سبق مل سکتا تھا، نظر انداز کردیا گیا، انھیں تاریخ سے بھی اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔میں نے پہلے بھی اس بات کو کہا ہے اور آج پھر کہہ رہاہوں کہ پورا ملک اس بات کو محسوس کرتاہے کہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے، یہ پیدا کیسے ہو تی ہے؟ چیئرمین صاحب! میں عرض کرنا چاہتاہوں، آپ کی توجہ چاہوں گا کہ اگر کسی قوم کو غلط راستے پر ڈالنا ہے تو پہلے اسے مایوس کرنا ہو گا، اس کے بعد اس کو بھڑ کانا ہو گا، آج ہندستان کے مسلمان اس چیلنج سے گذررہے ہیں، ان کو مایوس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پھر ان کو بھڑکانے کی، وہ اندر سے اور باہر سے دو طرفہ وار جھیل رہے ہیں۔ اس ملک کو اکٹھا ہو کر پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر یہ سوچنا ہو گا کہ کیسے وہ نوجوان، جس کے دل میں یہ جذبہ ہے کہ:
لہو دیں گے تو لیں گے پیار، موتی ہم نہیں لیں گے
ہمیں پھولوں کے بدلے پھول د و، شبنم نہیں لیں گے
محترم حضرات!میں اس ہاؤس کا قیمتی وقت برباد نہیں کروں گا، لیکن یہ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ دینا چاہتاہوں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی اس وراثت کی حفاظت کی، ہم نے اپنی جماعت، جمعےۃ علماء ہند کی اس تاریخ کی بھی حفاظت کی اور پچھلے چار سالوں سے ٹیررز م کے خلاف جس طاقت کے ساتھ ہم نے لڑائی لڑی ہے، وہ آج چاہے محسوس نہ کی جائے، لیکن جب ہندستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس بات کو لکھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے جو بے سروسامانی کے عالم میں کھڑے ہو ئے تھے اور آزادی کی لڑائی کی طرح سے آتنک واد کے خلاف بھی لڑائی لڑی تھی، اس ہاؤس کا ممبر رہتے ہوئے ہمیں یہ فخر ہے کہ ہم نے اس لڑائی کو لڑا۔
مجھے یاد آتا ہے وہ وقت، اس کو یاد لانا میں اپنا کارنامہ نہیں سمجھتاہوں، بلکہ بزرگوں کی وراثت کی حفاظت سمجھتاہوں، انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں پرویز مشرف صاحب آئے تھے، انھوں نے بہت ساری باتیں کی تھیں، ان باتوں کے ساتھ انھوں نے خاص طور پر ایک چیز کو ذکر کیا تھاکہ ہندستان کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے، میں اس پروگرام میں موجودتھا، بحیثیت اسپیکر وہاں موجود تھا،لیکن اس نشست میں نہیں تھا، میں آرام سے پیچھے بیٹھا تھا، سوچتا تھا کہ بات سنوں گا، میں نے ان سے وہاں ایک بات کہی تھی، میں نے کئی باتیں کہیں تھیں، وہ میرا یقین ہے، مجھ سے میرے کچھ دوست کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ ٹیررز م کی مخالفت کر رہے ہیں، اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں ہے کہ یہ پریشر ختم کرنے کی حکمت عملی ہے، کیا یہ آپ کا یقین ہے؟ ہاں یقین ہے میں وہی بتانا چاہتاہوں کہ میں نے مشرف صاحب سے یہ بات کہی تھی کہ مشرف صاحب! آپ ہندستان کے مسلمانوں کی فکر چھوڑ دیجیے، ہندستان کے مسلمانوں کی پریشانیو ں کو حل کرنے کے لیے ہندستانیوں کی یہ سول سوسائٹی پوری طاقت سے مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے او ران کے ساتھ انڈیا کی یہ سول سوسائٹی ناانصافی نہیں ہو نے دے گی، میں اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھیوں سے بھی کہناچاہتاہوں کہ اختیار ہو نے کے باوجود ہم نے ہندستان میں رہنا پسند کیا، سیاسی وجوہات سے نہیں بلکہ دل کھول کرہماری پریشانیوں کے بارے میں سوچئے، ان کو حل کیجئے او ر ہمارے جوانوں کو مایوس نہ ہو نے دیجئے اور ان کو اس فخر کے ساتھ جوڑدیجئے، جو فخر میر ے اندر ہے، میں کہا کرتاہوں اس بات کو، ہر جگہ، ہر موقع پر کہ جب میں دنیا کے کسی ملک سے ہندستان واپس آتا ہو ں، تو مجھے وہاں کے پھولو ں میں وہ خوشبو نہیں ملتی، جو اس بھارت کی مٹی میں مجھے نصیب ہو تی ہے۔یہی احساس سارے ہندستانیو ں کے دل میں ہو نا چاہیے، اس احساس سے انھیں دور نہ ہو نے دیا جائے، انھیں قریب کیا جائے۔تواریخ میں جن لوگو ں نے قربانیاں دی ہیں، ان کو واپس لایا جائے، ان کو زند ہ کیا جائے تاکہ نوجوان دیکھیں کہ ہاں، ہمارے لوگوں نے اس ملک کے لیے کتنی بڑی قربانیاں دیں ہیں، اس سے ان کے اندر بھی قربانی کا جذبہ ہوگا،لوٹ کھسوٹ کی لعنت ان کے اندر سے ختم ہو جائے گا۔
میں ہاؤس کے سب لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا کہ مجھے سنا اور برداشت کیا، بہت بڑی بات ہے برداشت کرلینا بھی، میں ایئر پورٹ پر جارہا تھا، یہ چار سال پرانی بات ہے، اپنی ماں سے ایک چھوٹا بچہ کہہ رہا تھا،دیکھو، دیکھو ”بن لادن“ جارہا ہے۔ ابھی ماحول تبدیل ہوا ہے اور آگے اور تبدیل ہو گا، اس یقین کے ساتھ کہ جب ہماری اگلی نسل آئے گی، تو اس ملک میں ان کو انصاف ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ مل چکا ہو گا پوری طرح سے، کیوں کہ نوجوان لوگ آرہے ہیں، اور نوجوانوں سے اس ملک کو، ہم سب لوگوں کو امید یں وابستہ ہیں۔
میں پرائم منسٹر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہو ں گا۔خاص طور سے اس بات کے لیے کہ دہشت گردی کے خلاف جو تحریک چلائی گئی تھی، اس میں ہمیں ان کی سرپرستی حاصل رہی اور بھی ان سب لوگوں کا جو وقتا فوقتا حوصلہ بڑھاتے رہے، ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا۔مولانا اسعدمدنیؒمیرے والد تھے اور پرائم منسٹر صاحب کا ان کے ساتھ ایک رشتہ تھا، اس رشتے کی وجہ سے انھوں نے بھی ہمیشہ مجھے محبت دی، اس محبت کے لیے میں ان کا بہت بہت شکریہ ادا کروں گا۔
چیئرمین صاحب! آپ کا بھی خاص طور سے شکریہ ادا کروں گا، آپ نے بھی میرے والد کو کام کرتے ہوئے کچھ دیکھا ہے، اس وجہ سے مجھ سے خاص محبت کا معاملہ آپ کا ہے او رمیں یقین رکھتاہوں کہ آپ سب لوگوں کی سرپرستی مجھے آگے بھی حاصل رہے گی۔ بہت بہت شکریہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close