اسلامیات

عقیدہ نمبر 29۔ایمان کی تفصیل

مولانا ثمیر الدین قاسمی، مانچیسٹر، انگلینڈ

اس عقیدے کے بارے میں 14 آیتیں اور6 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں
چھ چیزوں پر ایمان ہو تو آدمی کو مومن قرار دیا جائے گا
ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا انکار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا، لیکن اگر ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا انکار نہیں کرے گا تو وہ کافر نہیں ہو گا، وہ مسلمان ہی رہے گا ، اس لئے ذرا ذرا سی بات پر کفر کا فتوی دینا جائز نہیں ہے۔
]۱[ اللہ پر ایمان ہو
]۲[ رسول پر ایمان ہو
]۳[ کتاب یعنی قرآن کریم پر ایمان ہو
]۴[ فرشتہ پر ایمان ہو
]۵[ آخرت کے دن پر ایمان ہو
]۶[ اور تقدیر پر ایمان ہو تو وہ مومن ہے
عقیدۃ الطحاویۃ میں ہے
کہ ان چھ چیزوں پر ایمان ہونا ضروری ہے
۔ و الایمان، ہو الایمان باللہ، و ملائکتہ، و کتبہ، و رسلہ، و الیوم الآخر، و القدر خیرہ و شرہ، و حلوہ و مرہ، (عقیدۃ الطحاویۃ، عقیدہ نمبر ۶۶، ص ۵۱)
ترجمہ۔ اللہ پر ایمان ہو،فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، تقدیر پر کہ خیر اور شر، اچھا اور خراب سب اللہ کی جانب سے ہے، اس پر ایمان ہو
اس عبارت میں ہے کہ چھ چیزوں پر ایمان لانے سے آدمی مومن بنتا ہے
ان چھ باتوں کی دلیل یہ ہیں۔
آیت یہ ہے
1۔اٰمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ و المومنون کل آمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ۔ (آیت ۵۸۲، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ یہ رسول (محمد ﷺ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان پر انکے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اور ان کے ساتھ تمام مسلمان بھی ان چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں،وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم انکے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ] کہ کسی پر ایمان لائیں اور کسی پر ایمان نہ لائیں [
اس آیت میں چار چیزوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔
2۔و لکن البر من آمن باللہ و الیوم الآخر و الملائکۃ و الکتاب و النبیین۔ (آیت ۷۷۱، سورت البقرۃ۲)
ترجمہ۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، اور اللہ کی کتابوں پر، اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں
اس کی دلیل یہ احادیث ہیں
1۔ عن یحی ابن یعمر…قال فاخبرنی عن الایمان؟قال ان تومن باللہ و ملائکتہ، و کتبہ، و رسلہ، و الیوم الآخر، و تومن بالقدر خیرہ و شرہ قال صدقت۔ (مسلم شریف، کتاب الایمان، ص ۵۲، نمبر ۸/ ۳۹)
ترجمہ۔ حضور ؐ سے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائے، تو حضور ؐ نے فرمایا کہ، اللہ پر ایمان لاؤ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، خیر اور شر اللہ کی جانب سے ہے، اس تقدیر پر ایمان لاؤ، فرشتے نے کہا، آپ نے سچ کہا
2۔ عن ابی سعید قال لقی رسول اللہ ﷺ ابن صائد فی بعض طرق المدینۃ……فقال اتشہد انت انی رسول اللہ؟ فقال النبی ﷺ آمنت باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الآخر۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء فی ذکر ابن صیاد، ص ۶۱۵، نمبر ۷۴۲۲)
