مضامین

ایک خوشبو ریز قلم رک گیا

سال گذشتہ جن باکمال مصنفوں کی کتابوں کے مطالعہ نے ان کے مصنف سے واقفیت ہی نہیں بلکہ عشق وارفتگی کرایا ان میں ایک نمایاں نام "حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ” کا بھی ہے، اور پھر اسی عشق نے حضرت رحمہ اللہ سے فون پر گفتگو تک کرنے کی سعادت بخشی۔
آہ! یہ خبر دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ اس دور قحط الرجال میں قلم و قرطاس کے تاجور، مدینۃ العلم سرزمین دیوبند کے سب سے عظیم اردو ادیب و اریب، خانوادہ انوری کے در نایاب حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ اس دار فانی سے دار آخرت کوچ کر گئے۔
انا لله وانا اليه راجعون
افان مت فهم الخالدون
خبر دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا فوراً اپنے بھانجہ عزیزم حافظ اسامہ سلمہ (شریک دورۂ حدیث شریف دارالعلوم وقف دیوبند) کو فون کیا رابطہ نہیں ہوسکا دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ خبر غلط ہو، لیکن سوشل میڈیا پر یہ خبر عام ہوچکی تھی اس لئے اب تصدیق کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے پوتے اور رئیس القلم حضرت مولانا ازہر شاہ قیصر رحمہ اللہ کے نامور فرزند ارجمند تھے۔
اس دور میں اردو زبان وبیان کے باکمال ادباء کی فہرست میں سب سے نمایاں اور سرفہرست حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ کا نام آتاتھا، آپ کے اشہب قلم سے جو بھی کتابیں منصہ شہود پر آئیں ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور ذوق و شوق سے پڑھی گئی، سال گذشتہ راقم الحروف نے آپ کی سات کتابیں مطالعہ کیا جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، تمام کتابوں کا تبصرہ بھی لکھا اس کے بعد حضرت مولانا رحمہ اللہ سے فون پر رابطہ کیا علیک سلیک کے بعد فدوی نے کہا حضرت دومنٹ گفتگو کرنی ہے اجازت ملی اور پھر جب گفتگو شروع ہوئی تو حضرت رحمہ اللہ دیر تک گفتگو کرتے رہے، راقم الحروف نے کہا حضرت! آپ کی کتاب "اکابر دیوبند اختصاصی پہلو” میں جو اشعار حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے منسوب ہے وہ اشعار تو "نعم” (کرم حیدر) نامی کتاب میں ہے، اور یہ کتاب میرے پاس پی ڈی ایف میں ہے، حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن مجھے بھی معلوم نہیں کہ کیسے میں اپنی کتاب میں لکھ دیا ہوں، اور پھر ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازے۔
حضرت رحمہ اللہ ایک خاص عنوان کے تحت سات یا اس سے زیادہ کتابیں لکھنا چاہتے تھے جیسے”حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رح زندگی کے چند روشن اوراق” تین لکھ چکے تھے اور چار ان ناموں سے باقی تھا (1)حضرت مولانا عامر عثمانی رح زندگی کے چند روشن اوراق (2) حضرت علامہ انور صابری زندگی کے چند روشن اوراق (3)حضرت مولانا سید محبوب رضوی زندگی کے چند روشن اوراق (4) جناب جمیل مہدی زندگی کے چند روشن اوراق۔
معلوم نہیں آپ یہ کتابیں لکھ پائے یا نہیں، ایسے آپ کے نوک قلم سے بے شمار مضامین اور 23/کتابیں منظر عام پر آکر دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں اور یہ ساری کتابیں آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے، اللہ تعالیٰ ان تمام کتابوں کو قبول فرماکر آپ کے لیے بلندی درجات کا سبب بنائے۔ (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close