مضامین

انتخاب کے بعد امراء شریعت کے احساسات وخیالات

انتخاب کے بعد امراء شریعت کے احساسات وخیالات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلام میں عہدے اور منصب کا تعلق نہ تو روایتی جاہ وحشم سے ہے اور نہ ہی حکمرانی اور ملوکیت سے ، یہاں عہدہ کا مطلب ذمہ داری اور فرائض کی ادائیگی کا وہ احساس ہے جو انسان کو قوم کا خادم بنا دیتا ہے ، اسی وجہ سے سید القوم خادمہم کہا گیا ہے۔ امارت شرعیہ کے سارے امراء کے احساسات انتخاب کے بعد یہی تھے اور سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ ایک ذمہ داری ہے ، جس کی ادائیگی کے لیے اللہ رب العزت سے دعا بھی کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو سمع وطاعت کے جذبہ سے تعاون بھی کرنا چاہیے، اس کے بغیر اس اہم منصب کی ذمہ داری کا ادا کرنا عملا ممکن نہیں ہے، یہ احساس ذمہ داری اس قدر حاوی ہوتا تھا کہ عوام بھی یہ مان کر چلتی تھی کہ یہ عہدہ ایک آزمائش ہے، اب تو عہدہ ملنے پر مبارکبادی دی جاتی ہے اور ہر چھوٹا بڑا اس میں سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ ماضی میں متعلقین تعزیت اور پُر سہ کے لیے جاتے تھے کہ اب آزمائشیں اس شخص پر بارش کی طرح نازل ہوں گی وہ دعا کرتے تھے کہ اللہ عزم وحوصلہ اور استقامت سے نوازے۔
امارت شرعیہ کے امراء شریعت بھی انتخاب کے بعد ان ہی احساسات کے حامل تھے، انہوں نے اپنے پہلے خطاب یا احکام میں واضح کر دیا کہ امارت شرعیہ کی کشتی کو کس طرح آگے بڑھانا ہے، اس کے حدود وقیود کیا ہوں گے اور کن اصول وضوابط کے ساتھ کام کرنا ہے ، چنانچہ پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدر الدین قادری ؒ پہلے تو اس ذمہ داری کو قبول کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، لیکن لوگوں کے اصرار خاص کر قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کے کہنے سے اس عہدہ کو قبول کیا۔ ۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ کو امارت شرعیہ کا قیام اور امیر کا انتخاب ہوا تھا، دوسرے دن حضرت امیر شریعت اول نے اپنے پہلے فرمان میں لکھا کہ
’’تمام مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ امارت کا مقصد کیا ہے ؟ خدمت وحفاظت اسلام ، بقاء عزت وناموس دین، اجراء احکام شرعیہ جو بجز اجتماعی قوت کے ممکن نہیں ہے ، ان مقاصد ومصالح شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر میں اسی نوع کے احکام جا ری کروں گا، جس سے حیات اجتماعی کو تعلق ہو اور وہ ایسے احکام ہوں گے جو مسلمانوں کی کسی جماعت کے خلاف نہ ہوں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: آج میں محسوس کرتا ہوں کہ میری ذمہ داریاں کسی قدر بڑھ گئی ہیں ، ہمارا فرض ہوگا کہ کسی مسلمان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہونچے‘‘ (دینی جد وجہد کا روشن باب)
امیر شریعت اول کے وصال کے بعد ۹؍ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ کو حضرت مولانا سید محی الدین قادری ؒ امیر شریعت ثانی منتخب ہوئے، انتخابی اجلاس میں ہی بحیثیت امیر شریعت آپ نے اپنے قیمتی اور کلیدی خطاب میں فرمایا:
’’حضرات! آج آپ نے جو بار اور بوجھ میرے سر ڈالا ہے، میں ہرگز اس کو اٹھانے اور بر داشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوں، لیکن جب آپ حضرات اتفاق رائے سے مجھ پر یہ بار ڈال رہے ہیں تو میں صرف اس لیے کہ میرے انکار سے تفرقہ کا خوف ہے، مجبور ہو کر قبول کرتا ہوں، آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح آپ نے میرے سراتنا بڑا بوجھ ڈالا ہے، اپنے سر بھی ڈال لیا ہے، یعنی آپ نے مجھ کو اپنا سردار تسلیم کر لیا ہے تو میری تمام خدمات کا دارو مدار آپ کے سمع وطاعت پر ہے ، آپ حضرات سمع وطاعت سے میری مدد کریں تو یقین کیجئے کہ آپ کے لیے دین ودنیا کی بھلائی حاصل ہوگی۔(محی الملۃ والدین ۴۹)
تیسرے امیر شریعت کا انتخاب ڈھاکہ میں ۲۶؍ جون ۱۹۴۷ء کو ہوا ، امیر شریعت کی حیثیت سے مولانا سید شاہ قمر الدین ؒ کا انتخاب عمل میں آیا، دوسرے روز رات کے اجلاس میں ۲۷؍ جون کو آپ پٹنہ سے ڈھاکہ تشریف لے گیے، اجلاس عام سے خطاب بھی فرمایا ؛ لیکن بد قسمتی سے جس طرح قیام امارت کے موقع سے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر ضبط تحریر میں نہیں لائی جا سکی ، ویسے ہی امیر شریعت ثالث کے خطاب کا کوئی حصہ یا تو محفوظ نہیں رہا یا میرے مطالعہ میں نہیں آیا، چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کا انتخاب ۲۴؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں عمل میں آیا، انتخاب کے چوتھے روز ۲۷؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو دفتر تشریف لائے اور مختصر معائنہ کے بعد کتاب الاحکام میں لکھا:
