مضامین

خلاصہ رنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ

رنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ
اقلیتوں میں اقتصادی و سماجی پچھڑے پن کی تعریف:
(۱) پچھڑی ذاتوں کی پہچان کے سوال پر اکثریت اور اقلیت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اقلیتی فرقہ کو وہی مراعات ملنی چاہئیں جو اکثریتی طبقہ کو مل رہی ہیں۔
(۲) اقلیتوں میں موجود تمام پچھڑے، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب افراد کو وہی مراعات ملنی چاہئیں جو اکثریتی فرقہ کے ان تمام افراد کو ملتی ہیں۔ اقلیتی فرقہ کو ان تمام افراد اور ذاتوں کو پچھڑی ذاتوں کا درجہ ملنا چاہیے، جو اکثریتی فرقہ کی ان ذاتوں کو مل رہا ہے۔
(۳) جن شیڈول ٹرائب (درج فہرست قبائل) کے علاقوں میں اقلیتی فرقہ کے افراد آزادی سے پہلے سے بسے ہوئے ہیں، انھیں بھی وہی درجہ ملنا چاہیے۔
تعلیمی اقدامات
(۱) کمیشن کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں پندرہ فیصد سیٹیں اقلیتوں کیلئے مخصوص کرائی جائیں۔ دس فیصد مسلمانوں کے لیے اور پانچ فیصد بقیہ اقلیتوں کے لیے۔
(۲) کمیشن کا کہنا ہے کہ کیونکہ اقلیتی اداروں میں صرف ۰۵ فیصد سیٹیں اقلیتوں کے لیے ہیں اور بقیہ ۰۵ فیصد اکثریتی فرقہ کے لیے اس لیے تمام تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کو کم از کم ۵۱ فیصد ریزرویشن ملنا چاہیے۔
(۳) کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ اقلیتی فرقہ کے جو افراد جنرل کوٹے سے منتخب ہوجائیں انھیں اس پندرہ فیصد کا حصہ نہ سمجھا جائے۔
(۴) اقلیتی فرقہ کے پچھڑے طبقوں کو فیس میں وہی رعایت دی جائے جو شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو دی جاتی ہے۔
(۵) مسلمان کیونکہ تعلیم میں سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے لیے خصوصی سفارشات۔
A. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ مسلمانوں کے تعلیمی پچھڑے پن کو دور کرنے کے لیے قدم اُٹھائیں۔ ہر صوبہ میں کم از کم ایک مسلم ادارے کو یہ ذمہ داری سونپی جائے۔
B. مولانا آزاد ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کا ایک بڑا حصہ مسلم آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے لیے مخصوص کردیا جائے اور ان کے تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جائے۔
C. آنگن واڑی، نوودیہ وِدّیالیہ کی طرز پر مسلم آبادی والے ضلعوں میں ایسے تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور مسلمانوں کو اپنے بچوں کو یہاں بھیجنے کی ترغیب دی جائے۔
(۶) پورے ملک میں سہ لسانی فارمولہ لاگو کیا جائے۔ بچوں کی مادری زبان خصوصاً اُردو اور پنجابی کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔
(۷) آئین کے آرٹیکل ۰۳ کی روح کو لاگو کرنے کے لیے ایک نیا قانون بنایا جائے۔ قومی اقلیتی تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کمیشن کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو وسیع تر بنایا جائے تاکہ وہ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق پر عمل درآمد کراسکے اور اس کے حقوق کے چوکیدار کے طور پر کام کرسکے۔
اقتصادی اقدامات
(۱) اقلیتیں خصوصاً مسلمان دستکاری کا کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں۔ ان دستکار اور چھوٹے کام دھندوں کے فروغ اور بہتری کے لیے قدم اُٹھانے چاہئیں۔
(۲) زراعت کے سیکٹر میں اقلیتوں خصوصاً مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زراعتی تجارت اور کام دھندوں میں انھیں بڑھاوا دینے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
(۳) اقلیتی فائننس کارپوریشن کے قوانین اور شرائط کو آسان بنایا جائے اور اسے زیادہ مؤثر بنایا جائے۔
(۴) پرائم منسٹر روزگار یوجنا، دیہاتی روزگار یوجنا جیسی قومی ترقیاتی اسکیموں میں اقلیتوں کو پندرہ فیصد حصہ دیا جائے۔ (دس فیصد مسلمانوں کو اور پانچ فیصد اقلیتوں کو)
ریزرویشن
(۱) کیونکہ اقلیتیں خصوصاً مسلمان سرکاری نوکریوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں اس لیے ہماری سفارش یہ ہے کہ انھیں آرٹیکل (۴) ۶۱ کے معنی میں پچھڑے تصور کیا جائے اور تمام مرکزی و ریاستی نوکریوں میں انھیں پندرہ فیصد ریزرویشن دیا جائے۔
(۲) سرکاری نوکریوں میں دس فیصد ریزرویشن مسلمانوں کے لیے اور پانچ فیصد بقیہ اقلیتوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔
(۳) اگر دس فیصد سیٹیں بھرنے کے لیے مسلمان نہ ملیں تو پھر پچھڑوں کو دیئے گئے ۷۲ فیصد کوٹہ میں سے ۴ء۸ فیصد اقلیتوں کے لیے مخصوص کردیا جائے۔ اس میں سے چھ فیصد مسلمانوں کو اور بقیہ دوسری اقلیتوں کو دیا جائے۔
(۵) شیڈول ٹرائپ میں جو اقلیتیں ہیں، ان کی نشاندہی کرکے انھیں ان کا حق دیا جائے۔
مزید سفارشات
(۱) آئین میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو مذہبی بنیاد پر نہ دیکھا جائے۔ ان طبقوں سے تعلق رکھنے والا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھے، اسے تمام مراعات ملنی چاہئیں۔
(۲) آئین مذہب اور ضمیر کی آزادی دیتا ہے اس لیے کوئی شیڈول کاسٹ یا شیڈول ٹرائب اگر اپنا مذہب بدلتا ہے، تو اس کی مراعات ختم نہیں ہونی چاہئیں۔
(۳) ایک پارلیمانی کمیٹی کا قیام جو اقلیتوں کے معاملات پر غور کرے اور سفارشات پر عمل درآمد کرائے۔
(۴) اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک قومی کمیٹی کا قیام۔
(۵) اقلیتوں کو بینکوں سے قرضہ دینے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا کی زیر سرپرستی تمام سرکاری بینکوں اور اقتصادی اداروں کے نمائندوں کی کمیٹی کا قیام۔
(۶) جن صوبوں میں اقلیتی کمیشن نہیں ہیں، وہاں اقلیتی کمیشن یا ڈپارٹمنٹ کا قیام۔
(۷) ہر ضلع میں اقلیتی ویلفیئر کمیٹی کا قیام، جس میں افسران اور ماہرین شامل ہوں، اس کے علاوہ اور بہت سی متفرق سفارشات۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close