مضامین

شہزادہ فیض العارفين حضرت علامہ راشدمیاں آسوی کا وصال ایک زریں عہد کاخاتمہ ہے

.
(اک شخص نے سارے زمانے کو ویران کردیا)

موت ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جس کا انکار ناممکن ہے موت ایک ایسا نایاب جام ہے جسے ہر نفس کو پینا ہے ایک ایسا پل ہے جس سے ہر جان کو گزرنا ہے اور قبر ایسا دروازہ ہے جس میں ہر انسان کو داخل ہونا ہے.مرزا شوق لکھنوی کے بقول :
موت سےکس کورستگاری ہے
آج وہ ، تو کل ہماری باری ہے
اس دنیائے فانی میں جتنے افراد نے بھی آنکھیں کھولیں ہیں ان سب کو ایک نہ ایک دن دار بقا کی طرف کوچ کرنا ہے لیکن جانے والوں میں کچھ ایسی نابغۂ روزگار، پاکباز اور عفت مآب ہستیاں ہوتی ہیں جن کی موت پر پورا زمانہ غمزدہ اور افسردہ ہوجاتا ہے اور جانے والے کی خدمات جلیلہ، اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کا ہر زبان پر چرچا ہوتا ہے ایسے افراد صدیوں میں رونما ہوتے ہیں اور اپنی حیات وخدمات کی بنیاد پر تاریخ رقم کرجاتے ہیں.
انھیں مبارک ہستیوں میں سلسلہ عالیہ ابوالعلائیہ کی مشہور و معروف خانقاہ آسویہ کی عظیم شخصیت مشعل راہ ہدایت، رہنماۓ شریعت و طریقت شہزادۂ فیض العارفين تاج الاصفیاحضرت علامہ صوفی راشدرضاآسوی علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات ہے.
آپ علیہ الرحمہ 22 ربیع الآخر 1442ھ /8 دسمبر 2020 بروز منگل حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے صبح 4 بجے بمبئی میں اپنے لاکھوں مریدین، متوسلین، معتقدین، اور محبین کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دار فنا سے دار بقا کی جانب رحلت کرگئے. انا للہ وانا الیہ راجعون.
شہزادہ رئیس القلم حضرت علامہ ڈاکٹر غلام زرقانی دام ظلہ العالی (ہیوسٹن ،امریکہ) نے اپنے پیغام میں بیان فرمایا کہ : "آپ ہمارے گھر کے بزرگ صوفی عالم دین اور ہم سب کے سرپرست تھے آپ کے وصال کی وجہ سے اب ہمارا خاندان اپنے بزرگ سرپرست سے محروم ہو گیا” حضرت کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا صرف خانقاہ آسویہ ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان اور عظیم خسارہ ہے آپ کا وصال یقیناً ایک درخسندہ باب کی تکمیل کے ساتھ ایک زریں عہد کا خاتمہ ہے.
شہزادہ فیض العارفين حضور راشد میاں علیہ الرحمۃ کے انتقال کی خبر مجھ پر بجلی بن کر گری جس سے میرا وجود لرز گیا آنکھیں نمناک ہوگئیں اور ابھی تک میرے دل پر مسلسل اس کا گہرا اثر ہے مجھ ناچیز پر حضرت کی شفقتیں، بلا کی محبتیں، خاندانی عنایتیں، کارآمد نصیحتیں نجی مجلسوں کی رفاقتیں سب کچھ میری پلکوں کے ارد گرد اشکوں کے کشکول میں منڈلارہی ہیں. للہ ماأخذ واعطی وکل شئ عندہ الیٰ اجل مسمی.
حضور راشد میاں علیہ الرحمہ قائد ملت رئيس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے بھتیجے اور زبدۃ السالکین فیض العارفين حضرت علامہ شاہ غلام آسی پیا حسنی بوالعلائی جہانگیری علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند، الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کے نامور فاضل زبردست عالم دین، خانقاہ عالیہ ابوالعلائیہ جہانگیریہ آسویہ مدھوپور، اترولہ، بلرامپور کے سجادہ نشین اور گم گشتہ گان راہ کے لئے ہادی ورہنما تھے صدق و صفا، عزم و استقلال، استقامت و عزیمت،اخلاق و مرؤت میں اپنی مثال آپ تھے آپ کی خلوت و جلوت کا عینی مشاہدہ کرنے کے بعد میں بڑے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ آج کے دیگر پیروں کے بر عکس حضرت کے ظاہر و باطن میں یگانگت و یکسانیت تھی آپ کا دل ہمیشہ خوف خدا سے لرزیدہ اور جستجوئے مولا کے لئے جوئیدہ رہتا تھا خدمت خلق خدا اور اشاعت دین متین آپ کا نصب العین تھا انھیں جذبات صالحہ اور خدمات عالیہ کے سبب آپ کی فانی زندگی لافانی ہوگئی. دن کے اجالے میں امت مسلمہ کی فلاح و صلاح کی فکروتدبیر اور حکمت وخدمت میں پیہم رواں دواں رہتے رات کی تاریکی میں اللّه و رسول کے ذکر و فکر کی مجلسیں سجاتے یاد الہی میں کبھی کبھی آپ پر استغراقی کیفیت بھی طاری ہو جاتی تھی اوراد و اذکار کے ساتھ وعظ ونصیحت کی محفلیں بھی خوب جمتیں تھیں آپ کی مجلسوں میں روحانیت و نورانیت کا ایسا سماں ہوتا تھا کہ روح انسانی میں بالیدگی کی بہار، مشام جاں میں ژولیدگی کی مہکار، حریم ناز کے جلوؤں کی پکار ہوتی تھی. وجیہ و شکیل بارعب نورانی چہرہ مہرہ، لبوں پر مسکراہٹ کے آثار ، سنت رسول کے مطابق لمبی زلفیں، سر پر بوالعلائی تاج، صوفیانہ مزاج، خانقاہی رنگ ڈھنگ، عالمانہ چال چلن، جو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا جو بات کرلیتا وہ گرویدہ ہوجاتا آپ سخاوت و مرؤت کے ایسے پیکر تھے کہ اگر کوئی حاجت مند آپ کی بارگاہ میں آجاتا اس کا دامنِ مراد بھرجاتا اور مہمان نوازی کے ایسے خوگر تھے کہ اگر خانقاہ میں کوئی مہمان آجاتا تو بلا امتیاز اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلاتے اس کی خدمت میں لگ جاتے اخلاق ایسا کہ غیر بھی دیکھتا تو دیوانہ ہوجاتا صوم و صلوٰۃ کے اتنے پابند کہ سفر میں بھی جماعت کا التزام فرماتے فرائض کے ساتھ نفلی روزوں کا بھی اہتمام پابندی سے کرتے. سچ کہا ہے خانقاہ کے ایک دیوانے نے "واقعی میں راشد میاں بوالعلائی کرامت کی چلتی پھرتی تصویر تھے”کیا کیا بیان کیا جائے غرضیکہ : ع_ "خدا مغفرت کرے بہت خوبیاں تھیں جانے والے میں”
اللہ تعالیٰ اپنے حبيب شافع محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے وطفیل حضرت کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے متوسلین و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم.
سوگوار : محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719 hashimazmi78692@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close