مضامین

برہمن واد سے این آر سی تک

ارشاد احمد قاسمی

گلو بلائزیشن کا آسان مطلب ہوتا ہے معاشی اور اقتصادی طور پر استحکام کے لئے تجارتی نظام کو آسان بنانا ۔یعنی پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لانا۔ یہاں تک تو صحیح ہے ،لیکن اس سے آگے جو مفہوم اور مشن ہے وہ انتہائی خطر ناک ہے۔ بڑھتی آبادی سے معیشت اور وسائل پر بڑھتے بوجھ کے سبب پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے بڑھتی آبادی پر کنٹرول کی بجائے 35 سے 40فیصد آبادی کوختم کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ اسی مشن کے تحت یمن سے لے کر فلسطین تک اور برما سے لے کر ملک شام اور اور عراق تک، افغانستان سے لے کر چیچینیا اور بوسینیا تک جو لاکھوں انسانی جانیں تلف کردی گئی ہیں لیکن قدرت کو یہ قطعی پسند نہیں آیا۔ اس مہم کی شروعات تو بہت پہلے ہوگئی تھی جو اب ہندستان بھی پہنچ گئی ہے۔
چار ہزار سال قبل روس کے سرحدی علاقہ میں رہنے والی ایک سرکش قوم کو جب سرکشی کی وجہ سے مارکر بھگا دی گئی تو وہ قوم درد بدر بھٹکتی ہوئی ہندستان پہنچی ۔یہ آریہ قوم تھی جو بعد میں خود کو آرین یا برہمن کہنے لگی۔ اس نے ہندستان آکر سب پہلے یہاں کے اصلی باشندوں( دلت)پر ظلم ڈھانا شروع کیا، ان کی چیزوں کو چھینا، یہاں تک ان کی عزت اور جان ومال پر حملہ کرکے اسے غلام بنا لیا۔ کیونکہ لوٹ، قتل وغارت، چھین چھور ان خانہ بدوشوں کے خون میں شامل ہے۔ یہ کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتے اور نہ دوسروں کو چین سے رہنے دے سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے سرکش قوم یہودی ہے اور ان میں بھی سب سے سرکش قوم برہمن ہے جس سرکشی نے اسے روس سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ ان کی تاریخ بہت ہی بھیانک اور ڈرائونی ہے۔ اس قوم کو تو انسانیت سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور یہ آج پھر ملک کو 1400 سال قبل کے غلامی کے دور میں لے جانا چاہتی ہیں جہاں ان کو غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ ہو اور اسی کی ایک کڑی ہے یہ سیاہ قانون۔
ہمارے ملک میں جو آج ماحول ہے اور این آر سی ، سی اے اے ، این آرپی کی جو بات کہی جارہی ہے، محض سیاسی فائدہ کے لئے پورے ملک کو ایک تاریک کھائی میں دھکیلنے کی کو شش ہے ۔ وہ ہندو، مسلم، دلت، سکھ، عیسائی وغیرہ سب کے لئے خطرناک ہے۔ برہمن کے علاوہ کسی کے لئے بھی راحت نہیں ہے، چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو۔ آج ملکی سطح پر اگر دیکھا جائے تو ہندتو اور ہندو راشٹر کے نام پر مر مٹنے والے، لاٹھی ، پتھر کھانے والے اور عالمی پیمانے پر بدنام ہونے والوں میں سے کوئی بھی برہمن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اگر یہ ملک ہندو راشٹر بن بھی گیا تو انہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ ہندو راشٹر قائم ہوتے ہی اقتدار، عدلیہ اور تمام بڑے عہدوں پر برہمن ہی قابض ہوجائیں گے اور غلامی کا طوق دلتوں کے ساتھ ہی سارے ملک کے باشندوں کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ اگر برہمنوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حیرت کی انتہا ہوتی ہے کہ برہمنوں نے نہ صرف انسانوں کو غلام بنایا بلکہ ان کے کھانے پینے رہنے سہنے،دیکھنے اور یہاں تک چھونے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔منو اسمرتی کے زیر سایہ پرورش پانے والا سماج آج بھی برہمنوں کا یرغمال بنا ہوا ہے،جب کہ زمانہ 21ویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔ منو اسمرتی نے انسانوں کو چار زمرے میں تقسیم کرتے ہوئے سب کے لیے کام بھی مختص کر دیا اور مجال نہیں ہے کہ اس ضابطے سے کوئی بھی رو گردانی کر سکے۔ سرحدوں پر مر مٹنے کی ذمہ داری چھتریوں کی ہوگی، تجارت کرکے پیسہ کماکر برہمنوں کے عیش و عشرت کی فراہمی کی ذمہ داری ویشیہ کی ہوگی ا ور مزدوری کی ذمہ داری شودروں کی ہوگی اور یہ برہمن بیٹھے بیٹھے صرف سکھ بھوگیں گے اور حکمرانی کریں گے۔ یہی ان کا سپنا ہے جسے انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔اسی ہدف کو پانے کے لئے سارے ہندو نوجوانوں (برہمنوں کے علاوہ) کو ہندوتوا اورنام نہاد ہندو راشٹر کا ایسا نشہ پلا دیا ہے کہ ان کے اندر سے اچھائی، برائی، غلط،صحیح، دیش بھکتی، اندھ بھکتی کے درمیان تمیز ختم ہوگئی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جب ملک ہندو راشٹر بن جائے گا تو یہاں کی اقتصادیات، اقتدار اور معیشت پر صرف ہمارا قبضہ ہوگا اور ہم ہی اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے جو کہ سراسر جھوٹ اور غلط فہمی ہے۔ خدانخواستہ ہندو راشٹر بن بھی جاتا ہے تو انہیں کچھ نہیں حاصل ہونے والا۔جب انہیں سمجھ میں آئے گا، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہوگا۔ پھر خون کے آنسو رونے اور کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔در اصل برہمن واد ایک ایسی گہری اور اندھیری کھائی ہے جہاں بھائی چارہ، ہمدردی، انسانیت اور سماج کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کھائی میں زہر، نفرت، تشدد اور معصوموں کے رستے خون ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ہندستان میں سب سے زیادہ آبادی دلتوں کی ہے جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں اور برہمن جو پورے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں ان کی آبادی محض 3 سے 4 فیصد ہے۔ اس آبادی کے سہارے اقتدار پر قابض ہونا تو ممکن نہیں تھا اسی لئے انہوں نے پورے ملک میں ہندتو کا ایجنڈا نافذ کرکے ہندئوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنا شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔ ساتھ ہی دلتوں کو بھی ہندو کے زمرے میں شامل کرلیا تاکہ ان کا یہ ایجنڈا کامیاب ہو سکے لیکن یہ صرف ظاہری اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے ہے۔ برہمنوں کی نظر میں دلتوں کی جو عزت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہزاروں سال سے اپنے حق کے لئے اور سماج میں مناسب جگہ پانے کی دلتوں کی کوشش مسلسل جاری ہے لیکن آج تک انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔
در اصل برہمن دلتوں کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھ کر اسے غلام بنانے کے لئے بے چین ہے۔ پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا اصل نشانہ دلت ہی ہیں۔ کیونکہ ان برہمنوں کو سب سے زیادہ پریشانی ریزرویشن سے ہے اور ریزرویشن کا فائدہ دلتوں کو ہے۔ مسلمان تو ویسے بھی سرکاری ملازمت میں نا کے برابر ہے اور مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن دلتوں کو سیدھا ہدف نہیں بنا سکتے کیونکہ انہوں نے دنیا کو دکھانے کے لئے ہی سہی،دلتوں کو ابھی تک ہندو کہا ہے تو ایسے میں اگر سیدھانشانہ بنا یا جاتا ہے تو مذہبی منافرت کی عمارت منہدم ہو جاتی ہے اور یہ بھی سچائی ہے کہ دلتوں کو آج جو بھی عزت ہے وہ مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔ اس لئے پہلے مسلمانوں کی آدھی آبادی کو ختم کرکے انہیں کمزور کرنے اور پھر دلتوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے غلام بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،تاہم یہ بات دلتوں کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔خال خال کچھ تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو ان باتوں کو سمجھتا ہے۔برہمنوں اور اعلیٰ ذات کی غلامی کا طوق آج بھی دلتوں کے گلے میں لٹک رہا ہے کیونکہ یہ دلتوں کا استعمال تو ہر محاذ پر کر لیتے ہیں لیکن اونچ نیچ اور بھید بھائو کی یہ حالت ہے کہ دلت برہمنوں کے سامنے بیٹھ نہیں سکتے ،انہیں برہمنوں کے سامنے سے گزرنے تک کی اجازت نہیں ہے ۔