اہم خبریں

تبلیغی جماعت کا مستقبل

( فکر انگیز تحریر )
جب سے دنیا میں اصلاح و تجدید کا عمل شروع ہوا ہے،تب سے سیکڑوں ہزاروں اصلاحی اور تجدیدی جماعتیں جمعیتیں اور تنظیمیں بنیں اور اور وجود میں آئیں اور اپنے اپنے طور پر اصلاحی اور تجدیدی کوششیں کیں؛مگر ان اصلاح و تجدید کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں میں سے بہت ساری یا تو مرور ایام کے ساتھ تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو گئیں یازوال پذیر ہوکر لوگوں کے لیے بے نفع ہوگئیں۔شاید ہی کوئی صدیوں پرانی تحریک یا تنظیم ہو جو اپنے آغاز ہی سے ترقی کی راہ پر گام زن ہوگئی ہو اور آج تک مسلسل ترقی کے منازل طے کرتی چلی جا رہی ہو۔
تبلیغی جماعت اور اس کے تاریخ ساز کارناموں سے بھلا دنیا کا کون سا مسلمان ناواقف ہوگا؟اس کی حیرت انگیز دینی ،دعوتی اور اصلاحی خدمات سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟آغاز وابتدا ہی سے اس نے معاشرے پر خوش گوار اور مثبت اثرات چھوڑنے شروع کردیے،لوگوں کا دینی اور اسلامی ذہن بنانا شروع کر دیا، گزرتے اوقات کے ساتھ اس کا دائرہ کار پھیلتا چلا گیا،یوں دیکھتے دیکھتے یہ جماعت پوری دنیا پر چھاگئ۔
پھر اس نے اپنے مخصوص طریقہ کار کے مطابق دنیا پر محنت کی اور خوب محنت کی۔دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ رہا ہوگا جہاں ان کے قدم نہ پہنچے ہوں،دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اور علاقہ رہا ہو گا جہاں انہوں نے دین و ایمان کی تبلیغ و اشاعت نہ کی ہو۔ان کی انہیں محنتوں کا ثمرہ تھا کہ ہزاروں لاکھوں اور بے شمارلوگوں کو سچی توبہ نصیب ہوئی، خداخوفی اور خدا ترسی نصیب ہوئی اور مقصد زندگی کا شعور حاصل ہوا۔
یہ باتیں ہیں تب کی جب جماعت صحیح راہ پر گام زن تھی،یہ کار گزاری ہے اس وقت کی جب جماعت اختلاف و انتشار سے پاک تھی،جب سب کے ارادے اور نیتیں صاف تھیں،جب سب کی فکریں متحد تھیں،جب سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے،جب سب کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول تھا۔
عالم الغیب صرف خدا ہے،مستقبل کے حالات و واقعات سے آگاہی صرف خدائے علیم و خبیر کو ہے۔تبلیغی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ خدا ہی کو معلوم ہے؛ مگر تجربات ومشاہدات شاہد ہیں کہ کسی شخص،فرد یاکسی تنظیم و تحریک کے موجودہ طریق کار، طرز فکر وعمل اور گوناگوں حالات سے بھی بہت کچھ اندازہ ہو جاتا ہے،بہت کچھ اشارے اور بعض دفعہ واضح اشارے مل جاتے ہیں۔
خدا نہ خواستہ ہماری یہ آرزو نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت مستقبل میں ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے یا مستقل ‘مکتب فکر ‘کی صورت اختیار کر لے یا کوئی ‘گم راہ فرقہ’ بن جائے! ہم تو شروع سے اس کے لیے تڑپ رہے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں سر بہ سجود اس سے التجائیں اور منتیں کر رہے ہیں کہ خدایا!اس جماعت کی حفاظت فرما!اس کے مراکز کی حفاظت فرما! اس کے ایک ایک فرد کی حفاظت فرما!
جماعت کا موجودہ اختلاف و انتشار، تنازعات و تخاصمات،باہمی خانہ جنگیاں،بے اصولی و بے ضابطگی، خود پسندی و خود آرائی، شدت و سخت روی،دوسروں کی تذلیل و تحقیر،ایک دوسرے کی تفسیق و تضلیل،ایک دوسرے پر بےجا تنقیدیں اور تبصرے، نکتہ چینیاں اور الزام تراشیاں، بات بات پر دوسروں کی تردید و تغلیط اور اس طرح کی دیگر نا مناسب حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ جماعت ہمارے درمیان چند روز کی مہمان ہے،شاید مستقبل میں ہمارے ہاتھوں سے یہ جماعت نکل جائے گی، شاید یہ مستقبل میں ایک مستقل ‘مکتب فکر’ کی حیثیت اختیار کر لے گی،شاید یہ مستقبل میں امت کے لیے ایک ‘فتنہ’ بن جائے گی!
یہ اندیشہ یا اندازہ صرف میرا ہی نہیں ہے؛بلکہ سیکڑوں ہزاروں لوگ اس خیال سے اتفاق کریں گے۔
اب بھی ہمارے لیے وقت ہے،اب بھی ہمارے لیے موقع ہے،اب بھی ہمارے لیے امکان باقی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ قسم کا اندیشہ یا اندازہ غلط ثابت ہو(اور خدا کرے کہ غلط ہی ثابت ہو)تو ہمیں جماعت کے حوالے سے سنجیدہ ہونا ہوگا، ہمیں فکر مندی سے کام لینا ہوگا، ہمیں ہوش میں آنا ہوگا، ہمیں اپنی ماضی کی طرف لوٹنے کا عہد کرنا ہوگا،ہمیں اپنے اکابر کی ہدایات کو پیش نظر رکھنا ہوگا،ہمیں اپنے کرتوت پر نادم اور شرمندہ ہوناہوگا،ہمیں اپنی کوتاہیوں اور لا پروائیوں پر آنسو بہانا ہوگا،ہمیں خدا کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی نادانیوں،نالائقیوں اور ناروا حرکتوں سے معافی مانگنی ہوگی!
اگر ہم یہ سب کرنے کے لیے تیار ہیں تو یقین مانیےکہ خدا ہمارا مقدر بدل دے گا،خدا ہماری جماعت کو پھر سے وہ عروج وہ ترقی اور وہ عظمت و شان عطا کر دے گا جو کبھی اس کو حاصل تھی!
اور اگر خدا نہ خواستہ ہم اپنی بد نصیبی اور سیاہ بختی کی وجہ سے یہ سب کرنے پر رضامند نہیں ہیں،ہمارا ضمیر واقعی مردہ ہو چکا ہے، ہمارا باطن واقی تاریک ہو چکا ہے اور شقاوت و بد بختی ہی ہمارے لیے مقدر ہو چکی ہے تو ہمیں اس دن کے لیے تیار رہنا چاہیے، جب ہمارے علماء کرام اور مفتیان عظام متفقہ طور پر ہمیں ‘گم راہ فرقہ’ اور ‘گم راہ جماعت’ قرار دے کر ہم سے برات کا اعلان کر دیں گے اور ہم سے اپنا دامن جھاڑ لیں گے!

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

خالد سیف اللہ صدیقی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close