مضامین

فلسطین اور جمعیت علمائے ہند

محمد یاسین جہازی

فلسطین اور جمعیت علمائے ہند
پوری دنیا کے مسلمانوں کا فلسطین سے مضبوط رشتے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (۱) انسانیت۔ (۲) وحدت امت۔ (۳) قبلہئ اول۔
ظلم و بربریت پوری دنیائے انسانیت پر کہیں بھی ہو، ہماری نگاہ میں وہ قابل مذمت و نفریں ہے۔ فلسطینی باشندگان یہودیوں کی چیرہ دستیوں کی اسیر ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و خوں آشام فطرت کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں، اس لیے ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے پنجے کو مروڑ کر رکھ دیں۔ اگر ہم اپنے اندر اس جذبے کو محسوس نہیں کرتے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم زندہ قوم نہیں ہیں۔
اسلام وحدت امت کی تعلیم دیتا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر دنیا کے آخری کونے پر بسنے والے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا بھی چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے پر بسنے والے مسلم فرد کے دل میں اس کی چبھن محسوس ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا دل اس درد کی لذت سے نا آشنا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مردہ قوم ہیں۔ زندگی ہمارے اوپر لعنت بھیج چکی ہے۔
ہمارا قبلہئ اول مسجد اقصیٰ ہے اوریہاں کی سرزمین انبیائے کرام کے ورود بامسعود سے زعفران زار رہی ہے، اس لیے اس جگہ سے محبت ہمارا وفور ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مسلم شخص اس جذبے سے محروم ہے، تو یقین مانیے کہ اسے اپنے آپ کو زندہ سمجھنے کا حق نہیں ہے۔
ہندستانی اور فلسطینی
یہی وجہ ہے کہ ہندستان کے غیور اور حساس مسلمانوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے درد کو ہمیشہ اپنا درد سمجھا اور یہودیوں کے ظلم و بربریت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ذیل کی سطور میں اسی حوالے سے ہندستانی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی جماعت: جمعیت علمائے ہند کے کردار کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لیے عالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت ”حکومت اسلامیہ“ اور اس کا خلیفہ”خلیفۃ المسلمین“تھا۔ پہلی جنگ عظیم (28/ جولائی 1914ء، 11/ نومبر 1918ء) میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ جنگ میں ترکی کے شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا، تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا؛ اس لیے بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج (David Lioyd George) سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی۔ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے، ترکی حکومت کے کئی حصے کردیے۔چنانچہ 10/ اگست 1919ء کو ترکی اور دول متحدہ کے درمیان معاہدہ سیورے ہوا، جس کی رو سے فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔برطانیہ کی اس حرکت نے بھارتی مسلمانوں میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑا دی، جس کے لیے تحریک خلافت کا یہ اجلاس”آل انڈیا خلافت کانفرنس“ کے نام سے بروز اتوار، 23/ نومبر1919ء کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہوا، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسالک و مشارب کے علمائے کرام نے شرکت کی۔اسی اجلاس کے بعد بعد نماز عشا کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں سبھی مسلک و مشرب کے علما نے ”جمعیت علمائے ہند کی داغ بیل ڈالی۔
