مضامین

جب پنڈت نہرو کے عہد میں دستور خطرے میں تھا

ترجمہ و تلخیص ایڈوکیٹ محمد بہا ء الدین

26 جنوری 1950کونئے دستور ہند کااآغاز نہایت ہی تزک واہتمام کے ساتھ نافذالعمل ہوا۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق موجودہ دستور بہت ہی واضح اور انسانی حقوق پر مشتمل ہے جو عام اور غریب لوگو ں کے لیے ہے جو نئی یونین آف ریپبلک انڈیا کے لیے بہت ہی اعتماد اور یقین کے ساتھ نافذہوا۔دنیا کے سب سے بڑے دستور ساز آکسفورڈ ڈان سر کینیتھ اس دستور کے بارے میں کہا کہ . ….یہ سب سے بڑی اور روشن خیال جمہوریت حکومت کے لیے ایک تجربہ ہے۔۔۔۔
بی آر امبیڈ کر نے دستور ساز اسمبلی میں اس ے مستقبل کے بارے میں بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کی سیاسی و سماجی میدان میں ہیروورشپ موجود ہے اور یہاں سماجی و معاشی نابرابری ہے۔ یہ ساٹھ ستر برس پہلے کہی ہوئی بات آج پھر سے موضوع بحث معاملہ بنا ہوا ہے۔ اور اس بحث و مباحثہ میں بہت سے لوگ امبیڈکر کے ڈر و خوف اور خیالات سے متفق ہوتے ہیں۔
آج کے موجودہ نظریات میں جو بی جے پی کی جانب سے دستور کے سلسلے میں دھمکیاں ہیں اور جبکہ آر ایس ایس کا مستقل طور پر نظریہ ہے جس کی بناء پر وہ موجودہ احتجاج کو دیکھتے ہیں۔ اور اس طرح یہ کوشش کی جاتی ہے ان احتجاج کرنے والوں کی امیج کو وہ دستور کے مخالفین میں شمار کرتے ہیں جبکہ یہ حق انہیں اجتماعی طور پر دستور میں دیئے گئے دستور کے دیپاچہ خوانی کے ذریعہ ہی اپنے احتجاج کا آغاز کرتے ہیں۔ اور جس کی مخالفت مودی سرکار کی حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ جبکہ دیگر آوازیں جو اپوزیشن کی جانب سے آتی ہیں وہ مشترکہ و متفقہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ہم سب دستور کے محافظ و نگران کار ہیں۔ کئی برسوں کے بعد اختلاف رائے کے استعمال کو پھر سے قانونی طور پر اُسے بغاوت کا روپ دیئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ ساری چیخ و پکار صرف دستور کے تحفظ کے لیے ہورہی ہے اور ان کی یہ آواز پورے ہندوستان میں حرکیاتی طور پر عوامی آواز بن چکی ہے۔
سب سے آسان متوازی واقعہ جو اس سے مماثل قرار دیا جاتا ہے وہ ایمرجنسی کا واقعہ ہے۔ جو واقعی طور پر دستور پر وہ ایک حملہ تھا۔ جس میں اپوزیشن کے بنیادی حقوق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور اس وقت کی ریلی میں بھی یہ چیخ و پکار اُٹھتی تھی کہ دستور خطرے میں ہے۔ حالانکہ 1975ء کا معاملہ یا چیخ و پکار دستور کے خطرے میں ہونے کا یہ کوئی پہلی دفعہ نہ تھا۔ جبکہ اس قسم کی ریلیاں ہندوستانی سیاست میں داخلی طور پر شامل تھیں۔ جبکہ 1951ء کے 14/مہینے کے بعد ہی یعنی پہلے جنرل الیکشن کے چھ مہینے قبل ہندوستان کی پہلی حکومت جو جواہر لال نہرو کی قیادت میں بنی تھی جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ بنیادی حقوق کو پہلی ترمیم کے ذریعہ ہی تبدیل کیا گیا ہے۔
1951ء میں آج ہی کی طرح سیاسی طاقت کا معاملہ بالکل اسی طرح تھا۔ جبکہ کانگریس کی سیاست طاقت پوری اکثریت سے پارلیمنٹ میں عمل پیرا تھی۔ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس سیاسی طور پر حاشیہ پر تھے۔ جبکہ شاما پرساد مکھرجی، آچاریہ کرپلانی اور ہردے ناتھ کنزرو نے حزب مخالف کی بنچوں اعزاز بخشا تھا۔ اُس وقت پنڈت نہرو کی قدآور شخصیت اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کی بولتی تصویر تھی۔
