مضامین

تحریک آزادی و مدارس اسلامیہ اور حالات حاضرہ!!

تحریر :جاوید اختر بھارتی javedbharti508@gmail.com

مدارس اسلامیہ نے ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں اور ملک کو آزاد کرانے میں تو بے مثال و بیشمار قربانیاں پیش کی ہیں اور یہ صد فیصد حقیقت ہے کہ علماء کرام کی بدولت ہی ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اور آج بھی مدارس میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا ہے ملک سے محبت تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملک کی حفاظت کی ہے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے اس لئے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہے
آج جس طرح حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و مظاہرے کو طاقت کے استعمال کے ساتھ روکا جاتا ہے یہ جمہوریت پر بدنما داغ لگا نے والا کام ہے اس لیے کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و خیر مقدم دونوں کا اختیار ملک کے آئین نے دیا ہے اور آئین تب بنا ہے جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ ہوکر انگریز جیسی ظالم قوموں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا
اسی اختیارات کی روشنی ملک کی عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لئےکبھی احتجاج و مظاہرہ کرتی ہے تو کبھی خیر مقدم بھی کرتی ہے اور یہی جمہوریت کی شان ہے اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے آج جس طرح کچھ لوگ بدزبانی کر رہے ہیں اور دینی مدارس پر جو بیہودہ الزامات لگا رہے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،، انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے اور انہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و جبر اور ناانصافی سے بہت دنوں تک دبدبہ قائم نہیں رہ سکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اسلام ہوگا وہاں سلامتی ہوگی جہاں ایمان والے ہوں گے وہاں امن و امان ہوگا کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی سلامتی کے ہیں اور سلامتی کی ہی مذہب اسلام تعلیم بھی دیتا ہے حکومت وقت کے فیصلوں پر احتجاج و مظاہرہ ہوتا ہے یا خیر مقدم ہوتا ہے تو اسے قطعی طور پر مذہبی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اس سے مذہبی منافرت بڑھے گی اور فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوں گی اور ملک کو فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت سے پاک رکھنا اور پوری طرح امن و امان قائم رکھنا یہ ملک کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے
مسلمانوں کو بھی اپنے آباؤ و اجداد کی تاریخ کو یاد رکھنا ہو گا، پڑھنا ہوگا اور نصاب میں شامل کرنا ہوگا،، کیونکہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ قوم سیاسی طور پر گم ہوجاتی ہے کہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہی حال آج ملک میں مسلمانوں کا ہے اس لیے جمہوریت میں سیاسی پہچان کا ہونا لازمی ہے اور سیاسی پہچان تبھی قائم ہوگی جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ سے روشناس ہوں گے آج حکومت کے نشے میں چور کچھ لیڈران مدارس دینیہ کو نشانے پر لینا چاہتے ہیں اور جھوٹے الزامات لگاکر ہٹ دھرمی کا اظہار کر رہے ہیں، تاریخ کو جھٹلا رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ آج علماء کرام پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں جبکہ اس ملک کو آزاد کرانے کیلئے علماء کرام نے سروں پر کفن باندھے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ہزاروں ہزار کی تعداد میں شہید ہوئے ہیں علامہ فضل حق خیرآبادی جنہوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا جنہیں کالا پانی کی سزا دی گئی فتویٰ واپس لینے کے لئے دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی نے کہا کہ فتویٰ طبیعت کی