اسلامیات

غسل فرض کفایہ

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (13) تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ

میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے ۔ فرض کفایہ وہ ہے کہ اگر ایک آدمی ادا کردے تو سب کے سر سے اتر جائے۔
غسل واجب
جنابت کی حالت میں کافر مسلمان ہو تو اب اس پر غسل کرنا واجب ہے ۔
عن ابی ھریرۃ فی قصۃ ثمامۃ بن اثال عند ما اسلم، امرہ النبی ﷺ ان یغتسل۔ (رواہ عبد الرزاق واصلہ متفق علیہ، بلوغ المرام ۲۱)
ثمامہ بن اثال کے قصہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ان کو نبی کریم ﷺ نے غسل کا حکم دیا، جس وقت انھوں نے اسلام قبول کیا۔
غسل مسنون
چار چیز کے لیے غسل کرنا مسنون ہے:
(۱) جمعہ کے لیے۔
(۲) عیدین کے لیے۔
(۳) احرام کے لیے۔
(۴) وقوف عرفہ کے لیے زوال کے بعد۔
جمعہ کے غسل کے بارے میں حضرت سمرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من توضأ یوم الجمعۃ فبھا و نعمت، و من اغتسل فالغسل افضل۔ (رواہ الخمسۃ و حنسہ الترمذی، بلوغ المرام،ص؍۲۱)
جس شخص نے جمعہ کے دن وضو کیا تو وہ بہت کافی اور اچھا ہے اور جس نے غسل کیا، پس غسل بہتر ہے۔
عن الفاکہ قال: کان رسول اللّٰہ ﷺ یغتسل یوم الجمعۃ و یوم الفطر و یوم النحر و یوم عرفۃ۔ (رواہ احمد و الطبرانی)
حضرت فاکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ، عید، بقرعید اور عرفہ کے دن غسل فرماتے تھے۔ شیخ ابن الہمام نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (نور الہدایہ، ص؍۳۶)
عن زید بن ثابت انہ رایٰ النبی ﷺ تجرد لاھلالہ واغتسل۔ (رواہ الترمذی والدارمی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے احرام کے لیے کپڑے اتارے اور غسل فرمائے۔ (زجاجہ، ھذا حدیث حسن ، نور الہدایہ ۳۶)
عن ابن عمر انہ کان یغتسل یوم الفطر قبل ان یغدو۔ (رواہ مالک، زجاجہ، ص؍ ۱۵۲)
اور یہ حدیث صحیح ہے۔
غسل مستحب
ان حالتوں کے اندر غسل کرنا مستحب ہے:
(۱) میت کے غسل دینے کے بعد۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من غسَّل میتا فلیغتسل۔ (ابن ماجہ، زجاجہ ۱۵۳)
جس نے میت کو غسل دیا اس کو غسل کرلینا چاہیے۔
(۲) طہارت کی حالت میں اسلام قبول کرنے کے بعد۔
عن قیس بن عاصم انہ اسلم، فامرہ النبی ﷺ ان یغتسل بماء سدر۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی)
حضرت قیس ابن عاصم نے اسلام قبولا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو بیر کے پتہ کے پانی سے غسل کرنے کو فرمایا۔
عن ابی واثلۃبن الاسقع قال: لما اسلمتُ اتیتُ النبی ﷺ فقال: اغتسل بماء سدر واحلق عنک شعر الکفر۔ (رواہ ابو نعیم و رویٰ الطبرانی فی الکبیر عن قتادۃ و ابی ھشام نحوہ رجالہ ثقات قالہ فی مجمع الزوائد، زجاجہ، ۱۵۳)
اسی واثلہ بن اسقع کو اسلام قبول کرنے کے بعد فرمایا : بیر کے پتے کے پانی سے غسل کر اور کفر کے بال مونڈ ڈال۔
بال مونڈنا، بیر کے پتے دے کر پانی اونٹاکر نہانا مستحب ہے ۔ اسی طرح خالص پانی سے غسل کرنا بھی مستحب ہے۔
(۳) مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر جب مکہ کے قریب پہنچتے تو ٹھہر جاتے اور ذی طویٰ میں رات گذارتے ، پھر فجر کی نماز پڑھتے اور غسل کرتے اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے ۔ (بخاری، زجاجہ، ۱۵۳)
عن نافع قال: ان ابن عمر کان لایقدم مکۃ الا بات بذی طویٰ حتیٰ یصبح و یغتسل و یصلی فیدخل مکۃ نھارا۔ (متفق علیہ)
(۴) مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے۔
(۵) مزدلفہ میں وقوف کے لیے۔
(۶) طواف زیارت کے لیے۔
(۷) پندرھویں شعبان کی رات۔
(۸) لیلۃ القدر معلوم ہونے پر اسی رات میں۔
(۹) عمر سے بالغ ہونے پر۔
(۱۰) جنون دور ہونے پر۔
(۱۱) سورج گرہن کی نماز کے لیے۔
(۱۲) استسقا کی نماز کے لیے ۔
(۱۳) خوف کے وقت۔
(۱۴) سخت تاریکی پھیلنے کی وجہ سے ۔
(۱۵) سخت آندھی کے وقت۔
(۱۶) پچھنے لگانے کے بعد ۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ چار چیز سے غسل کرتے تھے: جنابت سے۔ جمعہ کے دن۔ پچھنے سے۔ اور غسل میت سے۔ (ابو داؤد)

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close