اسلامیات

عقیدہ نمبر 36۔ تعویذ پہننا کیسا ہے

مولانا ثمیر الدین قاسمی، مانچیسٹر، انگلینڈ

اس عقیدے کے بارے میں 4 آیتیں اور 29 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
تعویذ کی سات قسمیں ہیں
]۱[۔۔۔قرآن اور حدیث کی جائز تعویذ کو جائز مقصد کے لئے پڑھی جائے، یا کی جائے تو یہ جائز ہے
]۲[۔۔۔ تعویذ یا منتر میں اللہ کے علاوہ سے مدد مانگی گئی ہو تو یہ حرام ہے
]۳[۔۔۔تعویذ، یا منتر میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کا معنی کا پتہ نہیں ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس میں اللہ کے علاوہ سے مدد مانگی گئی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے
]۴[۔۔۔نظر بد لگنا
]۵[ جادو۔۔ یہ کرنا حرام ہے
]۶[ عراف۔۔ جو غیب جاننے کا دعوی کرتا ہو۔ اس کے پاس جانا حرام ہے
]۷[ جنات نکالنا
تعویذ کرنے کی دو صورتیں ہیں
]۱[۔۔۔ایک ہے قرآن اور حدیث کو پڑھ کر پھونکنا، اس کا ثبوت حدیث میں ہے۔
]۲[۔۔۔دوسرا ہے کہ آیت یا حدیث کو لکھ کر گلے میں لٹکانا، حدیث میں اس کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔۔ ہر ایک کے لئے آگے آیت اور حدیث دیکھیں
بعض تعویذ کرنے والوں کا مکر
دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں
سب نہیں، بعض تعویذ کرنے والا، بیچ بیچ کی باتیں کرتا ہے، وہ نہ یہ کہتا ہے کہ جنات ہے، اور نہ وہ اس کا انکار کرتا ہے، بلکہ یوں کہتا ہے کہ اس پر جنات کا سایہ ہے یعنی جنات ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔، اور اس کے اتارنے کے لئے کافی پیسے وصول کر لیتا ہے، اور مہینوں بعد نہ اترے تو یہ کہہ دیتا ہے کہ میں ایک جنات کو نکال دیا تھا، لیکن اب اس کے خاندان کے لوگ آگئے ہیں، اب اس کو اتارنے کے لئے اور پیسے لگیں گے۔
کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں، کہ آپ کے قریب کے لوگوں نے جادو کیا ہے، یا تعویذ کی ہے،، اورقریب میں پڑوسن، بھاوی، ساس، اور نند ہوتیں ہیں تو ان میں سے کسی ایک سے زندگی بھر کے لئے اندر ہی اندر دشمنی ہو جاتی ہے ، اور بعض مرتبہ بڑا ہنگامہ ہو جاتا ہے، اور یہ سب تعویذ والا کرواتا ہے، حالانکہ خود تعویذ والے کو اس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے ایسے تعویذ، اور جادو والوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
اس آیت میں اس کی وضاحت ہے
1۔ فیتعلمون منہما ما یفرقون بہ بین المرء و زوجہ و ما ہم بضارین بہ من اھد الاباذن اللہ۔ (آیت۲۰۱، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعہ شوہر، اور بیوی میں جدائی پیدا کر دیں، اور یہ واضح رہے کہ وہ اس کے ذریعہ کسی کو اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے
اس آیت میں فرمایا کہ یہ جادو کرنے والے عموما ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ میاں، بیوی میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے، بعض مرتبہ رشتہ داروں میں دشمنی کروا دیتا ہے۔واقعی بعض تعویذ کرنے والے رشتہ داروں میں اختلاف کروا دیتے ہیں۔
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ان تعویذ والوں کو ایک بات کا پتہ لگتا ہے تو اس میں سو جھوٹ ملا کر مریض کو بتاتے ہیں تاکہ اس کو یقین آجائے، اور اس کی دکان خوب چلے
اس کے لئے حدیث یہ ہے۔
1۔عن عائشۃ قالت قلت یا رسول اللہ! ان الکہان کانوایحدثونا بالشیء فنجدہ حقا، قال تلک الکلمۃ الحق یخطفھا الجنی فیقذفھا فی اذن ولیہ، و یزید فیھا ماءۃ کذبۃ۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکہان، ص۹۸۹، نمبر ۸۲۲۲ /۶۱۸۵)
ترجمہ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ، میں نے کہا کاہن کچھ بات ہم لوگوں سے کہتا ہے تو ہم اس کو سچ پاتے ہیں!تو حضور ؐ نے فرمایا کہ جنات کوئی ایک سچی بات کو کہیں سے پا لیتا ہے، وہ اپنے موکل کو بتاتا ہے، اور موکل اس میں سو جھوٹ ملا دیتا ہے
اس حدیث میں ہے کہ موکل سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو کہتا ہے
جس گھر میں تعویز کا رواج ہو جاتا ہے، اس کی جان نہیں چھوٹتی
بعض مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس گھر میں تعویذ کا رواج بہت ہو جاتا ہے، تو انکے گھر والوں کو اس کا وہم ہو جاتا ہے، اور کوئی بھی پریشانی آئے تو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی نے کوئی جادو کر دیا ہے، یہاں تک کہ ہاتھ سے اچانک برتن گر جائے تو بھی سمجھتے ہیں کہ کسی کے جادو کرنے سے یا تعویذ کرنے سے ہی برتن گرا ہے، اس کو لاکھ سمجھاؤ کہ یہ اچانک برتن گرا ہے، یا یہ درد یا بیماری کی وجہ سے ہے تو وہ نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے دماغ میں تعویذ، یا جادو کا بھوت ہے، پھر اس جادو کے اتروانے کے لئے تعویذ والے کے پاس جاتے ہیں، اور وہ بیچ بیچ کی بات کرکے اچھی خاصی رقم وصول کرتے رہتے ہیں، اور زندگی بھر پھسائے رکھتے ہیں کیونکہ اس کو تو پونڈ وصول کرنا ہے، اور معاشرے میں اپنی شہرت حاصل کرنی ہے