اعلیٰ ذات کے لوگوں نے ہمیشہ سے ان کا استعمال صرف اپنے مفاد کے لئے کیا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے دستاویزات میں عموماً نام کی غلطیا ں ہیں، اس کے لیے براہ راست وہ سرکاری عملہ ذمہ دارہے ، جو مردم شماری ،ووٹر لسٹ ، آدھار کارڈوغیرہ میں مسلمانوں کا نام درج کر تا ہے ، عام طور پر ان سے غلطیاں رہ جاتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ایک مسلمان کا اپنے کئی سارے کاغذات میں جو سرکاری سطح سے بنائے گئے ہیں نام کی اسپلینگ ایک جیسی نہیں ہے ۔ بیشتر لوگوں کے نام میں غلطیا ںہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہے بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی اس طرح کا معاملہ ہے لیکن وہ نہ کے درجہ میں ہے ۔ اب سرکاری اہلکاروں کی غلطی کا خمیازہ بیچارے غریب مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جس کی مثال آسام این آر سی ہے ۔جہاں نام کی اسپلینگ میں’یو‘اور ’او ‘ کے فرق کے سبب لوگوں کو دشواریوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کبھی قدرتی آفت سیلاب ، طوفان ، زیادہ بارش اور آتشزدگی ، فسادات کے سبب لاکھوں لوگوں کے کاغذات ضائع ہو چکے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے اپنی زمین وغیرہ کے اصلی کاغذات دیکھانا بہت مشکل ہے ۔وہ کہاں سے لائیں گے۔ آپ ایس ڈی او آفس میں چلے جائیں ڈھیر سارے ریکارڈ آپ کو نہیں مل پائیں گے اور نہ ہی حکومت اور افسران کے پاس اس کا کوئی معقول جواب ہے ۔ ان حالات میں اگر کسی سے کاغذات مانگے جائیں تو وہ کیاکریں گے ۔ جب کہ حقیقت ہے کہ اس کی دسوں پشت ہندوستان میں ہی آباد رہی ہے ۔
حکومت چاہتی ہے کہ پہلے وہ این پی آر کرائے ،جیسا کہ ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے زور دیکر کہا کہ این پی آر بھی این آر سی کا ہی حصہ ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اب وہ اس کی تاویل کر رہے ہیں کہ این آرسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے ، این پی آر میں جو تفصیلات مانگی گئی ہیں ، ان کو مکمل نہیں کیا گیا تو اس خانہ میں ’D‘لکھ دیا جائے گا اور جب این آر سی ہوگا تب اسے ڈائوٹ فل قرار دے کر سارے کاغذات مانگے جائیں گے ۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو مرکز کی این ڈی اے حکومت کا حصہ بھی ہیں انہوں نے خود ا س بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’ان تفصیلات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کسی کو کیامعلوم کہ اس کی ماں کی پیدائش کہاں ہوئی ہے ،میں خود اس بات کو نہیں بتا سکتا کہ میری ماں کب پیداہوئی تھی‘۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کالم کو ہی ختم کر دینا چاہئے تاکہ بعد میں یہ تشویش باقی ہی نہ رہے کہ یہ کالم خالی کیوں ہے ۔ اس سے یہ بھی تشویش بڑھ جاتی ہے کہ کوئی بھی بد دماغ اور متعصب افسر اپنے دفتر میں جاکر اس خانہ میں ’ D‘لکھ کر کسی بھی شخص کو ڈائوٹ فل قرار دے دے گا اور پھر این آر سی میں اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اسی لئے کورونا جیسے خطر ناک وبائی امراض کے خطرے کے باوجود ملک کے کئی مقامات پر خواتین کا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ خواتین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ این آرسی، سی اے اے اور این پی آر کورونا سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ اس لئے ان کے دل سے کورونا کا ڈر بھی نکل چکا ہے۔ انہوں نے اپنی نسل کی حفاظت کے لئے اپنی جان تک لگا دی ہے ۔ جب یہ قانون پورے ملک میں نافذ ہوجائے گا تو صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ اور دلت آدی باسی بھی اس قانون کی وجہ سے مشتبہ شہری ہوجائیں گے جو دستاویزات نہیں پیش کرسکیں گے اور آپ جانتے ہیں کہ جب کسی صوبہ کا وزیر اعلیٰ دستاویزی ثبوت نہیں فراہم کرسکتا تو ہماری آپ کی اوقات ہی کیا ہے۔ ایسے میں اس قانون کے خلاف زبردست تحریک جاری ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبا سے لے کر عام آدمی تک اس کی مخالفت میں سڑک پر ہیں۔ اس مظاہرے کو دیکھتے ہوئے سرکار نے ایک کام یہ کیا ہے کہ NPR کے ذریعہ NRC کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔ NPR کا کام 2010 میں بھی ہوا تھا اور اسی کے تحت مردم شماری بھی کی گئی تھی، لیکن کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی اور کرنا بھی نہیں چاہئے تھا کیونکہ اس کے ذریعہ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں مدد ملتی ہے لیکن اس مرتبہ NPR میں کچھ نئے کالم جوڑے گئے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک کالم یہ ہے کہ ہر شہری کے ماں باپ کے پیدا ہونے کی تاریخ اور اس جگہ کا نام بھی بتانا ہوگا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ یہ سوال دراصل NRC کو سامنے رکھ کر شامل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس سوال کا جواب صحیح صحیح دستاویزی ثبوت کے ساتھ نہیں پیش کرپائیں گے انہیں مشتبہ شہری قرار دے دیا جائے گا۔ کیونکہ این پی آر میں مانگی جانے والی یہ چیز انتہائی خطر ناک ہے۔ اس معاملے میں ملک کی 99فیصد آبادی لپیٹ میں آجائے گی اور حکومت پورے طور پر منمانی کرنے کے لئے آزاد ہوگی۔ اس لئے ہونا یہ چاہئے کہ سب سے پہلے جتنے بھی سیاسی لیڈران ہیں خاص کر وہ جنہوں نے اسے قانون بنانے میں اپنی حمایت دی ہے، ان کے دستاویزات (15دستاویزات کے علاوہ) جمع کرائیں جائیں۔ اگر وہ سبھی اپنے کاغذات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اس قانون کو بالکلیہ مسترد کیا جائے۔
حکومت چاہے جتنابھی دعوی کرے کہ این پی آر کا سروے سے تعلق ہے ان کی بات نہیں مانی جا سکتی اس لئے کہ صاف طور پر این پی آر ہی این آر سی کا پہلا مرحلہ ہے اور یہیں سے شروع ہوگی کہانی۔ سی اے اے اور این آر سی لسٹ کا مرحلہ بہت بعد کا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کاغذات کے ضائع ہونے اور ملازمین کے جاہل، اجڈ، بد عنوان اور متعصب ہونے کی صورت میں کیا امید کی جا سکتی ہے؟ اس طرح سے بلیک میلنگ اور بد عنوانی کا معاملہ کتنا عروج پر چلا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ کوئی بھی ملازم کہہ سکتا ہے کہ اگر تم نے میری مطلوبہ رقم نہیں دی تو تیری شہریت مشکوک کردوںگا اور پوری زندگی اپنی شہریت ثابت کرتے رہ جائوگے۔ رقم ہی کیا کچھ بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے گھر، عزت،زمین کچھ بھی،اس وقت کیا ہوگا؟ سوچ کر خوف محسوس ہوتا ہے۔
جہاں تک قدرت سے مدد کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ قدرت اپنے حساب سے اور اپنے مطابق ہی چلے گی۔ صرف سجدہ ریزی سے کفار پر فتح ہو جاتی تو سرکار دو جہاںؐاور صحابہؓ کو جنگ نہیں کرنی پڑتی۔ اللہ سے لو لگانا، اللہ سے امید رکھنا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونا انتہائی ضروری ہے ساتھ ہی اپنے جان ومال، ایمان، عزت و آبرو کی حفاظت کی لئے اپنی وسعت سے زیادہ تیاری اور کوشش بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ دنیا ہے اور دنیا درا لاسباب ہے۔ سبب اختیار کئے بغیر کچھ نہیںہو سکتا ہے۔ اللہ کوجب جو کرنا ہے وہ اللہ پر چھوڑ دیجئے۔ آپ ملک کی آئین کے دائروں میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت کے لئے خود بھی سوچئے کیونکہ جب بیٹیاں لٹتی رہیں گی، گھر جلتے رہیں گے اور خون کی ندیاں بہتی رہیں گی تو تسبیح کے دانے کام نہیں آئیں گے۔
ای – میل: qasmisahara@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close