اس کا پہلا اجلاس عام 28،31 /1919ء اور یکم جنوری 1920ء کو ہوا، جس میں جمعیت علمائے ہند نے جنگ عظیم اول کے لیے صلح و امن کی شرائط طے کرنے کے لیے منعقد ’پیرس امن کانفرنس“ (از18/ جنوری 1919ئتا 21/ جنوری 1920ء) میں مسلم نمائندوں کو بھیجنے کافیصلہ کرتے ہوئے درج ذیل تجویز پاس کی، جس میں کہا گیا کہ
جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ملک معظم سے استدعا کرتا ہے کہ خلافت و مسائل متعلقہ ٹرکی کا تصفیہ کرنے کے لیے مسٹر لائڈ جارج کے ہمراہ صاحب وزیر ہند،و مسلم نمائندے مسٹر اصفہانی و مسٹر بھرگری، مشیر حسین صاحب قدوائی لازمی طور پر صلح کا نفرنس میں بھیجے جائیں؛ ورنہ ہم کو اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات مذکورہ کا فیصلہ مسلمانوں کے متفقہ مذہبی مطالبات کے خلاف ہوجائے اور ملک معظم کی کروڑوں رعایائے ہند کی سخت بے چینی کا باعث ہو۔(جمعیت علمائے ہند کی تاریخ تجاویز اور فیصلوں کی روشنی میں، جلد اول، ص/75)
بعد ازاں 19،20،21/ نومبر1921ء کو جمعیت کا تیسرا سالانہ اجلاس ہوا، جس میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے اپنے تقریری صدارتی خطاب میں فرمایا کہ:
دوسری اہم چیز ہمارے سامنے فلسطین کی وہ سرزمین ہے، جس کی تحریم ہمارے لیے ویسی ہی ضروری ہے جب تک کہ اس کا ایک چپہ بھی غیر مسلم اثر میں باقی ہے، اس وقت تک محال ہے کہ ہمارے واسطے کسی صلح یا مفاہمت کا دروازہ کھل سکے۔ میں اس وقت اُن دفعات کی تشریح نہ کروں گا، جو خلیفۃ المسلمین پر بصورت شرائط عائد کیے گئے، یا خلافت کے اُن حقوق پر، جس وقت تک ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی باقی ہے، اس وقت تک مسلمانان ہند کے لیے محال قطعی ہے کہ وہ صلح کا، اتفاق کا کوئی ہاتھ بھی اس گورنمنٹ کی طرف بڑھا سکیں۔
جمعیت کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس:22/ مارچ1922ء کو ہوا، جس میں تجویز نمبر تین میں سلطنت عثمانیہ کے متعلق اپنے مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے ضمن (ب) میں مطالبہ کیا کہ
(ب) سلطنت عثمانیہ کے ان حصوں کو -جہاں عربی زبان بولی جاتی ہے، مثلاً فلسطین، شام، عراق، عرب، حجاز، نجد، یمن وغیرہ کو- بغیر کسی غیر مسلم حکومت کے ادنیٰ دخل و اثر کے خلیفۃ المسلمین سلطان ٹرکی کے زیر اقتدار اندرونی آزادی دے دی جائے۔
اسی دور میں مصطفیٰ کمال پاشا خلافت کے تحفظ کے لیے ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے، جنھیں جمعیت نے ”مجدد خلافت“ کا خطاب دیا اور ان کے تعاون کے لیے سمرنا(Smyrna) اور انگورہ (Ankara) فنڈقائم کیا گیا تھا۔ جس میں جمعیت علمائے ہند نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس حوالے سے پیغام کلکتہ کی رپورٹ کے مطابق جملہ ہندستانیوں کی طرف سے دس لاکھ سے زائد کا تعاون پیش کیا گیا۔
”غالبا اس وقت تک دس لاکھ روپیہ فراہم ہوگیا ہے۔ پہلے آخر دسمبر تک کا زمانہ قرار پایا تھا، اب بہتر ہوگا کہ ایک ماہ کی مدت اور بڑھا دی جائے اور جنوری کے آخر تک فراہمی کا سلسلہ جاری رہے۔“ (پیغام کلکتہ، 16/ دسمبر 1921، ص/7۔ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/298)
جمعیت علمائے ہند کا پانچواں اجلاس عام 29/دسمبر1923ء کوہوا،جس میں صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام ؒ نے فرمایا کہ