اس لئے مودبانہ گزارش ہے کہ ان وہموں سے دور رہیں، اسی لئے حضور ؐ نے بعض تعویذ، اور جادو کو منع بھی کیا ہے، اس کے لئے آگے دیکھیں
تعویذ سے ذہنی طور پر تھوڑی تسلی ہو جاتی ہے
ایک تعویذ کرنے والے نے مجھے 4 چار باتیں بتائیں
]۱[ جس پر ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں وہ عموما ذہنی مریض ہوتے ہیں، یا تو اس کو نیندنہیں آتی، یا اس کے ذہن پر خوف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈرتا رہتا، اور کوئی آواز آجائے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ جنات، یا شیطان کی آواز ہے، اور اب وہ ہم پر حملہ کرے گا، اس خوف سے، یا اس وہم سے وہ ڈرتا رہتا ہے، اور بعض مرتبہ اس کو اس خوف کی وجہ سے آٹھ گھنٹے کی پوری نیند نہیں آتی، وہ تھوڑی دیر سوتا ہے، اور اٹھ جاتا ہے، اب اس کم سونے کی وجہ سے پورا دن دماغ میں درد رہتا، گردن میں درد رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر جنات سوار ہے، اور اس سے وہ بے چین ہوجاتا ہے، حالانکہ کوئی جنات نہیں ہوتا، اس کو کہاں فرصت ہے کہ وہ اس کے گردن پر سوار ہو،اور اپنا کام چھوڑ کر یہاں بسیرا کرے، اصل معاملہ یہ ہے کہ خوف کی وجہ سے، یا گھریلو ٹینشن کی وجہ سے اس کو نیند نہیں آئی ہے، جس کی وجہ سے پورا جسم ٹوٹ رہا ہے
جب میرے پاس مریض آتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس کو ٹینشن ہے، اور نیند نہیں آئی ہے، لیکن سیدھا کہنے سے کام نہیں بنتا، اس لئے کہتا ہوں کہ یہ تعویذ لو اس سے سارے جنات بھاگ جائیں گے ، اس جھاڑ پھونک سے مریض کو تسلی ہو جاتی ہے کہ جنات، اور جادو بالکل بھاگ گیا،، اس سے اس کا خوف ختم ہو جاتا ہے، اب وہ آرام سے سو جاتا ہے، اور اس سونے کی وجہ سے اس کی بیماری ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہماری تعویذ، ایک قسم کی تسلی ہے۔
]۲[۔۔ انہوں نے دوسری بات یہ بتائی کہ، ہمارے ہاتھ میں کوئی کرشمہ نہیں ہوتا، ہم لوگ تو مختلف قسم کی دعائیں لکھ کر دے دیتے ہیں، اس میں اثر ڈالنا صرف خدا کام ہے، اگر وہ چاہیں تو اس سے شفا ہو جاتی ہے، اور نہ چاہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس لئے ہمارے ہاتھوں میں کوئی کرشمہ نہیں ہوتا
]۳[۔۔ اور تیسری بات یہ بتائی کہ عموما ہمارے ہاتھ میں کوئی جنات، یا موکل تابع نہیں ہوتا، عوام کا یہ وہم اتنا صحیح نہیں ہے، ممکن کہ یہ ہوتا ہو لیکن میرے علم تک یہی ہے کہ جنات تابع نہیں ہوتا، پیسہ بنانے کے لئے بہت سے لوگ یہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ، میرے پاس موکل ہے، اگر ایسے ہی ہے تو اس موکل سے پیسہ کیوں نہیں جمع کروا لیتا، یہ دوسروں سے کیوں مانگتے پھرتے ہیں؟
]۴[ ۔۔ اور چوتھی بات یہ بتائی کہ ہمیں غیب کا بھی پتہ نہیں ہوتا، ہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ بیمار کو ادھر ادھر سے کچھ باتیں پوچھ لیتے ہیں، اس سے ایک اندازہ ہو جاتا ہے، پھر اپنی ذہانت سے، اور اپنے تجربہ سے، بیچ بیچ کی بات سمجھانے لگتے ہیں، اور یہ تأثر دیتے ہیں کہ مجھے غیب کا علم ہے، یا مجھے آپ کے بارے میں جنات نے ساری معلومات د ے دی ہیں، چونکہ وہ لوگ عامی لوگ ہوتے ہیں، اس لئے ہماری باتوں پر یقین کرلیتے ہیں، اور سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم لوگوں کوعلم غیب ہے، یا ہم پہنچے ہوئے بابا ہیں، جو بیمار کی ہر بات جانتے ہیں
اور اگر کوئی ذہین آدمی آگیا، اور اس نے ہماری باتوں کو پرکھنا شروع کر دیا تو ہم لوگ اس سے زیادہ بات نہیں کرتے، بلکہ اس سے جان چھڑاتے ہیں تاکہ ہماری بنی بنائی شہرت خاک میں نہ مل جائے، اور آنے والے پیسے بند نہ ہو جائیں، کیونکہ ہمارے پاس پیسہ کمانے کے لئے یہی ایک اچھی دکان ہوتی ہے، جس میں ملتا بہت ہے، اور خرچ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس مخلص تعویذ والے کی بات کہاں تک سہی ہے، یہ وہی جانے، البتہ اس کی باتوں میں کچھ جان تو ہے
آپ بھی ان کی باتوں سے فائدہ اٹھائیں، اور دھوکہ کھانے سے محفوظ رہیں۔۔و اللہ اعلم بالصواب۔
]۱[۔۔قرآن اور حدیث کی جائز تعویذ