’’امارت شرعیہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے مسلمانوں کا مشترک ادارہ ہے ، جس کا مقصد بنیادی عقیدہ کی وحدت پر مسلمانوں کی شرعی تنظیم ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، مسلمانوں میں ممکن حد تک اسلامی احکام جاری ہوں، اور مسلمان اس ملک میں اسلامی زندگی گذار سکیں، ظاہر ہے کہ یہ مقصد عظیم تعصب ، تنگ نظری ، پارٹی بندی اور اپنے مسلک سے ہٹے ہوئے لوگوں پر طعن وتشنیع کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘آگے لکھتے ہیں۔
’’ ایسا طریقۂ کار اختیار کریں کہ مختلف مسلک اور خیال کے ادارے اور اشخاص ، مقصد عظیم کے لیے امارت شرعیہ کے گرد یہ حسن ظن رکھتے ہوئے جمع ہو سکیں کہ یہاں ان کی انفرادیت پر حملے نہ ہوں گے اور نہ ان کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جا ئے گا۔ (دینی جد وجہد کا روشن باب)
حضرت امیر شریعت رابع کے ۱۹۹۱ء میں انتقال کے بعد مولانا عبد الرحمن صاحب پانچویں امیر شریعت منتخب ہوئے، امیرمنتخب ہونے کے بعد جو آپ نے پہلا خطبہ دیا ، اس میں فرمایا:
’’آج کے نازک حالات میں مسلمانان بہار واڈیشہ کی امارت کے منصب کی جو بھاری ذمہ داری اس حقیر پر عائد کی گئی ہے، میں اس کی نزاکت کومحسوس کرتا ہوں، اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے کمزور بندے کو قوت اور ہمت عطا فرمائے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، میں اپنی طاقت بھر اس کے لیے کوشاں رہوں گا کہ اللہ کے احکام کی تنفیذ اور حضور اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو جاری کرنے کی راہ میں سلف اور خاص کر پچھلے چاروں امراء شریعت اور بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی روش پر چلتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ جملہ برادران اسلام بلا لحاظ اختلاف ومسلک وخیال ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر اللہ کے دین کی حفاظت کی راہ میں اس حقیر کے ساتھ تعاون کریں گے ۔ ‘‘ (نقیب ۸؍ اپیل ۱۹۹۱ئ)
امیر شریعت خامس کے انتقال کے بعد چھٹے امیر شریعت کی حیثیت سے مولانا سید نظام الدین صاحب کا انتخاب ہوا، حضرت نے امت مسلمہ کے نام اپنے پہلے پیغام میں لکھا:
’’یکم نومبر ۱۹۹۸ء کو مجلس ارباب حل وعقد کا اجلاس ہوا اور اس نے اتفاق رائے سے امیر شریعت سادس کی حیثیت سے میرا انتخاب کیا اور ایک بڑی ذمہ داری میرے کمزور کاندھوں پر ڈال دی ہے ، میں اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ سمجھتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس عظیم منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق واستطاعت فرمائے۔‘‘
حضرت نے لکھا : ’’بحیثیت امیر شریعت اس موقع پر یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امارت شرعیہ جس طرح اب تک اسلاف کے طریقہ پر چلتی رہی ہے آئندہ بھی اس روش پر گامزن رہے گی ۔ ‘‘ (نقیب ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۸ئ)
چھٹے امیر شریعت کے وصال کے بعد ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا انتخاب ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو دار العلوم رحمانی زیرو مائل ارریہ میں عمل میں آیا، اس موقع سے آپ نے مجلس ارباب حل وعقد کے ارکان سے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا :
’’آپ حضرت نے جو ذمہ داری میرے سپرد کی ہے وہ بہت ہی نازک اور اہم ہے، اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اللہ کے فضل کے علاوہ آپ حضرات کی مضبوط ، مستحکم اور مربوط معاونت کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے یہاں موجود آپ تمام حضرات اور بہار اڈیشہ جھارکھنڈ کی عوام کا مجھے اور امارت شرعیہ کو مکمل تعاون ملے گا۔‘‘
حضرت نے فرمایا : لوگوں پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہم خود اپنا محاسبہ کریں، اس لیے کہ شخصیتیں بہت مشکل سے بنتی ہیں اور آسانی سے پگھل جاتی ہیں، اگر شخصیتوں اور اداروں کی حفاظت کریں گے تو ہم مضبوط ہوں گے ۔ (نقیب۷؍ دسمبر ۲۰۱۵ئ)
ان تمام امراء شریعت کے پہلے احساسات وخیالات کو طویل اقتباس کے ساتھ نقل کر کے یہ بتانا مقصودہے کہ امیر شریعت کا منصب عہدہ نہیں ایک ذمہ داری ہے ، سارے امراء شریعت نے اس کا اظہار کیا ہے، سمع وطاعت پر بھی زور دیا ہے، یہ دو طرفہ معاملہ ہے اور اسی میں امارت شرعیہ کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close