روشنی میں نہیں دیا جاتا ہے کہ جب چاہے بدل دیا جائے بلکہ فتویٰ شریعت کی روشنی میں دیا جاتا ہے اور شریعت ظالم کی حمایت نہیں کرتی اس لیے فتویٰ نہیں بدلا جاسکتا اور ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس مذہب میں وطن عزیز سے محبت اور حفاظت کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنا نصف ایمان تک قرار دیا گیا ہے تو ہم اپنی آخری سانس بھی اپنے ملک ہندوستان کے لئے قربان کردیں گے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک ملک کے لئے بہا دیں گے لیکن فتویٰ نہیں بدلیں گے مولانا ابوالکلام آزاد کی بیوی بیمار تھی اور مولانا آزاد جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے انگریز نے پیغام بھیجا کہ اگر مولانا آزاد تحریک آزادی سے الگ ہونے کی تحریر دیں تو ہم انکی بیوی کی بیماری کے مدنظر انہیں رہا کر دینگے جب یہ پیغام جواہر لال نہرو نے ان تک پہنچایا تو مولانا آزاد نے کہا کہ ایک طرف میری بیوی بیمار ہے اور دوسری طرف میری ماں کو انگریزوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ایسے میں مجھے اپنی بیوی کی فکر نہیں ہے بلکہ اپنی ماں کی فکر ہے میں اپنی ماں کو انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اپنی بیوی کی بیماری کو بھول سکتا ہوں مجھے اپنی بیوی کی بیماری کی کوئی فکر نہیں ہے یعنی بیوی کی بیماری کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کو ماں کا درجہ دیا ریشمی رومال کی تحریک علماء کرام نے چلائی، انقلاب زندہ باد کا نعرہ علماء کرام نے لگایا ، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب علماء کرام نے دیا، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف تقریریں علماء کرام نے کیا، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے پہلے خیرمقدم علماء کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت علماء کرام نے دیا اور ہزاروں علماء نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں ان کا تعلق اسی مدارس دینیہ و اسلامیہ سے تھا جن مدارس پر آج کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ گھناؤنے الزامات لگارہے ہیں اگر اپنی آنکھوں سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہندوستان کے مدارس اسلامیہ ملک کی آزادی کی لڑائی کا ایک حصہ نظر آئیں گے لیکن یہاں تو ہندو مسلم اتحاد کو توڑ کر اور دونوں کے جذبات کو ابھار کر سیاست کی روٹی سینکنے کا کچھ لوگوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے جنہیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی عوام کی پرواہ ہے نہ ائین کی پرواہ ہے نہ عہدے کے وقار کی پرواہ ہے بس سروں پر غرور سوار ہے زبان درازی، بدکلامی، بدزبانی، گالی اور دھمکی و اشتعال انگیز بیانات و تقریریں کرنا ان کا مشغلہ ہے،، مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگنا تو پانی سے ڈبونے، آگ سے جلانے اور ہوا سے اڑانے کا ثبوت مانگنا ہے کہ اے پانی تو کیسے ڈبوتا ہے ثبوت دے، اے آگ تو کیسے جلاتی ہے ثبوت دے اور اے ہوا تو کیسے اڑاتی ہے ثبوت دے یہ ذہنی دیوالیہ پن اور نفرت نہیں تو اور کیا ہے ورنہ مسلمانوں کی حب الوطنی کی گواہی تو لال قلعہ کی فصیل بھی دے رہی ہے، تاج محل کی رونق بھی، قطب مینار کی بلندی بھی، جامع مسجد کی سیڑھیاں بھی، گنگا جمنا کی لہریں بھی مسلمانوں کی حب الوطنی کی گواہی دے رہی ہیں ارے مسلمان تو مرنے کے بعد بھی غسل کرکے، نئے کپڑے پہن کرکے اور کافور و عطر لگا کر قبر کے اندر دفن ہوتا ہے مسلمان وطن عزیز کی زمین کے ذرے ذرے سے اتنی محبت رکھتا ہے-
لہذا حکومت کو چاہئے کہ فرقہ پرستی پھیلانے والے لوگوں پر کاروائی کرے تاکہ ملک کی فضا سدا خوشگوار رہے اور ماحول سدا سازگار رہے-
*ہند کو ناز ہے جس پہ وہ نشانی ہم ہیں*
*تاج اور لال قلعہ کے یہاں بانی ہم ہیں*
javedbharti508@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close