یہ ضروری ہے کہ تعویذ کے ذریعہ لوگوں کی پریشانی دور کرنا مقصود ہو تو ٹھیک ہے، اور اگر تعویذ اس لئے کر رہا ہو کسی کو ستانا مقصود ہو، یا بیوی اور شوہر کے درمیان نفرت کرنا مقصود ہو، یا رشتہ داروں کے درمیان نفرت بڑھانا مقصود ہو تو ایسی تعویذ جائز نہیں ہے، اس کا سخت گناہ ہو گا
تعویذ میں ایسے کلمات ہوں جن سے صرف اللہ سے مدد مانگی گئی ہو تو یہ جائزہے، بلکہ تعویذ میں وہ کلمات ہوں جن سے حضور ؐ نے تعویذ کی ہے تو بہت بہتر ہے، اور چونکہ حضور ؐ کے کلمات ہیں اس لئے اس سے اثر بھی زیادہ ہو گا، اور ثواب بھی ملے گا
2۔ عن عبد العزیزقال دخلت انا و ثابت علی انس بن مالک، فقال ثابت: یا ابا حمزۃ اشتکیت فقال انس الا ارقیک برقیۃ رسول اللہ ﷺ؟ قال بلی قال اللھم رب الناس مذھب الباس، اشف انت الشافی، لا شافی الا انت، شفاء لا یغادر سقما۔ (بخاری شریف، کتاب الطب، باب رقیۃ النبی ﷺ، ص ۴۱ ۰۱، نمبر ۲۴۷۵)
ترجمہ۔ حضرت عبد العزیز نے فرمایا کہ،میں اور ثابت حضرت انس کے پاس آئے ، تو حضرت ثابت نے کہا، اے ابو حمزہ میں بیمار ہوں؟، تو حضرت انس نے فرمایا، حضور ؐ نے جو تعویذ کی ہے میں وہ تعویذ نہ کروں!، تو ثابت نے کہا ہاں! تو حضرت انس ؓ نے یہ دعا پڑھی، اس کا ترجمہ یہ ہے۔۔اے انسان کے رب، تکلیف دور کرنے والے، شفا دے دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے
اس حدیث میں ہے کہ صرف اللہ تعالی ہی شفاء دینے والا ہے، اس لئے صرف اسی سے مدد مانگنی چاہئے
پھرتعویذ کرنے کے دو طریقے ہیں
]۱[ ایک ہے تعویذ کے کلمات پڑھ کر مریض پر پھونکنا، یہ جائز ہے، کیونکہ حضور ؐ نے مریض پر پڑھ کر دم فرمایا ہے
]۲[ دوسرا ہے کہ تعویذ کے کلمات کاغذ پر لکھ کر گلے میں، یا بانہوں پر لٹکانا، یہ صورت اتنی اچھی نہیں ہے، اس کی پوری تفصیل آگے آرہی ہے

حضور ؐ نے تعویذ کے کلمات پڑھ کر مریض پر دم فرمایاہے
اس کے لئے احادیث یہ ہیں
3۔ عن عائشۃ قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا اشتکی من انسان مسحہ بیمینہ ثم قال أذہب الباس رب الناس و اشف انت الشافی لا شفاء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب استحباب رقیۃ المریض، ص۲۷۹، نمبر۱۹۱۲ /۷۰۷۵)
ترجمہ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں، کہ کوئی آدمی بیمار ہوتا تو حضور ؐ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کو پوچھتے، پھر کہتے، اے انسان کے رب، تکلیف دور کر دے۔ اور شفا دے دے، آپ ہی شفا دینے والے ہیں، صرف تیری ہی شفا ہے، ایسی شفا دے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے
4۔ عن عبد العزیز قال دخلت انا و ثابت علی انس بن مالک، قال ثابت یا ابا حمزۃ اشتکیتُ فقال انس: ألا أرقیک برقیۃ رسول اللہ ﷺ؟قال بلی، قال الہم رب الناس مذہب الباس، اشف انت الشافی لا شافی الا انت، شفاء لا یغادر سقما۔ (بخاری شریف، باب رقیۃ النبی ﷺ، ص ۴۱۰۱، نمبر ۲۴۷۵)
ترجمہ۔ میں اور ثابت حضرت انس کے پاس آئے ، تو حضرت ثابت نے کہا، اے ابو حمزہ میں بیمار ہوں؟، تو حضرت انس نے فرمایا، حضور ؐ نے جو تعویذ کی ہے میں وہ تعویذ نہ کروں!، تو ثابت نے کہا ہاں! تو حضرت انس ؓ نے یہ دعا پڑھی، اس کا ترجمہ یہ ہے۔۔اے انسان کے رب، تکلیف دور کرنے والے، شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے
آیت پڑھ کر دم کیا کرتے تھے اس کی دلیل یہ حدیث ہے
5۔ عن علی ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ خیر الدواء القرآن۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الطب، باب الاستشفاء بالقرآن، ص ۹۰۵، نمبر ۳۳۵۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ، قرآن بہترین دوا ہے۔
6۔عن عائشۃ ؓ ان النبی ﷺ کان ینفث علی نفسہ فی مرضہ الذی قبض فیہ بالمعوذات۔ (بخاری شریف، کتاب الطب، باب المرأۃ الرجل، ص ۵۱۰۱، نمبر ۱۵۷۵)
ترجمہ۔ جس مرض میں حضور ؐ کی وفات ہوئی، اس میں حضور ؐ اپنے اوپر، قل اعوذ برب الفلق، اور،قل اعوذ برب الناس،پڑھ کر پھونکا کرتے تھے
7۔عن عائشۃ ان النبی ﷺ کان ینفث فی الرقیۃ۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الطب، باب النفث، ص ۸۰۵، نمبر ۸۲۵۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ تعویذ میں دم کیا کرتے تھے
ان احادیث سے تین باتوں کا پتہ چلا،
]۱[ ایک تو یہ کہ آیت اور حدیث کے الفاظ سے تعویذ کرنا جائز ہے۔
]۲[ دوسری بات یہ ہے کہ تعویذات میں صرف اللہ ہی سے مدد مانگی جائے، وہی شفا دینے والے ہیں، کسی اور سے ہر گز شفا طلب کرنا جائز نہیں ہے، بعض مرتبہ وہ شرک شمار ہو جاتا ہے
]۳[ اور تیسری بات یہ ہے کہ الفاظ پڑھ کر پھونکنا جائز ہے۔
