اسلامیات

نعت شاہ کونین اور ریحانہ عاطفؔ:ڈاکٹرراحتؔ مظاہری،قاسمی

نعت شاہ کونین اور ریحانہ عاطفؔ:ڈاکٹرراحتؔ مظاہری،قاسمی
اہل علم وفن جہاں اس حقیقت کے قائل ہیںکہ شاعری ایک خداداد فن وصلاحیت ہے وہیں اس کے بھی معترف ہیں کہ نعت گوئی بذات خود ایک خاص نعمت خداوندی اور فضل ربی ہے،جس کی بنیادی خشت الفت شاہ مدینہ اورآ پﷺ کی اتباع سنّت ہے، کیونکہ بناالفت وحبّ نبی اور بغیر اتباع سنت یہ پڑھائی، لکھائی کاکوئی فن توہوسکتاہے مگردرحقیقت نعت نبوی ہرگز نہیں۔
میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں بلکہ ایک معتبرمیرکارواں، مرد فقیر،شیخ کامل، اپنے پیرومرشد اوّل ،مولائی ومربی فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین المظاہری(سقیٰ اللہ ثراہ وجعل الجنّۃ مثواہ) کے اس قول کی بنیاد پربہت ذمہ داری کے ساتھ نقل کرتاہوں جوحضرت والانے میر ے اپنے نعتیہ دیوان ’’نعت عاقب،،بہ زمین غالبؔ کے مسودہ پر تحریر فرمائی تھی
’’ذکررسولﷺ خواہ وہ نعت کی صورت میں ہویاکسی اورطرح ہو بہرصورت بہترین عمل اورباعثِ اجروثواب ہے، بشرطیکہ حدسے تجاوزنہ ہو اوراخلاص کے ساتھ ہو، عزیزم !نعت گوئی ایک عملی نعمت ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ ٔحسنہ کواپنے عمل میں لانااوراتباع سنت کرنایہی درحقیقت وصول الی اللہ کاذریعہ ہےاورجوذکربعد الایمان افضل الطاعات ہے،اسی کا معین ومعاون ہے،اسی سےمعمولات ذکرکی پابندی ومداومت پرزوردیاجاتاہے،فعلیک العمل بہٖ،،(مقدمہ نعت عاقب،،بہ زمین غالبؔ،ص:(۶)،،
نعت نبی کی تعریف:مشہور ادیبہ سیدہ حمیرہ ’نقوش رسول نمبر جلد دوم ص ۱۰پرلکھتی ہیں
’’ہر عمدہ اور جید چیز کو جس کے اظہار میں مبالغہ سے کام کیا جائے نعت کہتے ہیں جو چیز بہت خوب ہو اس کے متعلق کہا جائے‘‘
فارسی لغات میں نعت کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ :نعت کا لفظ وصف اور ثنائے رسول ﷺ میں استعمال ہے‘‘۔
واضح ہو کہ لفظ نعت عربی فارسی اور اردو لغات میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتے ہوئے اردو زبان تک پہنچتے پہنچتے ایک مخصوص اصطلاح کے طور پررائج ہے اور بہ اصطلاح نعت ایسی نظم ہے کہ جس میں حضور اکرم ﷺ کی مدح و تعریف کا بیان ہو۔
نیز لفظ نعت حضور اکرمﷺ کی تعریف آپؐ کی سیرت مبارکہ کے بیان اور آپؐ سے مسلمانوں کے اظہار محبت کے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔
نعت کے وسیع تر موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے راجہ رشید محمود ر’ ورفعنالک ذکرک ،ص نمبر ۱۲۶پرلکھتے ہیں کہ :آپﷺ کی رسالت تمام انسانیت کے لئے ہے،آپ تمام اقوام عالم کے لئے رحمت اور تمام بنی نوع انسان کے لئے محسن بن کر آئے آپﷺ کے فیضان رسالت کو کسی ایک قوم یا زمانے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔
انسان کی ہر منزل ارتقاء کے پس منظر میں آپﷺ کی شخصیت اور روشن تعلیمات کی کارفرمائی ہے، نعت گو شعراء، آپﷺ کی عظمت، کردار، خلق عظیم، اسوہ حسنہ، منشور و شریعت کا مطالعہ اپنی ذات و قوم کے دائرے سے لیکر انسانی اور آفاقی تصورات کی افادیت تک کرتے ہیں۔ اس طرح عصر حاضر کی نعتوں میں آپﷺ کا ذکر پیغمبر اسلام کے ساتھ محسن انسانیت کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔
مشہور انگریز فلفسفی ،مصنف مائیکل ہارٹ Michel Hart نے اپنی تصنیف "The Hundred” میں جس میں دنیا کی سو100 عظیم شخصیتوں کاذکرکرتاہے اس نے پیغمبراسلام محسن انسانیت حضرت محمد،صطفیٰﷺ کو دنیا کی سو عظیم شخصیات میں آپ کاذکر سب سے پہلے کیاہے۔یقینی طورپریہ بھی نثری نعت کی ایک صورت ہی ہے۔
البتہ جدید نعت صنف غزل کی طرح اپنے مرکزی موضوع (مدحت رسولﷺ) سے پھیل کر دنیا بھر کے مسائل کو محیط کر رہی ہے۔جیساکہ
دورحاضر امت مسلمہ کی بڑھتی ہوئی الجھنیں اورزمانی کی ستم ظریفی پر احقرکایہ شعر پیش ہے۔