ترجمہ۔ مدینے کے ایک راستے میں حضور ؐ کی ابن صائد سے ملاقات ہوئی۔۔۔ابن صائد نے کہا کہ کیا آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو حضور ؐ نے فرمایا کہ میں ایمان لاتا ہوں، اللہ پر، اس کے فرشتے پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر
ان آیت اوراحادیث میں چھ چیزوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے، اس لئے ان چھ چیزوں پر ایمان لائے گا تو مومن بنے گا ورنہ نہیں
اللہ پر ایمان کا مطلب
اللہ پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانے
کافر۔۔۔اب کوئی اللہ کو، خالق مانتا ہی نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ پوری دنیا خود بخود پیدا ہو گئی ہے، جیسے دہریہ کہتے ہیں، یا اس زمانے کے ناستک کہتے ہیں، تو ایسے آدمی کو، کافر،کہتے ہیں
مشرک۔۔۔ اور اگر خدا کوتو مانتا ہے، دنیا کو پیدا کرنے والا مانتا ہے، لیکن کئی خدا مانتا ہے تو اس کو،مشرک، کہتے ہیں۔۔۔ باقی تفصیل شرک کی بحث میں دیکھیں
کتاب ،قرآن،کو ماننے کا مطلب
قرآن ماننے کی تین صورتیں
]۱[ قرآن کے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہر ہر آیت کو مانے کہ یہ اللہ کی جانب سے اتری ہوئی آیت ہے، ان میں سے ایک آیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا
]۲[ صریح آیت سے کوئی حکم ثابت ہو تو اس کو ماننا بھی ضروری ہے، اس سے انکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا
مثلا نماز، روزہ صریح آیت سے ثابت ہے اس لئے اس کا انکار کرے گا، مثلا یہ کہے کہ میں نماز کو نہیں مانتا، یا روزے کو نہیں مانتا تو وہ کافر ہو جائے گا، کیونکہ اس نے آیت کا انکار کر دیا
فقہ کی کتابوں میں اسی بات کو کہا ہے کہ امور دینیہ کا انکار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا، یعنی وہ امور دینیہ جو صریح آیت سے ثابت ہو تو اس کو انکار کرنے سے آیت کا انکار کرنا لازم آتا ہے اس لئے اب وہ کافر ہو گا
لیکن کوئی آدمی مانتا ہے کہ نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے،اس کا انکار نہیں کرتا،لیکن سستی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا ہے، یا روزہ نہیں رکھتاہے، تو یہ اب کافر نہیں ہو گا، البتہ اس کو فاسق کہا جائے گا۔
مغلق آیت کی تفسیر ماننے کا اصول
]۳[ تیسری صورت یہ ہے کہ، آیت مغلق ہے، اس کا معنی واضح نہیں ہے، اور کسی صریح حدیث میں اس کا معنی بیان بھی نہیں ہوا ہے، اب دو مفسروں نے دو معنی بیان کئے ہیں، اب ایک آدمی آیت کو تو مانتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے اتری ہوئی آیت ہے، لیکن ایک تفسیر کو مانتا ہے، اور دوسری تفسیر کے اعتبار سے جو معنی بنتا ہے، یا دوسری تفسیر کے اعتبار سے جو حکم بنتا ہے وہ نہیں مانتا ہے، تب بھی یہ آدمی کافر نہیں بنے گا، کیونکہ اس نے آیت کو تو مانا ہے، البتہ اس کی مغلق تفسیر کو نہیں مانا، اس لئے وہ کافر نہیں بنے گا،
یہ اصول یاد رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ بہت سے مسلک والے ایسا کرتے ہیں کہ مبہم آیت کا معنی اپنی تفسیر کے اعتبار سے کرتے ہیں، اور دوسرے مسلک وا لے اس کو نہیں مانتے ہیں تو اس کو کافر قرار دے دیتے ہیں، اور اتنا تشدد کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں، اور کوئی اس کا نماز جنازہ پڑھا دے تو جنازہ پڑھانے والے، اورجنازہ پڑھنے والے سب کو کافر قرار دے دیتے ہیں اور ان سب کا نکاح توڑوا دیتے ہیں۔
اس نکتے پر غور کریں، کہ ایسے فتوے سے مسلمان کتنے ٹکڑوں میں بٹ گئے، اور آج مسلمانوں کا کیا حشر بنا ہوا ہے۔
