مضامین

مرثیہ بر وفاتِ مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب نور اللّٰه مرقدہ

محمد دانش انور قاسمى جامعه حُسَينيه مدنى نگرکشن گنج

اسرارِ حق تھا صاحبِ عرفاں چلا گیا
خاموش ہوکے ملکِ خموشاں چلا گیا

وارث نبی کا، اور وہ نمونہ علی کا تھا
علم و عمل کا سُنبُل و رَیحاں چلا گیا

کِذب و خیانتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیر میں
صدق و صفا کا نَیّرِ تاباں چلا گیا

اتنے بڑے سے عہدے پہ ہوکر فقیر تھا
دُرویش تھا خدا کا، وہ سلطاں چلا گیا

ہم درد تھا وہ قوم کا، بانٹا بھی خوب وہ
پیر و جواں کے درد کا درماں چلا گیا

مِل کر سبھی کو یوں لگا کہ 171میں ہی خاص ہوں187
اُسوۂ نبی کا اِک بڑا عنواں چلا گیا

نازاں تھی خطابت، کبھی رقصاں تھی صحافت
جس پر کبھی وہ عالم و داناں چلا گیا

اپنے نحیف جسم کے قطرۂ لہو سے وہ
تاریکیوں کو کرکے چراغاں چلا گیا

سُلطانِ وقت ہوکے بھی، سادی تھی زندگی
وہ پَیروکارِ بوذر و سلماں چلا گیا

کوئی ہٹو بچو نہیں، بھیڑ و حَشَم نہیں
خلفائے راشدیں کا نموناں چلا گیا

غیروں کو اپنا اور قریبی کو وہ اقرب
کرکے سبھی کو شاداں، وہ فرحاں چلا گیا

171دنیا میں رہو جیسے رہے کوئی مسافر187
تصویر خود ہی بن کے وہ مہماں چلا گیا

اِک سِمت عالی رُتبہ و اِک طرْف سادگی
افسوس! وہ خدا کا کرِشماں چلا گیا

عزم و عمل کا کوہ وہ ایسا عظیم تھا
سَر کرکے پھر وہ فاتحِ میداں چلا گیا

171اے ایم یو187 ہی ہو کہ ہو 171دارالعلوم187 ہی
ماتم کناں ہیں سب کہ نگہباں چلا گیا

اسلامیانِ ہند کا اِک ترجُمان تھا
جس پر سبھی تھے راضی و رقصاں چلا گیا

اِک مجلسِ دعاء ہو یا ایوانِ ہند ہو
ہر بزم کا وہ مہرِ درخشاں چلا گیا

یارب قبول کیجیے اُن کے عمل تمام
دانشؔ سبھی کا ہمدمِ خنداں چلا گیا

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close