مارچ 1950ء میں اختلاف کا آغاز اُس وقت ہوا جب رفیوجیوں کے داخلہ سے متعلق تنقیدیں شروع ہوچکی تھیں اور اسی طرح مغربی بنگال میں قتل و غارت گیری اور مدراس میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی تھی، ا س لیے حکومت نے کوشش کی تھی کہ اُس وقت کے آر ایس ایس کے ہفتہ وار اخبار آرگنائزر کو سینسر کے قانون سے پابند کیا گیا۔ جس کے جواب میں اُس وقت کے طویل زمانہ سے مقرر ایڈیٹر آر کے ملکانی نے اُس بارے میں لکھا ہے کہ ”پریس کی آزادی کے لیے دھمکی دینا یہ اپاہج قانون کے ذریعہ کوشش کرنا خود ایک جرم ہے، اور ظالمانہ طور پر استعمال کیا جانے والا یہ طریقہ کار جس کے ذریعہ شہری حقوق اور جمہوریت کی آزادی قتل کرنے کے مترادف ہے، جبکہ حکومت کو ہمیشہ ہی اپوزیشن کی تنقیدوں سے ہی زیادہ سیکھنے کو ملتا ہے، اس لیے کہ اپوزیشن کی سوچ آزادانہ شہریوں کی سوچ و فکر پر مشتمل ہوتی ہے نہ کہ اُن کے حکومت میں رہنے والے مکروہ چاپلوسی کرنے والوں کی سوچ۔“ ملکانی اور آر ایس ایس نے سینسرشپ کے آرڈر کو دستور کے آرٹیکل 19 کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اُس وقت اُن کے اس مقدمہ کی پیروی مشہور وکیل این سی چٹرجی جو سابق میں ہندو مہاسبھا کے صدر رہ چکے تھے اور مستقبل میں ہونے والے کمیونسٹ سالار سومناتھ چٹرجی کے والد تھے۔ سپریم کورٹ نے اُن کی بحث کے بعد سینسرشپ کے آرڈر کو غیر دستوری ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا تھا۔
مذکورہ بالا مقدمہ کے بعد نہرو سرکار کو اُس کے بعد یکے بعد دیگرے آزادانہ تقریر و تحریر زمینداری جائیداد بغیر معاوضہ دیئے ہوئے حصول میں بھی ناکامی ملی تھی۔ جس کی وجہ سے راست طور پر پہلی ترمیم جو دستور میں کی گئی ہے جس میں تقریر کی آزادی وغیرہ کے معاملات جو بنیادی حقوق کے ابواب میں دیئے گئے ہیں اور جس میں بغاوت کے قانون کی منظوری دی گئی تھی یہ سب مسائل اُسی زمانہ میں آچکے تھے۔
شہری حقوق اور آزادی پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی مخالفت میں اُٹھنے والی آوازوں کو اپوزیشن نے نہرو حکومت کے خلاف اُٹھایا تھا۔ ہندو نیشنلسٹ جیسے ایس پی مکھرجی اور ایم آر جیاکر، گاندھیائی قائد جیسے آچاریہ کرپلانی، روشن خیال قائد جیسے ہردے ناتھ کنزرو، سوشلسٹ جیسے شبّن لال سک سنہہ اور جئے پرکاش نارائن اور کانگریس ہی کے باغی ایچ وی کامتھ اور شیامانندن اُس زمانہ میں پیش پیش رہے۔
پارلیمنٹ میں بھی قائد اپوزیشن کا چارج شیاما پرساد مکھرجی کو دیا گیا جو مستقبل کی بھارتیہ جن سنگھ کے فاؤنڈر تھے جن کے ذریعہ اُن کے کئی ساتھی وجود میں آئے۔ اور اُن کے کہنے کے مطابق ”مجھے یہ مشورہ دینے دیجئے کہ آپ کبھی بھی ڈھٹائی سے متاثر نہیں ہوسکتے ہیں بشرطیکہ آپ کا سیاسی طور پر دستور پر عبور ہو۔ حالانکہ دستور ایک منٹ کے لیے بھی ہم سے دور نہ ہونا چاہیے۔ تاکہ ہم اپنے افکار و خیالات کا تحفظ اور دفاع دستوری حدود میں رہ کر کرسکیں۔“
اُن کا یہ عہد تھا کہ ہمارے اختلاف کے باوجود ہم پہلی ترمیم کو نہ روک سکے۔ لیکن مکھرجی کی وارننگ جو نہرو کو دی گئی تھی اُس کی اصلیت نہرو کو پارلیمنٹ کے بحث و مباحثہ کے دوران متعلقہ امور پر محسوس ہوئی۔ مکھرجی کا یہ کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اقتدار دائمی طور پر کیوں نہ حاصل ہو لیکن آنے والی نئی نسل اور جو نسلیں ابھی پیدا نہیں ہوئی ہیں انہیں ان تمام باتوں سے واقفیت ہوجائے گی اوریہ بالکلیہ طور پر ممکن ہے۔ لیکن اگر فرض کیجیے اگر دوسری پارٹی اقتدار میں آجائے تب؟ پھر کیا روایت آپ چھوڑ کر جانے والے ہیں؟

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close