امت کی اپنی آکے حفاظت توکیجئے

دنیانے اس سے مانگاہے ایمان کاخراج
(ڈاکٹرراحتؔ مظاہری)
گذشتہ چند برسوں سے نعت میں اس معیار و معراج انسانیت کے حوالے اپنے احوال کا جائزہ لینے کا رجحان عام ہو رہا ہے اور زندگی کا ہر مسئلہ نعت کا موضوع بن رہا ہے یوں نعت کا کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے( حفیظ نائب)
نعت کی تاریخ:تاریخ اسلام ،احادیث مغازی، اور سیرت پاک کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللہ کے محبوبﷺ کے اولیں نعت گوخوش نصیبوں میں آپ کے چچامحترم حضرت ابوطالب،خاتون جنت حضرت فاطمہ صلوات اللہ علیھا،اورشاعراسلام حضرت حسّان بن ثابت ؓ وغیرہم شامل ہیں۔
ہندستانی شعرامیں طوطی ہندحضرت امیرخسرو وغیرہ فن نعت گوئی کے بنیاد گذاروں میں شمارہیں جیساکہ ان کی مشہور غزل میں بھی مکمل طورپر نعت کی صرف جھلک ہی نہیں بلکہ پوراپورا مواد اورعنصر موجودہے

خداخود میر مجلس بود ،اندرلامکاںخسروؔ
محمدشمع محفل بود، شب جائیکہ من بود۔
البتہ ہندستان میں نعت گوئی کے فن میں جدت اوراس کو سہل الحصول بنانے والوںمیں خواجہ الطاف حسین حالیؔ کانام نامی اوران کی شہرہ آفاق تصنیف ’مدّوجزراسلام،(مسدّسِ حالی ) کے سرجاتاہے۔جیساکہ ان کے مندرجہ ذیل اشعاراس کی شہادت ہیں
۱۸۵۷ء کے بعد اردو شاعری کی طرح اردو نعت کی ہیئت اور اسلوب میں بھی فرق آیا۔ نعت کے جدید دور کا آغاز الطاف حسین حالیؔ سے ہوتا ہے۔ جبکہ انھوں نے اپنی مشہور مسدس مد و جزر اسلام میں چند نعتیہ اشعار کے بند اس طرح کہے ہیں۔
اسی کے ساتھ شاید یہ ذکربھی لطف سے خالی نہ ہو کہ اردو نعت پر ہندوستانی اثرات کا رنگ بھی ہماری ہندستانی تاریخ وثقافت کاایک اہم حصہ ہے جیساکہ نعت کا تعلق خالص اسلامی عقیدے سے ہے لیکن اردو شاعری کی تاریخ اس بات کی مظہر ہے کہ نعت گوئی کے فن پر مسلم نعت گو شعراء کے علاوہ غیر مسلم نعت گو شعراء نے بھی اپنے کمال کا اظہار کیا ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

