اس لاک ڈاؤن میں زندگی پہلے سے ہی پریشانی اور ژولیدگی کا شکار ہے۔ گھروں میں رہ رہ کر آرام طلبی آتی جارہی ہے۔ پنجرے میں بند پرندے کی مانند زندگی ہوتی جارہی ہے، الجھن وتناؤ سے ہر شخص دوچار ہے۔ مزید برآں ملک کی زرخرید میڈیا کی وہی فتنہ انگیزیاں؛ ہندومسلم کے نام کا جاپ، اس مصیبت وپریشانی کی گھڑی میں بھی اس نے مذہبی منافرت کا بیج بونا ترک نہ کیا اور ملک کے مسلمانوں کے تئیں لوگوں میں کچھ اس قدر نفرت پیدا کیا کہ اندھی تقلید، نافہمی اور ذہول عقل کے شکار بنتے جارہے اس معاشرے نے انہیں ستانا، پرشان کرنا شروع کردیا۔ پوری دنیا میں جب ہر کوئی انسانیت کو بچا رہا ہے صد حیف کہ اس وقت بھی اپنا یہ ملک مذہبی منافرت پھیلاکر مسلمانوں کو زدوکوب کرنے سے باز نہیں آرہا۔ ابھی کل، پرسوں ملک کی دارالحکومت اور مرکزی شہر دہلی میں ڈاکٹری چیک اپ کرانے اور کلین چٹ ملنے کے بعد بھی محبوب علی نامی ٢٢سالہ مسلم نوجوان کا پیٹ، پیٹ کر قتل کیا جانا شاید اس ملک کے مسلمانوں کی تقدیر بنتے جارہا ہے۔ کہ اس سے قبل اخلاق، پہلو خان اور تبریز انصاری جیسے مظلوموں کی آہ وفغاں نے عالم گیر پیمانے پہ ملک کی آبرو ریزی کیا کم کرائی تھی جو اس رنج والم کے وقت میں بھی ماب لنچنگ جیسے وحشیانہ کاموں پہ لگام نہ لگ سکی۔ اور مسلمانوں ہی نہیں اگر اسی طرح ملک ظلم وستم یونھیں عام رہا تو شاید "کورونا” نہیں تو "رونا” اس ملک کی قسمت نہ بن جائے، کیوں کہ مظلوموں کی آہ بڑی ہلاکت خیز ہوتی ہے۔
دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں قوت پرواز مگر رکھتی ہے