چوں کہ حدود جزیرۃ العرب میں حجاز، یمن، تھامہ، عمان، حضر موت، نجد، عراق، شام، فلسطین عنیزہ وغیرہ سب داخل ہیں، اس لیے شہر عدن، پیرم، باب المندب، جدہ وغیرہ سب اس حکم میں داخل ہوں گے اور سبھوں کے لیے کوشش کرنا ضروری ہوگا کہ غیر مسلم اقتدار وہاں باقی نہ رہے۔
برطانوی انتداب کی تنسیخ کا مطالبہ
برطانوی انتداب یعنی برطانوی فرمان نامہ جسے 6/جولائی 1921ء کو اقوام متحدہ نے تیار کیا تھا اور 24جولائی 1922کو پاس کرکے 19/ستمبر 1922ء کو نافذ العمل کردیا تھا۔ یہ ایک ایسا فرمان تھا، جس کے ذریعہ جنگ عظیم اول اورسلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اور معاہدہ سیورے کے مطابق فلسطین کے لیے برطانیہ اور فرانس کے ذریعہ طے کردہ سرحدوں پر برطانیہ کو حکمرانی کا موقع ملا۔ اس فرمان میں 28آرٹیکلز تھے۔ دوسرے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ
”یہ فرمان اس ملک کے سیاسی، انتظامی اور معاشی حالات کے لیے ذمہ دار ہوگااور یہ یہودی قومی گھر کے قیام کی ضمانت دیتا ہے۔“ (www.marefa.orالانتداب البریطانی علیٰ فلسطین)
اس فرمان کے سہارے یہودیوں نے فلسطین کو اپنا قومی ملک بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے، حتیٰ کہ ظلم و جبر سے بھی کام لیا اور متعدد بار قتل وغارت کی۔ اگست 1929ء میں فلسطین کے کئی مقامات پر حملے کیے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ (الجمعیۃ 5ستمبر1929ء) ان خوں چکاں حالات کے مد نظر مسلمانان فلسطین کی ہولناک مصیبتوں پر بھارت کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے 3/ستمبر 1929ء کو دہلی کے کمپنی باغ میں عظیم الشان اجلاس کیا، جس میں خطاب کرتے ہوئے صدر جمعیت علمائے ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ نے فلسطین کی آزادی اور اعلان بالفور کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ (الجمعیۃ5/ستمبر1929ء)۔
بعد ازاں جمعیت کی مجلس مرکزیہ کا ایک اجلاس:26 و 28/ اکتوبر 1929ء کوہوا، جس میں اس فرمان کی منسوخی کا مطالبہ دہرایا۔
”جمعیت علمائے ہند کی مجلس مرکزیہ کا یہ اجلاس فلسطین پر برطانیہ کے انتداب کو احکام اسلام اور حرم محترم کے تقدس اور اہل فلسطین کی فطری آزادی کے منافی سمجھتا ہے اور جمعیت الامم (لیگ آف نیشنز) اور برطانیہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فورا اعلان بالفور کی منسوخی اور انتداب ہٹالینے کا صاف اور غیر مشتبہ الفاظ میں اعلان کردے۔ جلسہ کو یقین ہے کہ فلسطین کے گذشتہ خونی واقعات صہیونی تحریک اور اعلان بالفور اور قوت انتداب کی یہود نواز پالیسی کے اندوہ ناک نتائج ہیں۔ اور ان کا واحد سبب یہودیوں کا وہ غاصبانہ و ظالمانہ رویہ ہی ہے، جو انھوں نے قدیم الایام کے دستور کے خلاف اختیار کیا ہے اور برطانیہ کے افسروں نے ان کے جو رو اعتدا کی عملی ہمت افزائی کی ہے۔“
اگست 1929ء میں ہوئے تشددانہ واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک برطانوی کمیشن بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن نے مظلوموں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فلسطینیوں کو سفاک کہا اور اس صہیونی کھیل کے صدر ڈاکٹر ریڈر نے قیام امن کا فارمولہ پیش کرتے ہوئے علی الاعلان یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
