مضامین

اسلامی شناخت……….. موجودہ حالات کے تناظر میں

مولانا عبدالمعید قاسمی


مسلمانوں کے طَور طَرِیق اور رَہن سَہن کا ایک اہم جُزو ڈاڑھی اور سَرپُوش(ٹوپی و عمامہ )بھی ہے۔اِسی بنا پر یہ وَضع اور ہَیَئت ایک شخص کے (عام طور پر) مسلمان ہونے کا خاموش اعلان بھی ہے۔چُناں چِہ مُلکی و بَیْنَ الاَقْوَامِی سَفَر و حَضَر اور بھیڑ بھاڑ والی عوامی جگہوں public place میں،جہاں ہر شخص اَجنبی، اور ہر چہرہ نامانوس ہوتا ہے،اور اِس اَجنَبیت و نامانوسِیَت کی وجہ سے ماحول میں انسانیت بیزاری کی ایک گُھٹَن سِی ہوتی ہے، اگر ایسے وَحشت زدہ ماحول میں کچھ سَروں پر ٹوپی اور چہروں پر ڈاڑھی نظر آتی ہے تو وہاں موجود مسلم کمیونٹی community کے مَرد و خَواتین کی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی، اور اُنسِیت و اپنائیت کی ایک راحت اَفزا لَہر دوڑ جاتی ہے، اور اپنے ہم مذہبوں کی موجودگی سے دل تقویت اور اِستحکام کے ایک خوشگوار احساس سے کِھل اُٹھتا ہے، خاص طور پر اُس جگہ اور اُس ماحول میں جہاں کچھ تِرچھی نظریں اور قینچی کی طرح تیز زبانیں بیجا حَرکت و عمل میں مصروفِ کار ہوں۔
اسلام ایک عالَم گِیر اور آفاقی (Universal) مَذہب ہے، پوری دنیا اُس کا دائرہء عمل ہے۔اِس لیے اسلامی شِعار اور شَناخْت میں بھی آفاقِیَت اور عالَم گِیرِیَت کا پہلو نُمایاں ہے۔ڈاڑھی اور سَر پوش(ٹوپی و عمامہ) بھی عالَم گیر اسلامی شِعار ہے۔اِسی بنا پر مسلمان، اسلام کے اِس آفاقی شِعار اور شَناخت کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی خِطِّے میں ہوں، وہ بحیثیت مسلمان مُمتاز ہوتے ہیں، اور اپنے و پَرائے سب اُنھیں پہچان لیتے ہیں۔اِس سے اسلامی اِمتیازات و تَشَخُّصات کا یہ اِفادی پہلو بھی اُجاگر ہوکر سامنے آتا ہے کہ اگر مسلمان اسلامی شِعار اور شَناخت کے حامل ہوں تو یہ شِعار اور شَناخت خود اُن کی آواز بَن کر اُن کے مَذہبی وجود کا اِحساس دلائیں گے، اور خود بخود سُنَّت وشَریعَت کی ایک خاموش نُمائندگی اور تَرجُمانی ہوجائے گی۔
اسلامی شِعار کی اہمیت اور اُس کے مذکورہ اِفادی پہلوؤں کے پیشِ نظر مسلمانوں کو ڈاڑھی اور سَر پوش (ٹوپی و عمامہ) کو اپنانے اور اُس کے تَقدُّس اور احترام کو ملحوظ رکھنے، اورڈاڑھی مونڈنے، ننگے سَر رہنے کی بے جا رَوِش کو چھوڑنے کے لیے اپنے کو آمادہ کرنا ہوگا۔اِسی کے ساتھ مسلم مردوں کو، خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے ، اُنہیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ ڈاڑھی کیوں مونڈتے اور ہمہ وقت ننگے سَر کیوں رہتے ہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ڈاڑھی کبھی نہیں مونڈی،اِسی طرح ننگے سَر رہنا بھی آپ کا مَعمول نہیں تھا۔
ڈاڑھی رکھنے اور سَر ڈھکنے کے سلسلے میں بڑی بڑی پروفیسرانہ باتیں کی جاتی ہیں، اور کچھ اہلِ عقل و دانش ایسی ایسی موشگافی اور نکتہ آفرینی کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیبِ شرم سار ہوجاتی،اور تہذیبِ فَرَنگ کی باچِھیں کُھل اُٹھتی ہیں۔ یہ مرعوبیت زدہ تَمَسخُرانہ جملہ بھی کچھ اِسی ذہنیت کا عکاس ہے کہ ” اسلام میں ڈاڑھی ہے، ڈاڑھی میں اسلام نہیں”، یہ کوئی عالمانہ تعبیر نہیں ہے، البتہ عالمانہ جُملے بازی اور عارفانہ کوتاہ نظری ضرور ہے، کیوں کہ حضورؐ کے ارشاد کے مطابق ڈاڑھی رکھنے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا،اور یہ تمام انبیا کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے۔اِسی تَسَلسُل میں اُمّتِ مُسلِمہ کے لیے بھی ڈاڑھی رکھنے کا حکم ہے۔اس لیے”ڈاڑھی میں اسلام نہیں”، لیکن ڈاڑھی پچھلی تمام شریعتوں میں تھی، اور تمام نبیوں کی سُنّت ہے۔