پاگل پن اتارنے کے لئے یہ دعا حدیث میں ہے
حضور ﷺ نے یہ آیتیں پڑھ کر پاگل پر دم کیا، اور وہ ٹھیک بھی ہو گیا
حدیث یہ ہے
۔عن عبد الرحمن بن ابی لیلی عن ابیہ ابی لیلی قال کنت جالسا عند النبی ﷺ اذ جاء ہ اعرابی، فقال ان لی أخا وجعا قال ما وجع أخیک؟ قال بہ لمم، قال اذھب فأتنی بہ قال فذھب فجاء بہ فاجلسہ بین یدیہ فسمعتہ عوذہ بفاتحۃ الکتاب و اربع آیات من اول البقرۃ و آیتین من وسطھا (و الٓھکم الہ واحد)] آیت ۳۶۱، سورہ البقرۃ ۲[ و آیۃ الکرسی، و ثلاث آیات من خاتمتھا، و آیۃ من آل عمران أحسبہ قال (شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو) و آیۃ من الاعراف (ان ربکم اللہ) ]آیت ۴۵، سورہ الاعراف۷ [وآیۃ من المومنین (و من یدع مع اللہ الٓھا أخر لا برھان لہ بہ)] آیت ۷۱۱، سورت المومنون ۳۲[ و آیۃ من الجن (و انہ تعالی جد ربنا)]آیت ۳، سورہ الجن۲۷ [و عشرۃ آیات من اول الصافات و ثلاث آیات من آخر الحشر، و (قل ھو اللہ احد) ] آیت ۱، سورت الاخلاص ۲۱۱[ و المعوذتین، فقام الاعرابی قد برأ، لیس بہ بأس۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الطب، باب الفزع و الارق و ما یتعوذ بہ منہ، ص ۱۱۵، نمبر ۹۴۵۳)
ترجمہ: حضرت ابو لیلی فرماتے ہیں کہ میں حضور ؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا میرے بھائی کو کچھ تکلیف ہے، حضور ؐ نے پوچھا تمہارے بھائی کو تکلیف کیا ہے؟، دیہاتی نے کہا کہ اس کو کچھ پاگل پنی کا اثر ہے، حضور ؐ نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس لیکر آؤ، دیہاتی جاکر لے آیا، ان کو حضور ؐ کے سامنے بیٹھایا، تو میں نے سنا کہ انکی ان آیتوں سے تعویذ کر رہے تھے،سورہ فاتحہ پڑھی، اور سورہ بقرۃ سے چار آیتیں پڑھیں،اور اس کے درمیان سے، (و الٓھکم الہ واحد)] آیت ۳۶۱، سورہ البقرۃ ۲[۔ پڑھی، اور آیۃ الکرسی پڑھی،اور سورہ بقرہ کے آخیر سے تین آیتیں پڑھیں،اور سورہ آل عمران سے ایک آیت پڑھی، میرا خیال یہ ہے کہ، (شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو) پڑھی۔ اور سورہ سورہ اعراف سے، (ان ربکم اللہ) پڑھی، اور سورہ مومنین سے ایک آیت، (و من یدع مع اللہ الٓھا أخر لا برھان لہ بہ)پڑھی، اور ایک آیت سورہ جن سے، (و انہ تعالی جد ربنا) پڑھی، اور سورہ صافات کے شروع سے دس آیتیں پڑھیں، اور سورہ حشر کے آخیر سے تین آیتیں پڑھیں،اور سورہ اخلاص (قل ھو اللہ احد)پڑھی، اور سورہ،قل اعوذ برب الفلق، اور،قل اعوذ برب الناس،پڑھ کر دم کیا تو دیکھا کہ وہ پاگل بالکل ٹھیک ہو چکا تھا، اس کو کوئی بیماری نہیں تھی
اس حدیث میں ہے کہ حضور ؐ نے اتنی ساری آیتیں پڑھ کر پاگل کا علاج کیا، اور وہ ٹھیک بھی ہو گیا
یہ حقیقت تو ہے لیکن اس وقت پاگل کے علاج میں ذہین لوگ لوٹتے بہت ہیں، ان سے چوکنا رہیں
]۲[۔۔دوسرا ہے کہ آیت یا حدیث کو لکھ کر گلے میں لٹکانا
اہل عرب کوڑیوں کو دھاگا میں پرو کر ہار بناتے تھے، اور اس کو بیمار کے گلے میں لٹکا دیتے تھے، اور بعض مرتبہ اللہ کے علاوہ جن، شیطان اور بھوت سے مددبھی مانگتے تھے، کوڑیوں کے ایسے ہار کو، تمیمۃ، کہتے ہیں، حضور ؐ نے ایسے، تمیمۃ، کو لٹکانا شرک فرمایا ہے
اس کی دلیل یہ حدیث ہے
8۔ عن عبد اللہ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان الرقی و التمائم و التولۃ شرک۔ (ابو داود شریف، کتاب الطب، باب فی تعلیق التمائم، ص ۲۵۵، نمبر ۳۸۸۳/ ابن ماجۃ شریف، کتاب الطب، باب تعلیق التمائم ، ص۸۰۵، نمبر۰۳۵۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ، جادو کے لئے جھاڑ پھونک کرنا، کوڑی کا ہار لٹکانا، اور جادو کرنا شرک ہے
9۔عن عقبۃ بن عامر الجہنی ان رسول اللہ ﷺ اقبل الیہ رھط فبایع تسعۃ و امسک عن واحد فقالوا یا رسول اللہ بایعت و ترکت ھذا؟ قال ان علیہ تمیمۃ فادخل یدہ فقعھا فبایعہ و قال من علق تمیمۃ فقد اشرک۔ (مسند احمد، باب حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی، ج ۵، ص ۶۵۱، نمبر ۹۶۹۶۱)
ترجمہ۔ حضرت عقبۃ بن عامر فرماتے ہیں کہ حضور ؐ کے پاس ایک جماعت آئی، تو نو آدمیوں سے بیعت کی اور ایک سے نہیں کی، تو لوگوں نے پوچھا کہ، یا رسول اللہ آپ نے سب سے بیعت کی اور اس ایک کو چھوڑ دیا!تو آپ ؐنے فرمایا کہ اس پر کوڑی کا ہار لٹکا ہوا ہے اس آدمی نے اپنا ہاتھ داخل کیا اور ہار کو نکال دیا، پھر آپ ؐ نے بیعت کی، اور یوں فرمایا کہ،جس نے ہار لٹکایا، تو گویا کہ اس نے شرک کیا۔
اس حدیث میں ہے کہ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا
