جمعیت علماء هند

ماونٹ‌بیٹن کا تقسیم ہند کا پلان اور جمعیت علمائے ہند 7

محمد یاسین جہازی

جمعیت کی تقسیم ہند کی مخالفت
”اس اجلاس میں کانگریس کمیٹی کے چار سو ممبران میں سے صرف 212نے شرکت کی۔ اس میں برطانیہ کے تقسیم ہند کے پلان کو 29آرا کے مقابلہ میں 157آرا سے منظور کرلیا گیا۔“(روزنامہ منشور،دہلی، 18/ جون1947)
صرف مولانا محمد حفظ الرحمان صاحب سیوہارویؒ ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند اورمسٹر پروشتم داس ٹنڈن نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ مولانا ؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ
”آج میں یہاں اس کی مخالفت کرنے آیا ہوں، جو تجویز ہمارے سامنے آئی ہے، وہ ایسی ہے کہ کانگریس کی پوری تاریخ میں نہیں آئی۔ سب سے بڑی بات جو کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ کانگریس کسی پر جبر نہیں کرسکتی کہ جو صوبہ یونین میں نہ رہنا چاہے، وہ اس پرجبر کرے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ برطانوی حکومت واقعی ہندستان سے جارہی ہے، تو اس سے کہہ دیا جائے کہ وہ چلی جائے۔ ہم اپنے معاملات آپ طے کرلیں گے۔ وہ اس بات کا انتظار نہ کرے کہ ہم میں اتحاد ہوتا ہے، یا نہیں۔ یہ ایک عذر لنگ ہے۔ برطانوی حکومت کے رہتے ہوئے اتحاد ناممکن ہے۔
1920میں جب گاندھی جی نے تحریک سول نافرمانی کی تجویز پیش کی، تو ہمارے بعض ہندو دوستوں کو یہ خوف تھا کہ اگر ہندستان آزاد ہوجائے گا، تو اسلامی ممالک ہندستان پر حملہ کرکے قابض ہوجائیں گے۔ کہیں افغانستان کا خوف دلایا جاتا تھا، کہیں ایران کا ڈر دلایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی عالم ہے کہ مسلمانوں کو چین وجاپان کا خوف دلایا جاتا ہے۔ ہندو کو افغانستان کا خوف دلایا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ٹنڈن جی کی تائید کرتا ہوں کہ اب ادھر کے مسلمانوں کے دل میں خوف رہے گا اور ادھر کے ہندووں کے دل میں۔ ابھی نہ ہندستان بنا ہے اور نہ پاکستان؛ مگر لیڈروں میں اس قسم کی باتیں ابھی سے شروع ہوگئیں۔ ادھر سندھ اسمبلی سے مسٹر عبد الستار کی آواز آتی ہے، یہاں ملازمتیں اتنی دی جائیں گی، جتنی کہ ان کی آبادی ہے۔ ان کو یہاں رہنا ہے، تووہ غلام بن کر رہیں گے۔ ادھر اسی قسم کی کارروائیاں شروع ہوگئی ہیں، یوپی اسمبلی سے ایسی آوازیں اٹھ چکی ہیں۔ سی پی کے وزیر اعظم مسٹر شکلا بھی ایسی بات کہہ چکے ہیں۔ لیڈروں کے سوال و جواب شروع ہوچکے ہیں۔ انجام خدا جانتا ہے۔
میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندستان کی بھلائی کے لیے کی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس اسکیم سے مسلمان تین تیرہ ہورہے ہیں۔ کچھ بنگال میں رہ جائیں گے۔ ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان اور ہندو ہندستان میں رہ جائیں گے۔
آپ نے فرمایا کہ آج اس ریزولیوشن کو پاس کرنے کے بعد کانگریس کی متحدہ قومیت ختم ہورہی ہے، آپ ان کو اس کانسٹی ٹیوشن ہال میں دفن کرکے جارہے ہیں۔ آپ نے کانگریس کے اس قومی کردار کا خاتمہ کردیا ہے، جس پر وہ ساٹھ سال سے قائم تھی۔
آپ یہ کہتے ہیں کہ اس پر مسلم لیگ سے سمجھوتہ ہوگیاہے۔ اگر وہ پہلے کی طرح رد کردے، تو آپ کیا کرسکتے ہیں۔ اور جس کا امکان بھی ہے، جیسا کہ منسٹر ابوالہاشم کے بیان سے ظاہر ہے۔ آپ نے کہا کہ آپ نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ 1945کی ویول کانفرنس کے بعد الیکشن منظور کرلیا۔ اس کے بعدسے آپ یہ غلطیاں کرتے رہے۔ آج جو کچھ آپ منظور کرنے لگے ہیں اور کانگریس کی جدوجہد اس کے لیے ہی تھی۔ ذرا ہے۔ بہرحال اب آپ سے جو بات انگریز نے کہی، وہ اسی طرح مانی۔ آپ نے انگریز کی ہر بات کی تعریف کی اور یہ غلطی لارڈ ویول کے زمانے سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔
آج آپ صاف صاف اعلان کردیجیے کہ ہم کوئی سمجھوتہ کرنا نہیں چاہتے۔ مگر آپ اس کو مسترد کردیں، تو یہ قوم پر بڑا احسان ہوگا۔“ (روزنامہ انصاری، 17/ جون 1947)
تقسیم پر جمعیت کی تجویز
جمعیت علمائے ہند نے 24/ جون 1947کو مجلس عاملہ کا اجلاس کیا اور تقسیم کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ
”جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ اس حقیقت کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے ہمیشہ اس امر کا اعلان کیا ہے کہ جمعیت علما کا نصب العین ہندستان کے لیے مکمل آزادی حاصل کرنا ہے۔
اور نیز یہ کہ ہندستان کو تقسیم کرنا باشندگان ہندستان کے لیے عموما اور مسلمانان ہند کے لیے خصوصا سخت مضرت رساں اور نقصان دہ ہے۔
چوں کہ جمعیت علما کی یہ پختہ رائے ہے، اس لیے یہ جلسہ ایک دفعہ پھر مسلمانان ہند کو متنبہ کرتا ہے کہ اس ملک کی تقسیم مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مہلک ثابت ہوگی۔
اس جلسہ کی رائے میں مسلم حقوق کے تحفظ اور مسلمانوں کے سیاسی اور اقتصادی بچاؤ کی صحیح شکل وہی ہوسکتی تھی، جو جمعیت علمانے اپنے فارمولے میں پیش کی تھی۔
یہ جلسہ اپنے اس پختہ عقیدہ اور مضبوط رائے کا اظہار کرتے ہوئے گورنمنٹ برطانیہ کے اس پلان سے اپنی دلی بیزاری کا اظہار کرتا ہے، جو گورنمنٹ برطانیہ نے ۳/ جون کو ہندستانی لیڈروں کے حوالہ کیا ہے۔
اس پلان میں نہ تو مکمل آزادی کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہندستان کی وحدت قائم رکھی گئی ہے۔ اس پلان میں صرف یہ کہ ملک کو تقسیم کیا گیا ہے؛ بلکہ پنجاب و بنگال کے بھی ٹکڑے کردیے گئے ہیں اور ہندستانیوں میں باہمی منافرت بڑھاکر حکومت برطانیہ یا کسی اور اجنبی طاقت کو ہندستان اور پاکستان میں مداخلت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔
اس پلان کی وجہ سے ہندستان کی وحدت ہی پارہ پارہ نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کی وجہ سے مسلمانان ہندستان بھی تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اور تقریبا پانچ کروڑ مسلمان ایک ایسی اکثریت کے حوالے کردیے گئے، جس کی تعداد پچیس کروڑ ہے۔
مسلمانوں کی یہ تباہی اور بے کسی اس غلط اور مستبدانہ رہ نمائی کا نتیجہ ہے، جس میں ایک عرصہ سے وہ گمراہانہ طور پر مبتلا ہیں۔
اگر اس قسم کی نقصان دہ تقسیم ہی کو قبول کرنا تھا، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا، جب کہ مسٹر گاندھی اور مسٹرراج گوپال آچاریہ اس قسم کی پیش کش کر رہے تھے، یا اس کے لیے وہ وقت مناسب تھا، جب کہ کیبنٹ مشن سے گفتگو ہورہی تھی؛ لیکن اس وقت اس پاکستان کو ”چھلکا“ اور ”سایہ“ کہہ کر مسٹر جناح نے رد کردیا تھا۔
اگر یہ چھوٹا اور بے حقیقت پاکستان اس وقت قبول کرلیا جاتا، تو یقینا ملک وحشیانہ قتل و غارت گری میں مبتلا نہ ہوتا اور ہزاروں بے گناہ مسلمان تباہ و برباد ہونے سے محفوظ رہتے۔