آیت کے انکار سے کافر ہو جائے گا اس کے لئے آیتیں یہ ہیں
3۔ان الذین کفروا بآیات اللہ لھم عذاب شدید (آیت ۴، سورت آ ل عمران۳)
ترجمہ۔ بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، ان کے لئے سخت عذاب ہے
4۔و من یکفر بآیات اللہ فان اللہ سریع الحساب (آیت ۹۱، سورت آل عمران ۳)
ترجمہ۔ اور جو شخص بھی اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے گا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے
5۔ان الذین یکفرون بآیات اللہ و یقتلون النبیین بغیر حق۔ (آیت ۱۲، سورت آل عمران ۳)۔ترجمہ۔جو لوگ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں، اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ] ان کو دردناک عذاب کی خبر سنا دو[۔
6۔و لکن الظالمین بآیات اللہ یجحدون۔ (آیت ۳۳، سورت الانعام ۶)
ترجمہ۔ بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں
ان ساری آیتوں میں ہے کہ جو اللہ کی آیتوں کو نہیں مانے گا وہ کافر ہے
اور آیت کے انکار کا مطلب پہلے گزرا کہ قرآن کی کسی ایک آیت کا انکار کرے، یا آیت سے جو صریح حکم ثابت ہوتا ہو اس سے انکار کرنے سے آدمی کافر بنے گا
کتابوں اور سولوں پر ایمان لانے کا مطلب
آیت میں، و کتبہ و رسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ۔ (آیت ۵۸۲، سورت البقرۃ ۲) ، جمع کا صیغہ آیا ہے، اس کا مطلب دیکھیں
کتبہ۔ آیت میں کتبہ، جمع کا صیغہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں وہ سب بر حق ہیں، ہم ان سب پر ایمان رکھیں کہ وہ کتابیں اپنے اپنے زمانے کے ا عتبار سے رہنمائی کے لئے کافی تھیں، اور ان میں بھی ، اوپر کے ایمان کے وہ چھ جز موجود تھیں، جن پر ہم کو ایمان لانا ضروری ہے، البتہ انکے جزیاتی مسائل الگ الگ تھے، اب اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ مسائل اب منسوخ ہو گئے ہیں، اب تو حضور ؐ کی شریعت ہی پر عمل کرنا ہو گا
ان تمام آسمانی کتابوں کا احترام کریں، اور ان سے دل سے محبت کریں
و رسلہ۔ آیت میں رسلہ،جمع کا صیغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام رسولوں پر ایمان رکھیں کہ وہ اپنے اپنے زمانے میں بر حق رسول، اور نبی تھے، اور ان کی شریعت بر حق تھی، ان میں ایمان کے جو چھ جز ہیں ] اللہ، رسول، کتاب، فرشتہ، آخرت، اور تقدیر پر ایمان لانا [ یہ تمام نبیوں میں ایک ہی تھے، البتہ انکے جو جزیاتی مسئلے تھے، مثلا نماز کے طریقے، روزے کے طریقے، یہ الگ الگ تھے، اس لئے انکے جزیاتی مسئلے پر اب عمل نہیں کریں گے، اور چھ جز تو پر ہمارا ایمان ہو گا ہی
پچھلے رسولوں کی شریعت میں تھا کہ ان چھ چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے
اس کی دلیل یہ آیت ہے
۔آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ و المومنون، کل آمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ لا نفرق بین احدمن رسلہ۔ (آیت ۵۸۲، سورت البقرۃ۲)
ترجمہ۔ یہ رسول ] یعنی محمد ﷺ [ اس چیز پر ایمان لائے جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے، اور ان کے ساتھ تمام مسلمان بھی۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے
اس آیت میں ہے کہ پچھلے تمام رسولوں کی شریعت میں اللہ تمام رسول، فرشتے، اور تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری تھے
ان تمام رسولوں پر ایمان بھی رکھیں کہ وہ بر حق رسول، اور بر حق نبی تھے، اور ان کا احترام کرنا بھی لازم ہے، اور ان سے دل سے محبت بھی کریں، اس میں ادنی برابر کمی کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے، یہی اسلام کی تعلیم ہے
ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا انکار کرے گا
تو وہ کافر ہو جائے گا
ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا انکار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا، لیکن اگر ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا انکار نہیں کرے گا تو وہ کافر نہیں ہو گا، وہ مسلمان ہی رہے گا ، اس لئے ذرا ذرا سی بات پر کفر کا فتوی دینا جائز نہیں ہے۔
اس کی دلیل عقیدۃ الطحاویۃ کی یہ عبارت ہے
۔ و لا یخرج العبد من الایمان الا بجہود ما ادخلہ اللہ فیہ۔ (عقیدۃ اطحاویۃ، عقیدہ نمبر ۱۶، ص ۵۱)
ترجمہ۔ اللہ نے جن چیزوں پر ایمان رکھنے سے ایمان میں داخل کیا اسی کے انکار سے وہ ایمان سے نکلے گا
اس عبارت میں ہے کہ جب ان چھ باتوں کے اقرار سے آدمی مسلمان ہوتا ہے، اس لئے اسی میں سے کسی ایک کے انکار سے وہ ایمان سے نکلے گا، لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کا انکار نہیں کرتا تو وہ مومن ہی رہے گا،، اسی طرح گناہ کبیرہ کرنے سے وہ کافر نہیں ہو گا، ہاں گناہ کبیرہ کرنے کو حلال سمجھنے لگے تب وہ کافر ہو جائے گا، کیونکہ گناہ کبیرہ کو حلال سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ کبیرہ والی آیت کا انکار کر رہا ہے۔
دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان ہے
ایمان کے لئے جو چھ باتیں ضروری ہیں ان سب کو دل سے تصدیق کرے، اور زبان سے بھی اس کا اقرار کرے کہ میں مسلمان ہوں تب وہ مومن بنے گا، اور اگر وہ دل سے تصدیق نہیں کرتا صرف زبان سے اس کا اقرار کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہے، شریعت میں اس کو،منافق، کہتے ہیں، اور بعض کتاب میں یہ بھی ہے کہ اعضاء سے اس پر عمل کرے
زبان سے اقرار اس لئے ضروری ہے تاکہ اس پر دنیاوی احکام جاری کئے جائیں، مثلا: اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اس سے مسلمان عورت کا نکاح کیا جائے، کیونکہ اسلام کا اقرار نہیں کرے گا تو اہل دنیا کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ مسلمان ہے، اور اس پر اسلامی احکامات جاری کئے جائیں
عقیدۃ الطحاویۃ میں عبارت یہ ہے
۔و الایمان ہو الاقرار باللسان، و التصدیق بالجنان۔ (عقیدۃ الطحاویہ، عقیدہ، نمبر ۲۶، ص ۵۱)
ترجمہ۔ زبان سے اقرار کرنا، اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے
اس عبارت میں ہے کہ دل سے تصدیق کرنا، اور زبان سے اس کا اقرار کرنے کا نام ایمان ہے
قتل کے خوف سے ایمان کا انکار
اگر دل میں ایمان موجود ہے، لیکن قتل کے خوف سے زبان سے اللہ کا انکار کیا تب بھی وہ مومن ہی رہے گا، کیونکہ اصل ایمان دل میں اللہ کو ایک ماننا ہے
۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے۔
7 ۔من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفر صدرا فعلیہم غضب من اللہ و لہم عذاب عظیم (آیت ۶۰۱، سورت النحل ۶۱)
ترجمہ۔ جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے] تو وہ کافر ہے [ وہ کافر نہیں ہے جس کو زبردستی کلمہ کفر کہنے پر مجبور کر دیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پرمطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ہو ] تو وہ کافر ہوگیا [ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہو گا، اور ان کے لئے زبردست عذاب تیار ہے۔