10۔ ان ابن مسعود کان یقول کان النبی ﷺ یکرہ عشر خلال….و الرقی الا بالمعوذات و عقد التمائم۔ (ابو داود شریف، کتاب الخاتم، باب ما جاء فی خاتم الذہب، ص ۲۹۵، نمبر ۲۲۲۴)
ترجمہ۔ حضور ؐ دس باتوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔۔۔،قل اعوذ برب الفلق، اور قل اعوذ برب الناس، کے علاوہ سے تعویذ کرنا، اور ہار لٹکانا ] یعنی ان دس باتوں کو ناپسند فرماتے تھے [
تعویذ نہ لٹکائے اور صبر کرے تو یہ تقوی کا اعلی درجہ ہے،
اس کے لئے حدیث یہ ہے
11۔عن ابن عباس ؓ قال خرج علینا النبی ﷺ یوما….. فرأیت سوادا کثیرا سد الافق فقیل ھٰولاء امتک و مع ھٰولاء سبعون الفا یدخلون الجنۃ بغیر حساب۔۔۔۔ فقال ہم الذین لا یتطیرون و لا یکتون و لا یسترقون و علی ربھم یتوکلون۔ (بخاری شریف، باب من لم یرق، ص ۶۱۰۱، نمبر ۲۵۷۵)
ترجمہ۔ حضور ؐ ایک دن ہمارے سامنے تشریف لائے۔۔۔آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جو افق کو گھیری ہوئی تھی، مجھ سے یہ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے، ان کے ساتھ ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔۔۔آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بد فالی، نہیں لیتے، جسم کو نہیں داغتے ، تعویذ نہیں کرتے، صرف اپنے رب پرتوکل کرتے ہیں
اس آیت میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ پر توکل کرنا چاہئے
2۔ و الیہ یرجع الامر کلہ فاعبدہ و توکل علیہ۔ (آیت ۳۲۱، سورت ھود ۱۱)
ترجمہ۔ تمام معاملہ اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے، اس لئے اسی کی عبادت کرو، اور اسی پر توکل کرو۔
اس آیت اور حدیث میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ تعویذ نہ کرے، اور اللہ پر بھروسہ کرے تو بہت بہتر ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں تعویذ والے عوام کو بہت بیو قوف بناتے ہیں، اور بہت لوٹتے ہیں۔
کبھی کبھار تعویذ لٹکا لی جس سے تسلی ہو جائے تو اس کی تھوڑی سی گنجائش ہے
حدیث میں تعویذ لٹکانے کو منع فرمایا ہے، لیکن صحابی اور تابعی کے قول اور عمل سے اس کی تھوڑی سی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس لئے کبھی کبھار کر لیا، اور اس میں بھی اللہ پر ہی بھروسہ کیا، کہ تعویذ سے کچھ نہیں ہوتا، کرنے والی ذات صرف اللہ ہی ہے تو اس کی گنجائش ہے، اس سے دل کی تسلی ہو جاتی ہے
تعویذ لٹکانے میں صحابی کا عمل یہ ہے
12۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ ﷺ قال؛ اذا فزع احدکم فی النوم فلیقل، اعوذ کلمات اللہ التامات من غضبہ و عقابہ و شر عبادہ و من ھمزات الشیاطین و ان یحضرون، فانھا لن تضرہ ، قال فکان عبد اللہ بن عمر یعلمھا من بلغ من ولدہ، و من لم یبلغ منھم کتبھا فی صک ثم علقھا فی عنقہ۔ (ترمذی شریف، کتاب الدعوات، باب دعاء الفزع من النوم، ص ۴۰۸، نمبر ۸۲۵۳)
ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی کو نیند میں گھبراہٹ ہو تو یہ کہے،، اعوذ کلمات اللہ التامات من غضبہ و عقابہ و شر عبادہ و من ھمزات الشیاطین و ان یحضرون،یہ دعا پڑھنے سے اس کو نقصان نہیں ہو گا،
راوی کہتے ہیں کہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر یہ دعا اپنے بالغ اولاد کو سکھلاتے تھے، اور جو بالغ نہیں تھی، تو ایک کاغذ پر لکھ پر اس کی گردن میں لٹکا دیتے تھے
تابعی کا قول یہ ہے
13۔ عن عطاء قال لا بأس ان یعلق القرآن۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۵،کتاب الطب، باب من رخص فی تعلیق التعاویذ، ص ۳۴، نمبر ۰۴۵۳۲/ ۰۵۵۳۲)
ترجمہ۔ حضرت عطا ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن میں سے کسی چیز کو تعویذ کے طور پر لٹکا دے تو کوئی حرج نہیں ہے
14۔عن الضحاک لم یکن بأسا ان یعلق الرجل الشیء من کتاب اللہ اذا وضعہ عند الغسل و عند الغائط ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۵،کتاب الطب، باب من رخص فی تعلیق التعاویذ، ص ۳۴، نمبر ۲۴۵۳۲/ ۲۵۵۳۲)
ترجمہ۔ حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی قرآن میں سے کوئی چیز تعویذ کے طار پر لٹکائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، بشرطیکہ غسل کے وقت میں اور پیخانہ کے وقت میں اس کو نکال کر الگ رکھ دے
15۔ عن یونس بن خباب قال سألت ابا جعفر عن التعویذ یعلق علی الصبیان، فرخص فیہ،(مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۵،کتاب الطب، باب من رخص فی تعلیق التعاویذ، ص ۳۴، نمبر۱۵۵۳۲)
ترجمہ : حضرت یونس ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے بچوں پر جو تعویذ لٹکاتے ہیں اس کے بارے میں حضرت ابو جعفر ؒسے پوچھا، تو انہوں نے اس کی گنجائش دی