اس جلسہ کی یہ قطعی رائے ہے کہ تقریبا پانچ کروڑ مسلمانوں کو ایک خطرناک حالت میں مبتلا کرانے کی تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ کی اس غیر جمہوری اور مستبدانہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے، جو اس کا عام طرز عمل ہے۔ جمعیت علما کے نزدیک یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس نے اس تقسیم کو منظور کرکے ملک کے مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اور اپنے اصول سے کھلا انحراف کیا ہے۔
جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ اس امر کو واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ جمعیت علما اپنے مکمل نصب العین مکمل آزادی کو حاصل کرنے کی جدوجہد اس وقت تک جاری رکھے گی، جب تک کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوجاتی۔ تاہم چوں کہ اب ملک کی تقسیم ہوچکی ہے اور متعلقہ پارٹیوں نے اس کو منظور کرلیا ہے، اس لیے مجلس عاملہ کا یہ جلسہ اپنی تمام جماعتوں اور ماتحت شاخوں کو -خواہ وہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں ہوں، یا مسلم اقلیت کے صوبوں میں -یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی غرض سے اصلاحی اور تعمیری کاموں پر توجہ کریں اور اس سلسلہ میں حسب ضرورت مرکزی دفتر سے ہدایت حاصل کرتے رہیں۔
ملک گیر تحریک کی دھمکی
جمعیت علمائے ہند نے نہ صرف تقسیم ہند کی مخالفت کی؛ بلکہ اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے ماونٹ بیٹن کی تجاویز کو شرپسندانہ تجاویز قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی بھی دی۔
”جھانسی۔ 24/ جون۔ بندیل کھنڈ۔ جمعیت علما کی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے مولانا شاہد فاخری نے فرمایا کہ جمعیت علمائے ہند کے رہنما لارڈ ماونٹ بیٹن کی تجاویزسے سخت پریشان ہیں اور اس چیز پر غور کر رہے ہیں کہ انگریزوں نے جو شرارت کی ہے، اسے ناکام بنانے کے لیے سارے ملک میں ہمہ گیر تحریک چلائی جائے۔ اور برطانوی تجاویز کو کالعدم کرادیا جائے۔ مسٹر جناح نے برطانوی تجاویز کو مان کے مسلمانوں کو تین حصوں میں منقسم کردیا ہے۔ دس کروڑ مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجارہ داری محض مسلم لیگی رہ نماوں کو حاصل نہیں ہے۔ اب بہت ہنگامے اور غنڈہ گردی ہوچکی۔ ہمارے صبر و ضبط کا پیمانہ چھلک چکا ہے۔ اب ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بھی انھیں کے سکے ان کو ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم لیگی ماونت بیٹن کی تجاویز مطمئن ہوسکتے ہیں؛ مگر ہم ہرگز مطمئن نہیں ہیں۔
مولانا حفظ الرحمان صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ اب ہمارا کام یہ ہوگا کہ پاکستان اور ہندستان کے تعلقات بہتر بنائیں۔ اور بالآخر دونوں کو پھر سے ملادیں۔ ہم دونوں حکومتوں سے یہ کوشش کریں گے کہ وہ اقلیتوں سے انصاف کا سلوک کریں۔ کانگریس کو سرحد میں استصواب رائے نہیں ماننا چاہیے تھا۔ اور اس وال پر بہت بڑی سیاسی جنگ جاری کردینا چاہیے تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ کانگریس نے سرحد کے عوام کو چھوڑ دیا۔ کانگریس نے غلطی کی کہ اس نے ہمیشہ قوم پرور مسلمانوں کو جو اس کے حامی تھے، نظر انداز کردیا۔“ (روزنامہ اجمل ممبئی 26/ جون 1947)
افسوس کہ مسلم لیگ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اکابرین جمعیت کی طویل جدوجہد کا خواب اس شکل میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا، جس شکل میں تعبیر پانے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ اور ہندستان فرقہ وارانہ خطوط پرٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close