ان آیات میں دو باتیں ہیں ]۱[ دل سے ایک اللہ کو نہیں مانتا ہوتب تو زبان سے کہنے سے بھی وہ اللہ کے یہاں مومن نہیں ہے۔ ]۲[ اور دوسری بات یہ ہے کہ دل میں ایمان جما ہوا ہے، لیکن کسی مجبوری سے زبان سے اللہ کا انکار کیا تو وہ مومن ہے، اس پر کفر کا فتوی لگانا صحیح نہیں ہے۔
8۔اولائک کتب فی قلوبہم الایمان۔(آیت۲۲، سورت المجادلۃ ۸۵)
ترجمہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ دل میں اللہ کی توحید کے جم جانے کا نام اصل ایمان ہے۔
3۔ عن انس عن النبی ﷺ قال یخرج من النار من قال لا الہ الا اللہ و فی قلبہ وزن شعیرۃ من خیر ۔(بخاری شریف، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان و نقصانہ، ص ۰۱، نمبر ۴۴)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ جس نے، لا الہ الا اللہ،کہا اور اس کے دل میں جو کے برابر ایمان ہے تو وہ جہنم سے نکالا جائے گا
4۔عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ ﷺ…..ثم یخرج من النار من قال لا الہ الا اللہ و کان فی قلبہ من الخیر ما یزن ذرۃ۔ (مسلم شریف، کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنۃ منزلۃ فیھا، ص ۲۰۱، نمبر ۳۹۱/ ۸۷۴۳/ بخاری شریف، باب کتاب التوحید، باب کلام الرب تعالی یوم القیامۃ مع الانبیاء وغیرہم، ص۴۹۲۱، نمبر ۰۱۵۷)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ۔۔۔جس نے،لا الہ الا اللہ، کہا اور اس کے دل میں ذرہ برابر خیر، یعنی ایمان ہے تو وہ جہنم سے نکالا جائے گا
ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ زرہ برابر دل میں ایمان ہو تو جنت میں داخل ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے تصدیق کا نام اصل ایمان ہے۔
ہم دل کی تفتیش کرنے کے مکلف نہیں ہیں
اگر زبان سے ایمان کا اقرار کرتا ہے تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ یہ تفتیش کریں کہ اس نے دل سے کہا کہ نہیں کہا، بلکہ ہم اس کو مومن مان کر اس پر اسلام کے احکام جاری کر دیں گے، ہاں اگر وہ ظاہری طور پر کفر یا شرک کا عمل کرتا ہے تو اب اس کو کافر مانا جائے گا، مثلا وہ ایمان کا اقرار بھی کرتا ہے، اور بتوں کے سامنے سجدہ بھی کرتا ہے تو اب اس کو کافر سمجھا جائے گا، کیونکہ عمل کے اعتبار سے اس نے کفر کیا ہے
دل کی تفتیش کرنے کا ہم مکلف نہیں اس کے لئے حدیث یہ ہے
5۔عن اسامۃ بن زید….فادرکت رجلا فقال لا الہ الا اللہ فطعنتہ فوقع فی نفسی من ذالک فذکرتہ للنبی ﷺ فقال رسول اللہ ﷺ أقال لا الہ الا اللہ و قتلتہ؟ قال قلت یا رسول اللہ انما قالہا خوفا من السلاح قال افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم أقالہا ام لا، فما زال یکررھا علی حتی تمینت انی اسلمت یومیذ۔ (مسلم شریف، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ لا الہ الا اللہ، ص ۶۵، نمبر ۶۹/ ۷۷۲/ ابو داود شریف، کتاب الجہاد، باب علی ما یقاتل المشرکون، ص ۱۸۳، نمبر ۰۴۶۲)
ترجمہ۔ حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی سے ملا ا، تو وہ،لاالہ الا اللہ، کہنے لگا لیکن پھر بھی میں نے اس کو قتل کر دیا، میرے دل میں اس کے بارے میں بات آئی تو میں نے نبی ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا کہ، لاالہ الا اللہ، کہا پھر بھی آپ نے اس کو قتل کر دیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کہا تھا، تو حضور ؐ نے فرمایا، کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا!تاکہ تم جان لو کہ اس نے سچ کہا تھا یا نہیں، اور اس بات کو بار بار دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ آج ہی مسلمان ہوتا تو اچھا تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہا تو آگے دل میں ایمان ہے یا نہیں اس کی تفتیش کی ضرورت نہیں ہے، یہ اللہ جانے، ہم اس کو مسلمان جانیں گے اور اس پر اسلامی احکام جاری کریں گے۔ آج کل ذرا ذرا سی بات پر لوگ دوسروں کو کافر، اور مشرک ہو نے کا فتوی دے دیتے ہیں، اور اس پر تشدد کرتے ہیں یہ بات حدیث کے خلاف ہے۔
ایمان کا ایک حصہ عمل کرنا بھی ہے
ایمان کا ایک حصہ عمل کرنا بھی، اسی لئے بعض کتاب میں، و العمل بالارکان، بھی لکھا ہوا ہے کہ۔
البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اصل ایمان کے خلاف عمل کرے گا تو اس کو کافر شمار کر دیا جائے گا، مثلا آیت میں ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ نہ کرو، اور اس نے بتوں کے سامنے سجدہ کر دیا، تو اس عمل سے وہ کافر ہو جائے گا، کیونکہ اس نے صریح آیت کے خلاف عمل کیا
عمل کی دلیل یہ آیت ہے
9۔ و انی لغفار لمن تاب و آمن و عمل صالحا ثم اہتدی۔ (آیت ۲۸،سورت طہ ۰۲)۔
ترجمہ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اور نیک عمل کرے پھر سیدھے راستے پر قائم رہے تو میں اس کے لئے بہت بخشنے والا ہوں
10۔الا الذین آمنو و عملوا الصالحات۔ (آیت ۳، سورت العصر ۳۰۱)
ترجمہ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں ] تو وہ نقصان میں نہیں ہیں
11۔من اٰمن باللہ و الیوم الاٰخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم۔ (آیت ۲۶، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے، اور نیک عمل کریں گے وہ اپنے رب کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے
ان آیتوں میں ہے کہ ایمان لائے اور نیک عمل کرے، جس سے معلوم ہوا کہ نیک عمل کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔
ہم جو کلمہ پڑھتے ہیں، وہ دو آیتوں کا مجموعہ ہے۔
کلمہ طیبہ دو آیتوں کا مجموعہ ہے ایک ہے، لا الہ الا اللہ، اور دوسرا ہے، محمد رسول اللہ۔
اس آیت میں اس کی دلیل ہے
12۔ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ و استغفر لذنبک۔ (آیت ۹۱، سورت محمد ۷۴)
ترجمہ۔ اس لئے اے پیغمبر یقین جانو! کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اور اپنے قصور پر بھی بخشش کی دعا مانگتے رہو
13۔انہم کانوا اذا قیل لہم لا الہ الا اللہ یستکبرون۔ (آیت۵۳، سورت الصافات ۷۳)
ترجمہ، ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے یہ کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو یہ اکڑ دکھاتے تھے
ان دونوں آیتوں میں، لا الہ الا اللہ، کا ذکر ہے
اور رسول اللہ کے لئے یہ آیت ہے
14۔محمد رسول اللہ و الذین آمنوا اشداء علی الکفار رحماء بینہم (آیت ۹۲، سورت الفتح ۸۴) ترجمہ۔ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں
6۔ عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ بنی الاسلام علی خمس، شہادۃ ان لا الہ الا اللہ، و ان محمد رسول اللہ۔ (بخاری شریف، کتاب الایمان، باب قول النبی، بنی الاسلام علی خمس، ص ۵، نمبر ۸)
ترجمہ۔حضور ؐ نے فرمایا، اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے،، شہادۃ ان لا الہ الا اللہ، و ان محمد رسول اللہ۔
اس عقیدے کے بارے میں 14 آیتیں اور6 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close