”فلسطین میں صرف ایک قومی وطن ہوسکتا ہے اور وہ یہودیوں کا ہوگا، جس میں عربوں کو برابر کا شریک نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ وہ یہودیوں سے مغلوب ہوکر ان کے ماتحت رہیں گے۔“ (الجمعیۃ 20/ستمبر1929ء)
ان حالات کو دیکھتے ہوئے31/ مارچ و یکم اپریل 1931ء کو منعقد اپنے دسویں اجلاس عام میں جمعیت نے یہ اعلان کیا کہ
جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ فلسطین میں برطانیہ کی یہودنواز پالیسی کی پرزورمذمت کرتا ہے۔فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانا اور عربوں کے حقوق و جاگیرات پر قبضہ دلانا فلسطین کے امن کو تباہ کرتا ہے۔ فلسطین کی حکومت کا نظام فلسطین کے باشندوں کی مرضی کے مطابق کرنا قیامِ امن کے لیے ضروری ہے۔
وفد فلسطین جمعیت دفتر میں
جمعیت کے پلیٹ فارم سے ہندستانیوں کی خدمات کے اعتراف میں 25/جون 1933ء کے آس پاس کی تاریخو ں میں وفد فلسطین کے محترم ارکان نے کئی بار جمعیت علمائے ہند میں تشریف لاکر اس کے صدر و ناظم اعلیٰ صاحبان کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی اسلامی یونی ور سیٹی اور یہودیوں کے جارحانہ اقدامات پر تبادلہئ خیال کیا۔ اور لائحہئ عمل طے کیے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: الجمعیۃ28/جون1933ء)
برطانیہ کے مسلسل تعاون کی وجہ سے فلسطینیوں پر یہودیوں کی چیرہ دستیاں بڑھتی جارہی تھیں، انھیں حالات میں جمعیت علمائے ہند دہلی کا سالانہ اجلاس 27,28,29،مارچ 1936ء کو ہوا، جس میں برطانیہ کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے اسے امن و امان کے لیے سم قاتل قرار دیا۔تجویز میں کہا گیا کہ
اجلاس کی رائے میں حکومت برطانیہ کا یہ فعل کہ وہ فسلطین میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر بسا رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد کو نہایت خطرناک حد تک پہنچا چکی ہے۔ اور باوجود مسلسل احتجاج کے اپنی اس پالیسی پر قائم ہے نہ صرف فلسطین اور جزیرۃ العرب کے امن و امان کو تباہ و برباد کرنے والا ہے؛ بلکہ تمام دنیائے اسلام میں اس طرز عمل سے برطانیہ کے خلاف سخت جذبات غلیظ وغضب پیدا ہورہے ہیں اور اگر یہ حکمت عملی جلد تبدیل نہ کی گئی، تو اس کے نتائج سخت مہلک ثابت ہوں گے۔
تقسیم فلسطین کے متعلق مفتی اعظم کا بیان
جمعیت کی مسلسل کوششوں کے باوجود فلسطین کی تقسیم کی بات کہی گئی، جس کے لیے مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ نے درج ذیل بیان دیا:
”فلسطین کمیشن کی سفارشات اہل فسلطین کے نزدیک ہی ناقابل قبول نہیں؛ بلکہ ہر مہذب اور منصف انسان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا اور مذموم سمجھتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کی ظالمانہ اسکیم کی منظوری نے برطانیہ کی استعمار پسند یہود نوازی اور وعدہ شکنی کے خفیہ منصوبوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔ یہ تقسیم سیاسی اور اقتصادی جہت سے تمام باشندگان فلسطین کے لیے عموما اور مذہبی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے نا قابل تسلیم ہے۔
مسلمانان فلسطین اپنے خون کا آخری قطرہ بہادیں گے، مگر اس تقسیم کو قبول نہ کریں گے۔ اور مسلمانان عالم کی تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوں گی۔ یہ تقسیم صرف اعراب فلسطین کے لیے نہیں؛ بلکہ مسلمانان روئے زمین کی مذہبی غیرت اور انسانی شرافت و حمیت کے لیے کھلا چیلنج ہے اور اگر اس اسکیم کی تنفیذ پر اصرار کیا گیا، تو امن عالم کی تباہی اور بربادی کا عالم سوز منظر دنیا کے سامنے آجائے گا اور اس کی تمام تر ذمہداری برطانیہ پر عائد ہوگی۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی۔“ (الجمعیۃ یکم اگست 1937ء)
