اسلامیات

مدارس و دینی اداروں میں رقوم زکوٰۃ کی فراہمی اور طریقہ استعمال

جمعیت علمائے ہند کے دسویں فقہی اجتماع:19،20/ مارچ2014ء کا ایک اہم فیصلہ

دسواں فقہی اجتماع:19،20/ مارچ2014ء
———– تجویز نمبر-۳———–
مدارس و دینی اداروں میں رقوم زکوٰۃ کی فراہمی اور طریقہئ استعمال
اس دور میں مدارس اسلامیہ دین کی بقا و حفاظت اور نادار طالبان علوم نبوت کی کفالت کی جو عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ ارباب فکر و نظر سے مخفی نہیں ہے، اس لیے ان مدارس کا تعاون نہ صرف ملت کے غریب طبقات کے لیے سہارا ہے؛ بلکہ دین کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ملت کے اصحاب خیر حضرات کے سرمایہ کا بے جا استعمال نہ ہو اور اس میں پورے حزم و احتیاط کا خیال رکھا جائے۔ اس تناظر میں ادارۃالمباحث الفقہیہ جمعیت علمائے ہند کا یہ دسواں فقہی اجتماع کافی بحث و تمحیص کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کرتا ہے:
(۱) یہ اجتماع مکاتب و مدارس کی تصدیق کرنے والے افراد، اداروں اور ملی تنظیموں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد ان کے بارے میں تصدیق نامے جاری کریں۔
(۲) جن مدارس میں مصارف زکوٰۃ فی الحال موجود ہوں، ان کے اخراجات کی تعمیل کے لیے زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی رقومات وصول کرنا درست ہے۔ اور جن مدارس میں فی الحال مصارف زکوٰۃ موجود نہیں، ان کے لیے زکوٰۃ وصدقات وصول کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی جگہ کے حالات متقاضی ہوں، تو اس علاقہ کے واقف کار اور مستندعلما سے رجوع کر کے عمل کیا جائے۔
(۳) فقہی اجتماع بالخصوص اہل خیر حضرات سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ز کوۃ وصدقات واجبہ کے ساتھ عطیات نافلہ کی رقومات سے بھی مدارس کا تعاون کریں، تاکہ مدارس کی ان ضروریات کی تکمیل ہو سکے جو مصارف زکوٰۃ میں شامل نہیں ہیں، (مثل تن خواہ، تعمیرات وغیرہ)۔
(۴) مدارس میں جمع شدہ زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی تملیک ضروری ہے اور واقعی تملیک کی صورت یہ ہے کہ مستحقِ زکوٰۃ شخص یا طالب علم کو زکوٰۃ کی رقم دے کر اسے مکمل مالک بنا دیا جائے، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے بہ خوشی مدرسہ میں داخل کر دے۔
(۵) اجتماع میں حیلہئ تملیک سے متعلق کئی شکلیں سامنے آئیں، جن میں فارم داخلہ میں طالب علم کی طرف سے مہتمم کو زکوٰۃ وصول کرنے اور مدات متعینہ میں خرچ کرنے کے جواز پر بھی بحث ہوئی؛ لیکن شرکائے اجتماع کا اس پر اتفاق رہا کہ تملیک کی سب سے بہتر اور احوط شکل یہ ہے کہ مدرسہ اور طلبہ پر ہونے والے ماہانہ مصارف کا اندازہ لگا کر کوئی متعینہ رقم طلبہ پر لازم کر دی جائے، پھر مہینہ کے ختم پر اتنی رقم انھیں بطور وظیفہ دے کر ان کے ذمہ دین کی ادائیگی کے طورپر واپس لے لی جائے۔
(۶) مدارس کے مہتمم حضرات اور سفرا زکوٰۃ کی وصول یابی میں طلبہ اور معطیان دونوں کے وکیل ہیں، لیکن زکوٰۃ کی رقومات انھیں تملیک کے بغیر غیر مصارف میں خرچ کرنے کا حق نہیں ہے۔
(۷) دینی وملی اداروں اور جماعتوں کے لیے زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی رقومات وصول کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ ادارے ان رقوم کوزکوٰۃ کے مصارف میں ہی خرچ کرنے کا اہتمام رکھیں۔
(فقہی اجتماعات کے فقہی فیصلے و تجاویز،ص/89-93)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close