میں تم سے پیار کے سپنے سجائے بیٹھا ہوں
خیال و خواب کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں
چلے بھی آؤ کہ آیا بہار کا موسم
تمہاری راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہوں
میں جانتا ہوں، غلط ہوں، تمہاری چاہت میں
زمانے بھر کو میں دشمن بنائے بیٹھا ہوں
زمانہ مجھ کو ستاتا ہے آندھیاں بن کے
چراغِ عشق کو پھر بھی جلائے بیٹھا ہوں
میں اپنے درد کا قصہ کہوں کسے یارو!
میں اپنی آنکھ میں دریا چھپائے بیٹھا ہوں
رہا نہیں ہے کوئی فرق دوست، دشمن میں!
ہر ایک شخص کو میں آزمائے بیٹھا ہوں
جلا ہوں عشق میں! دن رات، کیا کہوں بسملؔ!
غموں کی آگ ہے شعلہ دبائے بیٹھا ہوں
٭٭٭