اسلامیات

جنگ جیتنے کے کامیاب نبوی فارمولے

مولانا اسعد مدنی صاحب کا خطاب
11،12 فروری 1989 کو منعقد مجلس منتظًہ جمیعت علمائے ہند کے اجلاس سے حضرت فدائے ملت کے خطاب کے چند اہم اقتباسات
مولانا مد ظلہ نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ وقتاً فوقتاً جمع ہوتے رہیں اور ملی سفر میں جو دشواریاں پیش آئیں، انھیں دور کرنے کے طریقے اختیار کریں اور ان طریقوں کو عملی جامہ پہنا ئیں، تاکہ ہم عند اللہ و عند الناس جواب دینے کے لائق ہو سکیں۔ جدوجہد کی دعوت دینا ہما را فرض ضرور ہے؛ لیکن یہ دعوت ہزاروں افراد کے تعاون کے بغیر بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ صرف باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا؛ بلکہ غور وفکر کے ساتھ عمل کرنے والی ایک مضبوط اور منظم جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے؛ ورنہ ہم منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس امر کا اطلاق فرد اور جماعت دونوں پر ہوتا ہے کہ سمت کا تعین ٹھیک ہو، منصوبے اور پروگرام درست ہوں۔
جمعیت علمائے ہند نے آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد ہمیشہ ہر موقع پر صحیح فیصلہ کیا ہے، جس کا اعتراف بعد میں لو گوں نے سخت نقصان اٹھانے کے بعد کیا ہے۔ ہر کسی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کہنا چاہیے؛ بلکہ اس احساس اور عقیدے کے ساتھ ہر کام کرنا چاہیے کہ ہمارا تعلق صرف عوام سے نہیں؛ بلکہ اس خالق کائنات سے بھی ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہمیں عوام کے بجائے اللہ کی خوشنودی پر نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ بدر کا حکم دیا، تو آپ (ﷺ) نے انتہائی بے سر و سامانی کی حالت میں صحابہ سے کہا کہ اللہ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے۔ آپ(ﷺ) کے ساتھیوں نے آپ (ﷺ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام)کے اصحاب نہیں ہیں کہ باطل سے مرعوب ہو کر مقابلے سے پیچھے ہٹ جائیں؛ بہر حال تین سو تیرہ افراد نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کے جذبے سے سرشار ہوکر صرف آٹھ تلواروں کی مدد سے دشمنوں کے لشکر جرار کا مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوئے۔ ابوجہل اسی غزوہ میں جہنم رسید ہوا، جس کو مرتے دم تک یہ افسوس رہا کہ وہ معمولی انصاری بچوں کے ہاتھوں کیوں ہلاک ہوا۔ مکہ کے کسی شریف کے ہاتھوں کیوں نہیں مارا گیا۔ یہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کا فیض تھاکہ تین سو تیرہ افراد نے ایک لشکر جرار پر فتح پائی۔ تعمیل حکم کے بغیر ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اور ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم اطاعت محمدی (ﷺ) کی دولت سے محروم ہوگئے ہیں۔
غزوہ بدر کے برعکس غزوہ احد میں مسلمانوں کے پاس افراد کی قوت کے علاوہ ہتھیاروں کی بھی کثرت تھی؛ تعمیل ارشاد نبوی (ﷺ) میں معمولی سی کوتاہی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی، اور مجاہدین اسلام کو اتنی زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی کہ محمد(ﷺ) دندان مبارک لہو لہان ہو گئے۔ صحابہئ کرام جیسی مقدس ہستیوں کو جب ایک معمولی سی فروگزاشت کی اتنی بھیانک سزا ملی،تو ہم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ براہ راست اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں اور اس پر یہ توقع کریں کہ ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول کے بغیر ہماری ساری جدوجہد بے سود ہوگی اور ہماری ساری تدبیریں نا کام ہو جائیں گی۔ اگر ملت کی یہی بے راہ روی او ربے عملی جاری رہی اور اس نے اپنی روش نہیں بدلی، تو اس کو اللہ کے غصہ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
صدر جمعیت مولانا سید اسعد مدنی نے آر ایس ایس کے خوف ناک عزائم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فسطائی عناصر اب مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دینا چاہتے ہیں؛ مگر مسلمان ہیں کہ چہ غم بنے ہوئے ہیں اور اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم بے عمل ہو کر انتم الاعلون کیوں کر بن سکتے ہیں۔ سعی مسلسل اور متواتر جد وجہد کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ واویلا مچانا اور مرثیہ پڑھنا مسلمان ترک کر دیں، اس لیے کہ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مولانا سید اسعد مدنی نے جدوجہد اورسعی مسلسل کی بار بار تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مغضوب و مقہور لوگ بھی جد و جہد کرتے ہیں، تو انھیں اس کا پھل ملتا ہے۔ ہم خیر امت ہیں تو ہمیں ہماری کوششوں کا ثمرہ کیوں نہیں ملے گا۔ یہ بڑی بد بختی کی بات ہے کہ اسی فی صد مسلمان اسلام اور شعائر اسلام سے بالکل بے گا نہ ہیں۔ ہم نے واویلے کو مقصد بنا لیا ہے اور مقصد کو بھول گئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close