اسلامیات

شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم

تحریر: یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند

شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم

شریعت اسلامی میں تین چیزیں ہیں: (۱) مسائل: یعنی عمل و عبادت کا طریقہ (۲) فضائل: یعنی اس کے کرنے کا اخروی فائدہ اور ثواب (۳)اسراروحکم: یعنی فطرت انسانی کے تقاضے کے مطابق ملحوظ حکمتیں اور کسی قدر دنیاوی فائدے۔
مسائل کی حیثیت بنیادی ہے، ان کا جاننا سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر انسان کوئی عمل اورعبادت نہیں کرسکتا۔ فضائل ثانوی چیز ہیں، ان کے جاننے سے عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے۔اور اسراروحکم معلوم ہوجانے سے ذوق و شوق میں اضافہ اورثواب کی امید یقین میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
شریعت اسلامیہ کے ہر حکم اور ہر عمل میں یہ تینوں امتیازات وخصوصیات پائی جاتی ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے آئیے دیکھتے ہیں کہ شب قدر میں یہ تینوں خصوصیات کس طرح پائی جاتی ہیں۔
شب قدر کے مسائل
اس رات کوتلاش کرنا، رات بھر ذکرو اذکار میں مشغول رہنا،بتائے گئے امکانی اوقات: رمضان کے آخری عشرے کے طاق راتوں میں اسے ڈھونڈھنا؛ شب قدر کے مسائل کی باتیں ہیں۔ اس رات کے لیے کوئی مخصوص عمل نہیں ہے، اپنے ذوق وشوق کے پیش نظر، نفلی نمازیں، تلاوت کلام پاک اور تسبیحات وغیرہ میں سے جو آپ پڑھنا چاہیں، وہ پڑھ سکتے ہیں۔
شب قدر کے فضائل
اس کی فضیلت کلام پاک کی آیتوں اور احادیث مبارکہ دونوں سے ثابت ہیں۔ کلام پاک میں ایک جگہ تیسویں پارہ میں مکمل ایک سورت:سورہ القدر موجود ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ حضرت جبرئیل فرشتوں کی جماعت کے جلو میں دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ اس رات کو فرشتے ہر امر خیر کو لے کر زمین پر آتے ہیں۔ یہ رات سراپا سلامتی ہوتی ہے، اس میں شیطان کوئی شرارت نہیں کرپاتا اور پوری رات خیروسلامتی کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ دوسری جگہ پچیسویں پارہ میں سورہ الدخان کی چوتھی آیت ہے۔اس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ طے کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس رات سے اگلے سال کی اس رات تک جتنے بھی معاملات ہیں، ان تمام کا فیصلہ اسی رات کو کیا جاتا ہے۔ کون مرے گا، کس کی موت نہیں آئے گی، کس کی شادی ہوگی، کس کے یہاں اولاد ہوگی، کس کو کتنا رزق ملے گااور ان جیسے تمام تقدیرات کے فیصلے کی یہ رات ہوتی ہے۔ المختصرفضیلت میں قرآن کریم کا اترنا، فرشتوں کا نزول، حضرت جبرئیل کی آمد، عبادت گذار کے لیے دعائے رحمت، پوری رات خیرو سلامتی کا برقرار رہنااورہر انسان کے پورے سال کی تمام چیزوں کا فیصلہ ہونا شامل ہیں۔
متعدد احادیث میں اس کی رات کی فضیلتیں بیان گئی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری، باب فضل من قام رمضان)ترجمہ: جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ یعنی ثواب کا یقین کرتے ہوئے اور احتساب یعنی ریا وغیرہ کسی بد نیتی کے بغیر عبادت کرے گا، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے: عن انس ؓ قال دخل رمضان، فقال رسول اللہ ﷺ ان ھذا الشھر قد حضرکم و فیہ لیلۃ خیر من الف شھر، من حرمھا، فقد حرم الخیر کلہ، ولا یحرم خیرھا الا محروم (سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی فضل شھر رمضان)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا، تو حضورؐ نے فرمایا کہ تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا۔ اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا؛مگر وہ شخص جو حقیقۃ محروم ہی ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی ایک حدیثیں ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
شب قدر کے اسرار و وحکم
اس رات کے اسرار وحکم میں کئی باتیں شامل ہیں: ایک تو یہ کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے۔ دوسری یہ کہ ایک ہی رات میں تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب کیوں مل جاتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ شب قدر کی ضرورت کیا تھی؟۔ ان باتوں کی وضاحت کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے مقررکردہ بارہ مہینے میں سے رمضان میں کچھ ایسی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو غیر رمضان میں نہیں ہوتیں۔ وہ تبدیلیاں تین طرح کی ہوتی ہیں:
(۱) تکوینی نظام میں تبدیلیاں
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی کائنات کے نظام کا جو سسٹم ہے، اس میں قدرت الٰہی تھوڑی بہت تبدیلی کردیتی ہے۔ پوری تبدیلی نہیں کرتی، مثلا عام دنوں کا تکوینی نظام یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوتا ہے، تو رمضان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو جزوی تغیر ہوتا ہے، وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے، جس کا اشارہ درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے۔ نبی اکرؐم فرماتے ہیں کہ:
اذا دخل شھر رمضان، غلقت ابواب جھنم، و فتحت ابواب الرحمۃ، و سلسلت الشیاطین (مسند عبد بن حمید، باب اذا دخل)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔ رحمت و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رمضان میں ہوتی ہے۔ دوسرے مہینوں میں ایسا نہیں کیا جاتا؛لیکن لیلۃ القدر میں اس تکوینی نظام میں مزید تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو کچھ درج ذیل ہیں:(الف) یہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے۔(ب) نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ زیادہ سرد، معتدل رہتی ہے۔ (ج) اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔(د) اس صبح کا آفتاب شعاع کی تیزی کے بغیر چودھویں چاند کی طرح نکلتا ہے۔ (ہ) عبدۃ ابن لبابہ ؓ کہتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔(و) ایوب بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی۔ میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔ (ز) آسمان تھوڑا بہت ابر آلود ہوتا ہے۔ درخت وغیرہ جھکے جھکے سے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی سجدہ زیری کی کوشش کر رہا ہو۔(ک) حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک جماعت لے کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ (ل) پوری رات عام راتوں کے بالمقابل شیاطین کی ضرر رسانی سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔
(۲) اعمال کے ثواب میں
کئی گنا کا اضافہ
رمضان میں تیسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اعمال کا ثواب عام دنوں کے مقابلے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ:کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالھا الیٰ سبع ماءۃ ضعف، الا الصوم، فانہ لی و انا اجزی بہ، یدعو شھوتہ و طعامہ من اجلی (مسلم، باب فضل الصیام)
انسان کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیاجاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔ (آگے حدیث قدسی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ)مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ددں گا، کیوں کہ اس نے کھانا پینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا۔ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کی عبادتوں کا اجر باقی گیارہ مہینے کی عبادتوں سے ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ گویا ثواب ملنے کا نظام یہ ہے کہ بندہ ایک نیکی کرتا ہے، تو اللہ اس پر دس گنا ثواب لکھتے ہیں۔ اور دس ہی تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ رمضان کی وجہ سے اس سے بڑھا کر ستر اور ستر سے بھی اضافہ کرکے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔لیکن روزہ کی جزا اس سے بھی زیادہ ہے۔
(۳) روز مرہ کی عبادات اور معمولات میں تبدیلیاں
عبادات میں تبدیلیاں: (الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ (ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔ (ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔ (د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
معمولات میں تبدیلیاں:(الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔(ب) بطور خاص رمضان میں فحش باتوں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔(ج) افطاری کی جاتی ہے۔(د) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔
فضائل کی باتوں کو پیش نظر رکھیں، تو یہ بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے؛ کیوں کہ جس رات میں قرآن کریم کا نزول اجلال ہواہو، جس رات میں فرشتے جوق در جوق زمین پر اتریں، جو رات سراپا خیرو سلامتی والی ہواور جس رات میں انسان کے تمام تقدیرات کے فیصلے کیے جائیں، اگر وہ رات ایک خاص رات ہوتی ہے، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ایسا ہونا خود انسانی فطرت کے مقتضیات میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ جب اس کی زندگی کی کوئی تقریب ہوتی ہے تو وہ اس وقت کو خاص بنانے اور اس کو سلیبریٹ کرنے کے لیے عام دنوں سے کچھ الگ کرنا چاہتا ہے، تو بھلا بتائیے جس رات میں انسان کے ایک سال کی زندگی کا فیصلہ ہورہا ہو تو کیا اس رات کو دیگر راتوں سے بالکل الگ اور خاص نہیں ہوناچاہیے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو اور راتوں سے ممتاز اور الگ رات بنائی ہے۔ اور جہاں تک یہ بات ہے کہ اس ایک رات کی عبادت سے تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کرنے کا ثواب کیوں مل جاتا ہے۔ تواس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رمضان اور شب قدر کی رات میں تکوینی نظام میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں، ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ان لمحات میں کیے جانے اعمال کے اثرات اور نتیجے بھی الگ ہوں؛ ورنہ تکوینات میں تبدیلی بے معنی ہوجائے گی، اس لیے صرف اس ایک رات کی عبادتوں کا ثواب ہزار مہینے سے متجاوز ہوجاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ انعام اس لیے مرحمت فرمایا؛ کیوں کہ یا تو (الف) سابقہ امتوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں اور امت محمدیہ کی بہت تھوڑی، اس لیے ان کے بدلے امت مسلمہ کو یہ فضیلت بھری رات عطا کی گئی۔یا پھر (ب)ایک مرتبہ نبی اکرمؐ نے بنی اسرائیل کے چار افراد: حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل اور حضرت یوشع کے اسی اسی سال تک عبادت کرنے اور پل جھپکنے کے برابر بھی نافرنانی نہ کرنے کا تذکرہ کیا، تو صحابہ کوحیرت ہوئی، اس پر اللہ نے یہ رات عنایت فرمائی۔یا پھر اس وجہ سے کہ (ج)بنی اسرائیل کا ایک شخص ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا، اس تذکرہ سے صحابہ کو رشک آیا اور یہ رات عطا ہوئی۔المختصر سبب جو بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس بے نہایت انعام کی قدر کرنی چاہیے۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شب قدر پالینے اور عبادت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین۔qq

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close