کیا تعمیلِ حکم اور سَرِ تسلیم خَم کرنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔بایں ہمہ عشقِ رسول کا جذبہ اگر سَرد نہیں پڑا ہے، اور دینی حِس بالکل مُردہ نہیں ہوئی ہےتو حضو رؐکے نام لیواؤں کو اپنے چہروں پر ڈاڑھی سجانے، اور سَروں پر ٹوپی و عمامہ کا تاج رکھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ڈاڑھی رکھی،اور کبھی نہیں مونڈی۔ اسی طرح ٹوپی و عمامہ سے سَر ڈھکنا آپ کی عادتِ شریفہ تھی، اور ننگے سَر رہنا آپ کا معمول نہیں تھا، تو جو ادا اور طَرز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اسوہء حَسنَہ کا اٹوٹ حصہ ہے،وہی عقیدت مندوں اور وفا شِعاروں کے لیے راہِ عمل اور نشانِ منزل ہے۔سچّے عاشق، محبوب کی نقل کرکے لَذّتِ جاوید حاصل کرتے ہیں، لیکن جن دلوں میں عشق کی شمع روشن نہیں ہوتی ہے وہاں زبان خوب چلتی ہے،لیکن قوتِ عمل مفلوج ہوتی ہے۔
در اصل مغرب و مشرق، عرب و عَجَم ہر جگہ ایسے عَناصِر Elements موجود ہیں جنھیں ڈاڑھی و سَر پوش سَمیت ہر طرح کی اسلامی شناخت identity سے چِڑھ ہے۔قرآن مجید نے ایسے عَناصِرکی نفسیات Psychology کواچھی طرح واضح کردیا ہے کہ”جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو،وہ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے "(البقرہ 120)۔اس لیے اسلامی شِعار کے خلاف پروپیگنڈوں کے مَنفی اثرات سے بچنے اور اصل اسلامی تعلیمات کی تشہیر و تبلیغ کی منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
احادیث میں ڈاڑھی کو نبیوں کی سنت اور فطرت کی پُکار بتایا گیا ہے، اور اس کو رکھنے و بڑھانے کی تاکید گئی ہے، اور نہ رکھنے والوں کی روش سے اظہارِ بیزاری کا حکم دیا گیا ہے۔یہ سب تاکید اور واضح حُکم اس پس منظر میں ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کی ایک پہچان قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے ڈاڑھی کو عادت اور رواج کے زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اسے اسلامی معاشرہ کے ایک شعار،اور اسلامی تہذیب کے ایک نشان کی حیثیت دینے،اور اِسی حیثیت سے اپنانے،اور اُس کے تقدس اور احترام کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی بعض ڈاڑھی رکھنے والوں کےخراب حالات و معاملات کی وجہ سے ایسے تبصروں سے گُریز بھی ناگُزیر ہے جن سے ڈاڑھی و دَستار کی بے وقعتی یا ہلکا پن ظاہر ہوتا ہو۔
ایک صاحبِ نظر سے کسی نے پوچھا جناب یہ جو پاجامہ اور داڑھی اوپر رکھتے ہیں تو اسی میں توسارا اسلام نہیں ہے۔اُنہوں نے پوچھنے والے سے کہا ، تم مُٹھی بھر مٹی اٹھا کے ہوا میں اچھالو، اس نے اچھالا جو ہوا کے ساتھ ایک طرف اڑ کے گر گئی۔پوچھا، کیا اندازہ ہوا؟ بتایا، ہوا کا رخ معلوم ہوگیا۔ فرمایا، بالکل یہی بات اسلامی شعار و شناخت کو اپنانے میں بھی ہے۔پورا اسلام ہو نہ ہو،لیکن ان امور سے آدمی کی ذہنیت کا رخ بہرحال متعین ہو جاتا ہے۔ یعنی ظاہر، باطن کا عکاس ہوتا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں کو فطرت میں سے شُمار فرمایا ہے،جن میں داڑھی بڑھانا اور مونچھ کترنا بھی شامل ہے۔(صَحیح مُسلِم كِتَاب الطهارة/بَاب خِصَالِ الفِطْرَةِ) ۔شریعت کے عرف میں’ فطرت’ اُن اُمور کو کہا جاتا ہے جو تمام نبیوں کی متفقہ سنت اور معمول ہو، نیز اُمَّت کواختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔اس لیے ہمیں اپنے آپ کو ذہنی و عملی طور سے ڈاڑھی و سَر پوش سے ہم آہنگ کرنے اور اس کے تَقدُّس کو ملحوظ رکھنے کے لیے مُثبت پیش رفت کرنا چاہیے۔یہی شریعت کی مَنشا اور وقت کا تقاضا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close