اہم خبریں

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

محمد سفیان القاسمی، گڈا جھارکھنڈ

میں بچپن سے پر جوش تقریروں میں سنا کرتا تھا کہ جنگ آزادی میں علماء کرام نے قائدانہ کردار ادا کیا، علماء نے تن، من، دھن ہر طرح کی قربانی پیش کی، اگر علماء جنگ میں حصہ نہ لیتے تو ہمارا ملک کبھی آزاد نہ ہوتا.

مگر حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جن کی زبانوں پر علماء علماء کا لفظ کثرت سے آتا تھا جب اپنی قربانی پیش کرنے کی باری آئی تو ان کی زبانوں پر قائدین قائدین کا لفظ آنے لگا انھوں نے فرار کا اچھا راستہ اور بہترین بہانہ تلاش کر لیا اب وہ بجاءے اس کے کہ میدان میں آتے اور آگے بڑھ کر قائدانہ کردار کرتے، کہنے لگے قائدین کہاں ہیں، قائدین کہاں ہیں،

جب کہ جنگ آزادی کی تاریخ میں ایسا کوئی باب نہیں ملتا اور نہ ہی کسی باب کے کسی حصہ میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ ان علماء نے قائدین کو تلاش کرنے کے لئے کوئی مضمون لکھا ہو یا قائدین کی تلاش پر مبنی کوئی تقریر کی ہو، ہاں ایسا ہوا کہ جہاں چند ہم خیال جمع ہوءے انھوں نے آپس میں کسی کو قائد بنالیا اور ان کی قیادت میں جد و جہد شروع کردی، انھوں نے اس کا انتظار نہیں کیا کہ کسی تنظیم کا پہلے ہم کو سردار بنیادیں اور موجودہ سردار استعفا دے دیں، تب ہم کام کریں گے، بلکہ خود سے انھوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کی جماعت بنائی اور انھوں نے وہ کام کیا جو دنیا کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے.

مگر آج کل کے کچھ علماء قسم کے لوگ قائدین کی تلاش میں ہیں اور تماشا یہ بھی ہے کہ ان کی زبان و قلم سے کبھی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ،، کوئی قائد نہیں،، میں کسی کو قائد نہیں مانتا،، وغیرہ اور کبھی انھیں لوگوں کے بارے میں جن کو یہ قائد نہیں مانتے، ان کے بارے میں کہتے ہیں، قائدین کہاں ہیں، تف ہے ایسے منافقانہ رویہ پر. یہ محض فرار کا ایک بہانہ ہے. یا اس بہانے سے کسی پر کیچڑ اچھالنا ان کا مطمح نظر ہے.

اگر عام لوگ قائدین کو تلاش کریں تو ان کے لئے وجہ جواز ہو سکتی ہے لیکن فضیلت کی سند رکھنے والے علماء قسم کے لوگ جن کو خود قیادت کرنی چاہیے، قائدین کو تلاش کرنے لگیں تو اس پر آپ اپنے سر کو ہی پیٹ سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور آپ کیا کر سکتے ہیں؟

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close