مضامین

امیرالہند کاحادثۂ ارتحال قوم وملت کے لئے ایک عظیم سانحہ

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

تم کیا گئے کہ رونقِ ہستی چلی گئی

دنیا کا نظام اسی طرح چل رہا ہے کہ آنے والے آتے اور جانے والے جاتے رہتے ہیں ، لیکن ایسی شخصیتیں کم ہیں جن کے جانے سے مشرق و مغرب کے انسان روئیں اور نسبی قرابت نہ رکھنے والے بھی ان کی وفات کو اپنا ذاتی حادثہ محسوس کریں ، حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ یقیناً ایسی ہی شخصیت کے حامل تھے ، اول تو اب علم کی ظاہری صورت میں بھی انحطاط نمایاں ہے ، لیکن ظاہر کی حدتک اب بھی شخصیتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، لیکن ایسی شخصیات جن کے گفتار وکردار میں علم رچا بسا ہو ، جن کی زندگی اتباع سنت اور سلف صالحین کے طرز وانداز سے منور ہو ، جن کی ادا ادا میں تواضع ، حلم ، خشیت اور حسن اخلاق کا جلوہ نمایاں ہو ، اب مشکل ہی سے کہیں نظر آتی ہیں ، اور جب ایسی کوئی شخصیت اٹھتی ہے تو عرصۂ دراز تک اس کا خلا پُر نہیں ہوتا ، الله تعالیٰ نے حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کو تدریس کے ساتھ ملت کے اجتماعی مسائل کا درد اور ان کے ساتھ خاص شغف بھی عطا فرمایا تھا ، چنانچہ اس سلسلے میں بھی آپ نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ملک کے مشہور عالم دین ، چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار نے مختلف اخبار کے صحافیوں کے درمیان حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کی رحلت پر تعزیتی کلمات کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے اپنے تعزیتی کلمات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حضرت امیرالہند علیہ الرحمہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد "جامعہ قاسمیہ” گیا، بہار میں تدریسی خدمات انجام دیں ، اس کے بعد ایک زمانہ تک "جامعہ اسلامیہ جامع مسجد” امروہہ میں رہے ، پھر 1982 ء میں امروہہ سے "دارالعلوم دیوبند” تشریف لائے ، 1999ء سے 2010 ء تک "دارالعلوم دیوبند” کے نائب مہتمم رہے ، اور اس وقت بھی وہ معاون مہتمم کے عہدہ پر فائز تھے ۔
انہوں نے کہاکہ حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کا آبائی وطن منصور پور ، ضلع مظفرنگر تھا ، 2/اگست 1944 ء کو سادات بارہا کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ، حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کے والد گرامی قدر نواب سید محمد عیسیٰ مرحوم نہایت صالح اور متقی و پرہیزگار آدمی تھے ، محترم نواب صاحب مرحوم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ الله عليه سے بیعت تھے ، نواب صاحب مرحوم کو اپنی اولاد کو دینی علم سے آراستہ کرنے کا بے پناہ جذبہ اور بڑی لگن اور دلچسپی تھی ، چنانچہ اسی عظیم اور نیک مقصد کی خاطر انہوں نے اپنا گھر چھوڑ کر دیوبند میں اقامت اختیار کرلی ، اور بچوں کو دینی تعلیم کے لئے”دارالعلوم دیوبند ” میں داخل کرایا ، آخری وقت میں حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کے والد مرحوم نے کہا کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں کسی اور غرض سے دیوبند آیا ہوں ، میں تو صرف ” مزارِ قاسمی ” میں تدفین کے لئے آیا ہوں ، میرے انتقال کے بعد میری تدفین ” مزارِ قاسمی” میں ہی کرنا ، چنانچہ1963ء میں دیوبند میں محترم نواب صاحب کا انتقال ہوا ، اور ” مزارِ قاسمی” میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا موصوف نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند ، محدّث دارالعلوم دیوبند ، بلند پایہ عالم دین ، قوم و ملت کے متاع گراں مایہ امیر الہند ، نمونۂ اسلاف ، داماد حضرت مدنی علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری ( نور اللہ مرقدہ وبرد اللہ مضجعہ ) 76 سال کی عمر میں ۸ / شوال المکرم ١٤٤٢ھ مطابق 21 / مئی 2021ء عین نماز جمعہ کے وقت دوپہر سوا ایک بجے "میدانتا ہاسپیٹل گڑگاؤں” میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ، ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیئ عندہ باجل مسمی فلنصبر ولنحتسب ،اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناتك و ألهم أهله وذويه الصبر والسلوان يارب العالمين۔
درحقیقت حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کا وصال صرف ایک شخص کا وصال نہیں بلکہ ایک دور کا خاتمہ ہوگیا ، جرأت وہمت کاپیکر ، بزرگانہ اقدار واصول کا امین ، دارالعلوم کی عظمت کا پاسبان ، اور اس سے بڑھ کر محبت دارالعلوم سے پوری طرح سرشار ایک بے لوث خدمت گار دارالعلوم سے ہمشہ کے لئے رخصت ہوگیا ، الله تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا۔
دعاء کریں کہ الله تعالیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ ، ان کے فرزند مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری زید مجدہ ، مولانا محمد عفان منصور پوری زید مجدہ ، ان کی دختر اور دیگر اھل خانہ کو صبر جمیل اور اجر جزیل کی دولت سے سرفراز فرمائے۔(آمین یارب العالمین)
انہوں نے کہا کہ پہلی نمازِ جنازہ بعدنمازِ عشاء ۸/ شوال المکرم ١٤٤٢ھ مطابق 21 / مئی 2021ء کوجمعیۃ علماء ہند دہلی کے احاطۂ دفتر میں اور دوسری نمازِ جنازہ احاطۂ مولسری دارالعلوم دیوبند میں تقریباً گیارہ بجے رات میں ادا کی گئی۔اورعلماء واکابر دیوبند کے مشہور و مخصوص قبرستان” مزارقاسمی” میں تدفین عمل میں آئی۔
دل سے دعا ہے کہ الله تعالیٰ ان کو جنت میں درجاتِ عالیہ سے نوازے ، ان کی دینی خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے ، اپنے مقامِ قرب میں پیہم ترقی درجات عطا فرمائے اور پسماندگان کو اس صدمے کے سہنے کا حوصلہ عطا فرمائے ۔آمین یارب العٰلمین
اخیر میں قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ حضرت امیر الہند علیہ الرحمہ کے لئے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کو خود اپنی سعادت سمجھ کر انجام دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close