مجلس تحفظ فلسطین کا قیام
فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے حوالے سے ہندستانی مسلمانوں کی کوشش برابر جاری رہی، چنانچہ اس کے تحت 29تا 31/اکتوبر1937ء کو میرٹھ میں آل انڈیا فلسطین کانفرنس کی مجلس عمل کا اجلاس کیا گیا۔ جس میں ایک تجویز پاس کرکے درج ذیل تین فیصلے لیے گئے:
(۱) برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ۔
(۲) دربار تاجپوشی کا بائیکاٹ۔
(۳) آئندہ عالم گیر جنگ میں برطانیہ کی ہرقسم کی امدادبند کردیا جائے۔
اور ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے مجلس تحفظ فلسطین بنائی گئی،جس کے بینر تلے جمعیت نے پوری قوت کے ساتھ فلسطین کے مسئلہ کو اٹھایا۔
تحریک سول نافرمانی کا اعلان
3/ اگست 1938ء کو مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا، جس میں یہ طے کیا گیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے مظالم کی روک تھام اور فلسطینوں کے تعاون کے لیے ملک گیر سطح پر سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے اور اس کے لیے قریہ قریہ فلسطین کمیٹی بنانے کی اپیل کی گئی، تاکہ عالم اسلام کو ہندستانی مسلمانوں کے جذبات و نظریات سے آگاہ کیا جائے۔
قاہرہ کانفرنس میں شرکت
فلسطین کے مسائل کو حل کرنے کے مقصد سے7/تا 11/اکتوبر 1938ء کو قاہرہ میں دنیائے اسلام کے نمائندوں پر مشتمل عظیم الشان کانفرنس(موتمر) کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں موتمر کے دائمی صاحب المعالی علویہ پاشا کی دعوت پرجمعیت علمائے ہندنے بھی شرکت کی اور ہندستانی مسلمانوں کے نقطہئ نظر سے موتمر کو آگاہ کیا۔ لیکن مصر کے وزیر اعظم محمود پاشا اور وفد پارٹی کے لیڈر نحاس پاشا کی عدم دل چسپی کی وجہ سے کانفرنس مایوس کن نتیجے پر اختتام پذیر ہوئی؛ اس کے باوجود جمعیت نے اپنی کوشش نہیں چھوڑی اور رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں 7/ نومبر سے 15نومبر تک ہفتہئ فلسطین مناکر فلسطینیوں کی حمایت و نصرت جاری رکھی۔ اسی طرحگیارھویں اجلاس عام منعقدہ 3،4،5 / مارچ 1939ء کو فلسطین کے مسائل کو اٹھاتے ہوئے تجویز نمبر اٹھائیس میں وہاں جاری ظلم و تشدد کی مذمت کی اور فلسطینیوں کو اپنی آزاد ریاست قائم کرنے دینے کا مطالبہ کیا۔
فلسطینیوں کی امداد رسی
تحریکی و نظریاتی جدوجہد کے علاوہ جمعیت نے فلسطینیوں کی مالی امداد کا فریضہ بھی انجام دیا۔ چنانچہ 22/مارچ 1939ء کو مفتی اعظم حضرت مولانا محمد کفایت اللہ صاحبؒ صدر جمعیت علمائے ہند کے نام دمشق سے ایک تار موصول ہوا کہ ”مصیبت زدہ فلسطینی بہت زیادہ حاجت مند ہیں۔برائے کرم حتیٰ الامکان روپیہ فراہم کیجیے اور بحری تار کے ذریعہ بھیجیے۔ ……المعظمی پریسیڈنٹ فلسطین ڈیفینس کمیٹی دمشق۔“ (الجمعیۃ یکم اپریل 1939ء)
چنانچہ مجلس تحفظ فلسطین کی جانب سے ۱۱/ مئی کو پہلی قسط میں دو سو تیس روپے اور دوسری قسط میں دو سو پچاس روپے مظلومین فلسطین کی امداد کے لیے بھیجی گئی۔ (الجمعیۃ 16مئی 1939)
امریکی صدر کی پالیسی کی مذمت
5/ اپریل 1945ء کو امریکی صدر روزویلٹ (Franklin Roosevelt)نے سعودی فرما روا عبد اللہ ابن عبد الرحمان فیصل السعود کو خط لکھ کر اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ایک پیرا گراف میں لکھا کہ