حدیث میں تو تعویذ لٹکانا منع ہے، البتہ اس کو پڑھ کر پھونکنا جائز ہے، البتہ ان تابعی کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانے کی تھوڑی سی گنجائش ہے، لیکن اس کو دھندا نہ بنا لے۔
تعویذ کرنے کے لئے معاوضہ لینے کی تھوڑی سی گنجائش ہے
اس کے لئے یہ حدیث ہے
16۔ عن ابی سعید الخدری ان ناسا من اصحاب رسول اللہ ﷺ کانوا فی سفر فمروا بحی من احیاء العرب…..فاتاہ فرقاہ بفاتحۃ الکتاب فبرأ الرجل فاعطی قطیعا من غنم ….ثم قال خذوا منہم و اضربوا لی سہم۔ ( (مسلم شریف، کتاب السلام، باب جواز اخذ الاجرۃ علی الرقیۃ بالقرآن و الاذکار ، ص۵۷۹، نمبر۱۰۲۲ /۳۳۷۵/ بخاری شریف، کتاب الطب، باب الرقی بفاتحۃ الکتاب، ص ۳۱۰۱، نمبر ۶۳۷۵)
ترجمہ۔ حضور ؐ کے کچھ صحابی سفر میں تھے، وہ عرب کے ایک گاؤں سے گزرے۔۔۔آدمی مریض کے پاس آیا اور سورہ فاتحہ پڑھ کر پھونکا، جس کی وجہ سے مریض ٹھیک ہو گیا، اور اس نے چند بکریاں دیں۔۔۔آپ نے فرمایا اس سے بکریاں لے لو، اور اس میں میرا بھی حصہ رکھو
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھار تھوڑا تعویذ کا پیسہ لے لیا تو اس کی گنجائش ہے
لیکن تعویذ کا دھندا بنا لینا ٹھیک نہیں ہے
اس کے لئے ی احادیث ہیں
17۔عن عبادۃ بن الصامت قال علمت ناسا من اھل الصفۃ القرآن و الکتابۃ فأھدی الی رجل منھم قوسا فقلت لیست بمال و ارمی عنھا فی سبیل اللہ، فسألت رسول اللہ ﷺ عنھا فقال، ان سرک ان تطوق بھا طوقا من نار فاقبلھا۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب التجارات، باب الاجر علی تعلیم القرآن، ص ۰۱۳، نمبر ۷۵۱۲)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ، انہوں نے فرمایا کہ میں نے صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن اور کتابت سکھلایا، تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ھدئے میں دیا، میں نے دل میں کہا کہ یہ تو مال نہیں ہے، میں اس کے ذریعہ اللہ کے راستے میں تیر پھیکوں گا، میں نے اس بارے میں حضور ؐ سے پوچھا، تو حضور ؐ نے فرمایا کہ، اگر تم کو یہ خوشی ہو کہ آگ کا طوق پہنو تو اس کو قبول کر لو
18۔عن ابی بن کعب قال علمت رجلا القرآن فاھدی الی قوسا فذکرت ذالک لرسول اللہ ﷺ فقال ان اخذتھا اخذت قوسا من نار، فرددتھا۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب التجارات، باب الاجر علی تعلیم القرآن، ص ۰۱۳، نمبر ۸۵۱۲)
ترجمہ : حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قرآن سکھلایا، تو انہوں نے مجھے ایک کمان ھدئے میں دیا، میں نے حضور ؐ سے اس کا ذکر کیا، تو حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر تم نے اس کو لیا تو گویا کہ آگ کا کمان لیا، تو میں نے اس کو واپس کر دیا۔
۔ یعنی قرآن پڑھانے کے بدلے میں تیر کا لینا گویا کہ آگ کو لینا ہے، اس لئے تعویذ کے بدلے میں پیسے لینے کا دھندا بنا لینا ٹھیک نہیں ہے
اس حدیث میں ہے کہ دوائی استعمال کرنا جائز ہے
بیماری کی دوائی کروانا، اور اس کا علاج کروانا سنت ہے
19۔عن جابر عن رسول اللہ ﷺ انہ قال لکل داء دواء فاذا اصیب دواء الداء برأ باذن اللہ تعالی۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب لکل داء دواء و استحباب التداوی ص۷۷۹، نمبر۴۰۲۲ /۱۴۷۵)
ترجمہ۔ حضور ؐ سے روایت ہے کہ، ہر بیماری کی دوا ہے، اگر بیماری کی صحیح دوا مل جائے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے
]۲[۔۔ تعویذ یا منتر میں اللہ کے علاوہ سے مدد مانگی گئی ہو تو یہ حرام ہے
]۳[۔۔۔تعویذ، یا منتر میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کا معنی کا پتہ نہیں ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس میں اللہ کے علاوہ سے مدد مانگی گئی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ سے مدد مانگنا جائز نہیں ہے
غیر مسلم لوگ جو جنتر، منتر کرتے ہیں وہ عموما اپنی دیوی، دیوتا سے مدد مانگتے ہیں، اور اس میں شرکیہ کلمات ہوتے ہیں اس لئے ان سے جنتر، منتر ] تعویذ[ نہیں کرواناچاہئے
ان دونوں کے لئے حدیث یہ ہے۔
20۔عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ،فقلنا یا رسول اللہ! کیف تری فی ذالک؟، فقال اعرضوا علی رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک، ص۵۷۹، نمبر۰۰۲۲ / ۲۳۷۵)