شاہی دوراورنوابی محلوںبھی میں درباری شعراء بلا لحاظ مذہب و ملت اردو میں شاعری کرتے تھے اور فرقہ پرستی کے جذبے سے پاک اس دور کی شاعری میں جہاں مسلم شعراء نے رام، سیتا، کرشن، ہولی، دیوالی کا ذکر کیا ہے وہیں غیر مسلم شعراء نے حمد و نعت بھی کہی ہیں۔
گذرتے زمانے کے ساتھ جب ہندی زبان کے اثرات اردو پر واضح ہونے لگے تو نعت گوئی پر بھی اُس کا اثر پڑا اور نعتوں میں ہندی کے دیومالائی اثرات شامل ہونے لگے۔ نعت میں حضورﷺ سے خطاب کے لئے نسائی لب و لہجہ، دیدارکا تصور،لفظ عشق کاازحداستعمال اسی کے باقیات ہیں یعنی کے ہندستان کے ہندو شعراء نے بھی بطور فن نعت گوئی کو اختیارکیا اورغیرمنقسم ہندستان سےبھارتی عدلیہ وانتظامیہ میں شامل رہے ادیب، شاعرنیزمعروف ناظم مشاعرہ مرحوم کنورمہندرسنگھ سحرؔ بیدی کا یہ شعر تو اتنا مقبول ومشہور ہوا کہ شاید اردوزبان میں یہ شعرصدیوں بھی اپنااثر اورتاثر قائم رکھ کر بیدی صاحب کو زندہ رکھ سکے،
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تونہیں
قوم مسلم کا محمدؐپہ اِجارہ تونہیں
نعت گوئی میں خواتین کاحصہ:نعتیہ شاعری میں جہاں مرد حضرات نےشعرای اسالیب میں اپنی عقیدت و محبت کے گل کھلائے، وہیں خواتین شاعرات نے بھی حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں اپنے پاکیزہ خیالات و احساسات کو نہایت وارفتگی سے بیان کیاجس کا سہراشاہ مدینہ کی والدہ ماجدہ جناب بی بی آمنہؓ کے سرہےجس وقت انھوںنے آپؐ کو حلیمہ سعدیہؓ کے سپرد کیا تو بے ساختہ ان کی زبان پر اشعار جاری ہوئے۔
اسی طرح جب ٓقائے مدنی کو صحابہ کرام آپ کی آکری آرام گاہ میں دائمی نیند سلاکر فارغ ہوئے تو صاحبزادی رسول حضرت فاطمۃ الزہ صلواۃ اللہ علیھا کی زبان مبارک پریہ اشعار آگئے،
صُبّت علیّ مصائبُٔ لّواَنّھا
صُبّت ْ علیٰ الایام صِرْنَ لیالیا
ترجمہ: مجھ پر مصیبتوںکا جوپہاڑ ٹوٹاہے ،اگریہ زمانے کے روشن دنوںپرٹوٹ پڑے تو وہ بھی غم کی مارسے سیاہ پڑجائیں۔
اسی طرح بعض نعتیہ اشعارام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی طرف بھی منسوب ہیں۔
البتہ موجو ہ دور کی مشہورنعت گو شاعرات میں جن کے نعتیہ مجموعےمعرض وجودمیں ہیںاس کی اولیں صف میں اختر محل اختر‘ زاہدہ خاتون شیروانیہ‘ انوری بیگم‘ انیسہ ہارون شیروانی‘ سیدہ سردار بیگم اختر‘ مبارزالنساء‘ سردار انوری بیگم‘ خورشید آرا بیگم‘ قمر جہاں‘ مخفی بدایونی‘ محجوب سیتاپوری‘ نورالصباح نور‘ ادا جعفری‘ پروین شاکر‘ شاہدہ حسن‘ شہناز نور‘ فاطمہ حسن‘ گلنار آفریں‘ وضاحت نسیم‘ رضیہ سبحان‘ شاہدہ لطیف اور عہد ِحاضر کی دیگر شاعرات شامل ہیں۔ ان میں سے چند اہم شاعرات کے نعتیہ اشعار درج ذیل ہیں:
میں اور بارگاہِ رسالت پناہ کی

اے دل کہیں نہ ہو یہ غلطی نگاہ کی
(زاہدہ خاتون شیروانیہ)