آپ کویاد ہوگا کہ فلسطین کے متعلق امریکی حکومت کی جو پالیسی تھی، وہی پالیسی آج بھی برقرار ہے۔
19/ ستمبر1945ء کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں جمعیت نے امریکی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے یہ تجویز پاس کی کہ
لہٰذا جمعیت مرکزیہ علمائے ہند تمام اتحادی زعماسے عموماً اور دنیائے مسیحیت کے سرداروں سے خصوصاً درخواست کرتی ہے کہ عالم انسانی کو تباہی و مصیبت میں دوبارہ ڈالنے سے احتراز کریں اور ارض مقدس فلسطین کو وطن الیہود بنانے کا خیال ترک کردیں اور اہل فلسطین کو سکون اور عافیت سے زندگی بسر کرنے دیں۔
بعد ازاں 9/ اکتوبر1945کو جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی جانب سے فلسطین کے متعلق ایک بحری تار مسٹر ایٹلی،ٹرومین، وزیر اعظم فلسطین اور عرب فیڈریشن کے نام بھیجا گیا، جس میں جمعیت کے مطالبات سے آگاہ کیا گیا تھا۔
فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی مخالفت
ان دنوں فلسطینیوں اوریہودیوں میں خوں ریز تصادم جاری تھا اورلیڈران قیام امن کی کوششیں کر رہے تھے، اسی بیچ امریکی تحقیقاتی مشن نے اس کا حل پیش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بسادیا جائے، تاکہ زمین کے حصول کے لیے لڑائی ختم ہوجائے۔ اسی طرح اس رپورٹ میں فلسطین کو تقسیم کرنے کی بات بھی کہی گئی۔
10-11-12/ جون 1946ء کو منعقد مجلس عاملہ نے جمعیت نے پھر یہی اعلان دہرایا کہ فلسطین کو وطن الیہود کسی بھی صورت میں نہیں بنایا جاسکتا۔
لکھنو کانفرنس میں تقسیم فلسطین کی مذمت
تقسیم وطن کے بعد خاک و خون کی طوفانی لہروں نے مسلمانان ہند کی چولیں ہلاکر رکھ دی تھیں۔ عوام تو کجا اہل دانش و بصیرت بھی حالات کی سنگینی سے حیران و پشیماں تھے؛ ایسی مہیب فضا میں ”آزاد کانفرنس لکھنو“ نے ایک امید کی چنگاری روشن کی، جس نے مسلمانوں کو حالات سے گھبرانے کے بجائے مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخشا اور ہجرت کے نام پر لرزتے پھلستے قدم کو سنبھالا دیا۔ یہ کانفرنس28،29/دسمبر 1947ء کو جمعیت سمیت مختلف ملی جماعتوں کی مشترکہ کوشش کا مظہر جمیل تھی۔اس کانفرنسمیں بھی فلسطین پر تجویز کے حولے سے امام الہند مولانا آزادؒ نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ بہت دنوں سے زیر بحث ہے۔ ادارہ متحدہ اقوام میں ہندستانی نمائندوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ انڈین یونین عربوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور فلسطین کو ناقابل تقسیم سمجھتی ہے۔
قیام اسرائیل کی مخالفت
جمعیت علمائے ہند اور ہندستانی مسلمانوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود 29 نومبر، 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کے پلان کو منظوری دے دی اور 14 /مئی، 1948ء کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے ملک کے قیام کا اعلان کیا۔29/ مئی 1948ء کو حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ صدر جمعیت علمائے ہند نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ فلسطین کی یہ تقسیم سراسر ظلم ونا انصافی پر مبنی ہے؛ کیوں کہ مذہبی خطوط پر تقسیم ہونے والا ملک مدتوں جنگ و خوں ریزی میں مبتلا رہنے پر مجبور ہوگا۔
حضرت شیخ الاسلامؒ کی یہ پیش قیاسی آج بھی صداقت کا کھلا عنوان ہے۔ جس طرح ہندستان اور پاکستان کی مذہبی تقسیم، علاوہ ازیں مسئلہئ کشمیر ایک لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے، اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ آج عقلیں حیران ہوگئی ہیں؛ لیکن عقدہ ہے کہ کھلتا ہی نہیں۔