ترجمہ۔ عوف بن مالک فرماتے ہیں، ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے، میں نے کہا یا رسول اللہ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ، اپنی جھاڑ پھونک مجھے بتاؤ، پھر آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں شرک نہیں ہے تو جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرکیہ کلمات سے جھاڑ پھونک کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اللہ سے مدد مانگی گئی ہو، تو اس تعویذ کے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں ہے
]۴[۔ نظر بد لگنا
کسی کی نظر کسی کو لگ جائے جس سے اس کو نقصان ہو جائے، یہ حق ہے
جس آدمی کی نظر لگتی ہے، اس میں اس کوئی اختیار نہیں ہوتا، خود بخود نظر لگ جاتی ہے، اس لئے اس کو برا بھلا کہنا نہیں چاہئے، کیونکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے
جس آدمی کی نظر لگتی ہے، اس کو چاہئے کہ جب کوئی عجیب چیز دیکھے تو ما شاء اللہ، کہہ دے تو اس کہنے سے اس کی نظر نہیں لگے گی
اس کا علاج یہ ہے کہ جس کی نظر لگی ہو اس کو غسل دو، اور غسل کے پانی کو مریض پر ڈال دو، تو اس سے نظر بد ختم ہو جائے گی
اس کے لئے حدیث یہ ہے
21۔عن ابی ہرہرۃ عن النبی ﷺ قال العین حق۔ (بخاری شریف، کتاب الطب، باب العین حق، ص ۴۱۰۱، نمبر ۰۴۷۵)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ نظر لگنا حق ہے
22۔عن ابن عباس عن النبی ﷺ قال العین حق، و لو کان شیء سابق القدر سبقتہ العین،و اذا استغسلتم فاغسلوا۔(مسلم شریف،کتاب السلام، باب الطب و المرض و الرقی، ص ۱۷۹، نمبر ۸۸۱۲/ ۲۰۷۵)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایاہے کہ نظر لگنا حق ہے، اگر تقدیر سے کوئی چیز آگے بڑھ سکتی ہے تو نظر لگنا بڑھ سکتا ہے، اگر تم سے کوئی کہے کہ غسل کرو، تو غسل کر لیا کرو
، اس حدیث میں ہے کہ جس کی نظر لگی ہے، اس کو غسل کرنے کے لئے کہے تو اس کو غسل کر لینا چاہئے
]۵[۔ جا دو کرنا حرام ہے
اس کے لئے یہ آیت ہے
3 ۔ و ما کفر سلیمان و لکن الشیاطین کفرو ا یعلمون الناس السحر۔ (آیت ۲۰۱، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ حضرت سلیمان ؑ نے کوئی کفر نہیں کیا، البتہ شیطان لوگوں کو جادو کی تعلیم دیکر کفر کا ارتکاب کرتے تھے
اس آیت میں ہے کہ جادو کرنا کفر ہے
23۔عن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال ان رسول اللہ ﷺقال اجتنبوا السبع الموبقات قالوا یا رسول اللہ ما ہن؟قال الشرک باللہ، و السحر، و قتل النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔ (بخاری شریف، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالی، ان الذین یأکلون اموال الیتمٰی ظلما، الخ، ص ۸۵۴، نمبر ۶۶۷۲/ مسلم شریف، کتاب الایمان، باب الکبائر و اکبرہا، ص ۳۵، نمبر ۹۸/ ۲۶۲)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟ فرمایا، اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، اللہ نے جس نفس کو حرام کیا ہے اس کو قتل کرنا، ہاں جس کو قتل کرنے کا حق بنتا ہے، اس کو قتل کرے تو نہیں۔
اس حدیث میں ہے کہ جادو کرنا گناہ کبیرہ ہے
سحر کی ایک حقیقت ہے
اس آیت میں اس کا ذکر ہے
4۔ فاذا حبالھم و عصیھم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی۔ (آیت ۶۶، سورت طہ ۰۲)
ترجمہ۔ پھر اچانک اس کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں حضرت موسی کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں
24۔عن عائشۃ، ان النبی ﷺ سحر حتی کان یخیل الیہ انہ صنع شیئا و لم یصنعہ۔ (بخاری شریف، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب ھل یعنی عن الذمی اذا سحر، ص ۹۲۵، نمبر ۵۷۱۳)
ترجمہ۔ حضور ؐ کو جادو کیا گیا، جس کی وجہ سے آپ کو خیال ہوتا تھا کہ فلاں کام کر لیا ہے، حالانکہ وہ کام آپ نہیں کئے ہوتے تھے
25۔عن عائشۃ قالت سحر رسول اللہ ﷺ یہودی من یھود بنی زریق یقال لہ لبید بن الاعصم، قالت:حتی کان رسول اللہ ﷺ یخیل الیہ انہ یفعل الشیء و ما یفعلہ۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب سحر، ص۱۷۹، نمبر ۹۸۱۲/ ۳۰۷۵)
ترجمہ۔ بنی زریق کے ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا، اس کا نام لبید بن اعصم تھا، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ، حضور ؐ کا حال یہ ہو گیا تھا، آپ کو خیال ہوتا تھا کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے، حالانکہ وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کی ایک حقیقت ہے، اور حضور ؐ پر بھی اس کا اثر ہوا تھا
لیکن آج کل ہر تعویذ والے جادو اور جن کا جواثر بتاتے ہیں، وہ اکثر جھوٹ ہوتا ہے
]۶[۔عراف جو غیب کا دعوی کرتا ہو
کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں مجھے غیب کا علم ہے، اور کچھ لوگ صاف تو نہیں کہتے، لیکن تأثر دیتے رہتے ہیں کہ مجھے مریض کے بارے میں سارا علم ہے، ایسے لوگوں کو،عراف، کہتے ہیں، بہت زیادہ جاننے والا ۔
عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ تعویذ اور جادو کی دکان لیکر بیٹھے ہیں وہ آنے والے لوگوں کو یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مجھے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے، اور بیچ بیچ کی باتیں کرکے سامنے والوں کے دل میں یہ پختہ کر دیتے ہیں کہ یہ واقعی میں غیب کی بات جانتے ہیں، اور ہمارا حال اس کو معلوم ہے، اس لئے یہ جادو نکال دیں گے، اور اس کے لئے وہ اچھا خاصا روپیہ دے دیتے ہیں، آج کے دور میں یہ بھی ایک قسم کا غیب داں اور عراف ہے اس لئے ان کے پھیرے میں نہیں پڑنا چاہئے
عراف کی باتوں کی تصدیق کرنا جائز نہیں
عقیدۃ الطحاویۃ میں عبارت یہ ہے
۔و لا نصدق کاہنا و لا عرافا، و لا من یدعی شیئا یخالف الکتاب و السنۃ و اجماع الامۃ۔ (عقیدۃ الطحاویۃ، عقیدہ نمبر ۱۰۱، ص ۱۲)
ترجمہ۔ ہم کاہن اور عراف کی تصدیق نہیں کرتے، اسی طرح جو قرآن، حدیث، اور اجماع امت کی مخالف باتیں ہوں، ان چیزوں کا دعوی کرتاہو تو ہم اس کی بھی تصدیق نہیں کرتے
عراف کے پاس جانے سے چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی
اس کے لئے حدیث یہ ہے۔
26۔ عن بعض ازواج النبی ﷺ قال من اتی عرافا فسالہ عن شیء لم تقبل لہ صلاۃ اربعین لیلۃ۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکہان، ص ۰۹۹، نمبر ۰۳۲۲ / ۱۲۸۵)
ترجمہ۔ بعض بیویوں نے حضور ؐ سے نقل کیا ہے، جو آدمی عراف کے پاس آئے، اور اس سے کچھ پوچھے، تو اس کی چالیس دنوں کی نماز قبول نہیں ہوتی
27۔عن معاویۃ الحکم السلمی قال قلت یا رسول اللہ! امور کنا نصنعہا فی الجاہلیۃ، کنا ناتی الکہان، قال ﷺ فلا تأتوا الکہان قال قلت کنا نتطیر قال ذاک شیء یجدہ احدکم فی نفسہ، فلا یصد نکم (مسلم شریف، کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکہان، ص۹۸۹، نمبر ۷۲۲۲ /۳۱۸۵)
ترجمہ۔ حضرت معاویہ سلمی فرماتے ہیں، یا رسول اللہ! زمانہ جاہلیت میں ہم میں کچھ کام کیا کرتے تھے ، مثلا ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا کہ، کاہنوں کے پاس مت جاؤ، میں نے کہا کہ ہم لوگ بد فالی، لیا کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایسے ہی کچھ بات دل میں لے آتے ہو، بد فالی تمہاری کسی چیز کو روکتی نہیں ہے ] یعنی بد فالی سے کچھ نہیں ہوتا [
28۔عن ابی ہریرۃ، و الحسن عن النبی ﷺ قال من اتی کاھنا او عرافا فصدقہ بما یقول فقد کفر بما انزل علی محمد ؐ۔ (مسند احمد، مسند ابی ہرہرۃ، ج ۵۱، ص ۱۳۳، نمبر ۶۳۵۹)
ترجمہ۔ حضور ؐ سے روایت ہے کہ جو کاہن کے پاس، یا عراف کے پاس آیا، اب وہ جو کچھ کہتا ہے، اس نے اس کی تصدیق کی، تو جو حضور ؐ پر جو قرآن اترا ہے گویا کہ اس کا انکار کیا۔
اس حدیث میں ہے کہ کاہن، اور عراف کے پاس جائے، اور اس کی تصدیق کرے تو وہ تصدیق کرنے والا کافر ہو جائے گا۔
آج کل کتنے تعویذ والے ہیں جو کاہن اور عراف کی طرح غیب کی باتوں کا دعوی کرتے ہیں، اور لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں، اب بتائے کہ اس کے ایمان کا کیا حال ہو گا۔۔ اس سے بچنا چاہئے
29۔عن عائشۃ قالت قلت یا رسول اللہ! ان الکہان کانوایحدثونا بالشیء فنجدہ حقا، قال تلک الکلمۃ الحق یخطفھا الجنی فیقذفھا فی اذن ولیہ، و یزید فیھا ماءۃ کذبۃ۔ (مسلم شریف، کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکہان، ص۹۸۹، نمبر ۸۲۲۲ /۶۱۸۵)۔ترجمہ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ، میں نے کہا کاہن کچھ بات ہم لوگوں سے کہتا ہے تو ہم اس کو سچ پاتے ہیں!تو حضور ؐ نے فرمایا کہ جنات کوئی ایک سچی بات کو کہیں سے پا لیتا ہے، وہ اپنے موکل کو بتاتا ہے، اور موکل اس میں سو جھوٹ ملا دیتا ہے
اس حدیث میں ہے کہ موکل سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو کہتا ہے
]۷[۔ جنات نکالنا
لوگ کہتے ہیں کہ کچھ تعویذ والے جنات نکالتے ہیں، لیکن کس طرح نکالتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے، اور نہ اس بارے میں کوئی حدیث، یا قول صحابی مجھے نہیں مل سکا، مجھے اس کا بھی پتہ نہیں ہے کہ جنات کسی پر سوار بھی ہوتا ہے، یا نہیں، صرف ایسے ہی اڑاتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں معذور ہوں۔
اس عقیدے کے بارے میں 4 آیتیں اور 29 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close