حکم یزداں سے ملا، اذنِ پیمبرؐ سے ملا

مجھ کو مدحت کا ہنر میرے مقدر سے ملا
(شاہدہ حسن)

روضے پہ ترے نور کی چادر سی تنی ہے

کیا گلبدنی‘ گلبدنی‘ گلبدنی ہے
(عطیہ خلیل عرب)

لفظ ستارے بن کر اتریں، نعت رقم ہو جائے

مجھ پر میرے آقا کا اک بار کرم ہو جائے
(وضاحت نسیم)

قدم رنجا ہوئے جب احمدِ مرسلؐ دنیا میں

ہوئے بت سرنگوں کعبہ میں اک تازہ بہار آئی
(سکندر حیا بریلوی )

سلام اس ذاتِ اقدس پر مدینہ جس کا مسکن ہے

سلام اس پر کریں جبرئیل جس کے در کی دربانی
(عائشہ امۃ اللہ تسنیم )

میں کروں ثنائے احمد ہوا غیب سے اشارہ

نہ قلم میں تاب و طاقت نہ زبان کو ہے یارا
(مسرت جہاں نوری)

ؐجلالِ حُسنِ رسالت ماب دیکھا ہے

حرا نے نورِ خدا بے حساب دیکھا ہے

(پروین جاوید)

زمانے کے جور و ستم دیکھتے ہیں

محمدؐ کے لطف و کرم دیکھتے ہیں
(نصرت عبدالرشید)
خموشیوں میں سلیقے صدا کے رکھتے ہیں

ان آنسوئوں میں قرینے دعا کے رکھتے ہیں
(نورین طلعت عروبہ)

سورج تھا میرے ساتھ نہ ہمراہ ستارے

میں آگے بڑھی اسمِ محمدؐ کے سہارے
(حمیرا راحت)۔

بہرحال مرد حضرات کی طرح خواتین کی نعتیہ شاعری کاباب بھی بہت عریض وطویل ہے جس کااحاطہ میرے جیسے طالب علم کے لئے توواقعی کسی گوہ گراہ کی منتقلی سے بالکل کم نہیں ۔
لہٰذامیں بغیرکسی طویل گفتگوکے آپ کے سامنے صاحب کلام ہمشیرہ محترمہ مسماۃ ریحانہ عاطف ؔ کے کلام سے ان کی ایک نعت شریف پیش کرتا ہوں۔
دولت مہر و وفا سوزش طاعت پائی

ہم نے درثے میں محمدؐ کی محبت پائی

میرے آ قاکی بدولت ہی بہ عنوان وفا

محفلِ ارض و سماوات نے زینت پائی

خوش نصیبی ہے ہماری جو ہمارے دل نے

الفت سید کونین کی دولت پائی

آپ کے اسوہ ٔحسنہ پہ ہوا جو عامل

دین و دنیا میں اسی شخص نے عزت پائی

وہ تو دربار رسالت ہے فقط دنیا میں

صنفِ نازک نے جہاں چادر عصمت پائی

گلشن جاں میں بہر وقت، بہر پل میں نے

گیسوئے صاحب والّیل کی نکہت پائی

گمراہی میں جو بھٹکتے تھے انھوں نے آقا!

آپ کی چشم عنایت سے ہدایت پائی

اسوۂ ختم رسل کا یہ ہے صدقہ عاطفؔ

تونے جذبات میںاپنے جو صداقت پائی –

(ریحانه عاطفؔ)
واقعی ریحانہ نے اپنے خون جگرمیں انگلیاںڈبوکر آفتاب کونین، رسالت ماٰ ب ﷺ کی صنفِ نعت لکھنے کا شرف حاصل کیا، میری دعاہے موصوفہ کی اس کاوش کو عوام وخواص کے علاوہ دربارعالی میںبھی شرف قبولیت حاصل ہو کہ یہی ریحانہ عاطف کا زندگی کاماحصل ٹھہرا۔
ایک امیدوارشفاعت: راحتؔ
مدیراعلیٰ’ سہ ماہی دعوت وتبلیغ، دہلی
جنرل سکریٹری مولاناآزادایجوکیشنل اینڈ میٖڈیکل آرگنائزیشن (رجسٹرڈ) دہلی
30 شوال الکرم 1242
12 جون2021

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close