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
آزادی کے بعد
جمعیت علمائے ہند نے فلسطین اور اس کے تحفظ کے لیے یہ ساری کوششیں اس وقت کیں، جب کہ ہندستان خود غلام تھا، آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور ہر موقع پر اسرائیل کے ظلم و بربریت کی مذمت اور فلسطین کی حمایت و نصرت کی۔24/ جولائی 1967ء کو جمعیت نے ماؤلنکر ہال نئی دہلی میں عرب تعاون اجتماع کے عنوان سے ایک پروگرام کیا، جس میں ایک لاکھ ایک ہزار روپے فلسطین کو پیش کیا۔ بعد ازاں 28/ جولائی 1967ء کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور ایک میمورنڈم بھی پیش کیا۔فلسطینی مسائل و حالات پر گہری نظر رکھنے کے لیے 11/ اگست 1967ء کو آل انڈیا فلسطین کمیٹی تشکیل دی اور باقاعدہ ”عرب فنڈ“ قائم کیا۔پھر 24/ ستمبر 1967ء کو جمعیت نے دوبارہ ایک لاکھ پچاسی ہزار روپے کا تعاون پیش کیا۔
جب صہیونی جارحیت سے مغربی ایشیا میں صورت حال زیادہ تشویش ناک ہوگئی، تو عرب کاز کی حمایت کے لیے جمعیت علمائے ہند نے 25/ نومبر1973ء کو”عرب کنونشن“ بلایا، جس میں جہاں ایک طرف فلسطین سے متعلق حکومت ہند کی پالیسی کی حمایت کی، وہیں دوسری طرف بعض فرقہ پرست عناصر کی طرف سے اسرائیلی مسئلے کو مذہبی رنگ دینے کی مذمت کی بھی مذمت کی۔
فلسطین، اہل فلسطین اور قبلہئ اول کے تحفظ کے حوالے سے روز اول سے تا دم تحریرجمعیت علمائے ہند کی خدمات کا ایک تسلسل ہے، جس کا احاطہ سردست ممکن نہیں ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ کسی اور موقعے پر سال بہ سال جمعیت کی خدمات کا تذکرہ کرکے اس تحریر کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سردست صرف اس حوالے پر تحریر کو مکمل کی جارہی ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے رام لیلا میدان میں 12/ فروری 2023ء کو جمعیت کا چونتیسواں اجلاس عام منعقد ہوا، اس میں بھی فلسطین کے مسئلے کو اٹھاتے ہوئے ایک تجویز میں چند مطالبات کیے گئے۔ تجویز کا متن درج ذیل ہے:
فلسطین اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز
جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس عام مسجد اقصیٰ اور یروشلم پر اپنے حتمی تسلط کے مقصد سے اسرائیلی حکومت کی جابرانہ کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی حالیہ قرار داد کو امید کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غیر قانونی ’طویل قبضے‘ اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج پر عالمی عدالت انصاف سے رائے مانگی گئی ہے۔اس قرارداد میں اسرائیل کے یروشلم کے آبادیاتی ڈھانچے، کرداراورحیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے اور امتیازی قوانین اپنانے کی بات بھی کی گئی ہے۔
جمعیت علما ئے ہند کا یہ اجلاس بین الاقوامی برادریوں کے ان مثبت اقدامات کے مدنظر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ:
(۱) اَقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکے مطابق اسرائیل کو غزہ کی 15 سالہ پرانی ناکہ بندی ختم کرنے اور کراسنگ پوائنٹس کھولنے پر مجبور کیا جائے۔
(۲) مسجد اقصیٰ پر صرف مسلمانوں کا حق ہے، اس لیے اس کو یہودی تسلط اور قبضے سے آزاد کیا جائے۔
(۳) ایک آزاد خو د مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔
(۴) ہندستان نے ہمیشہ اور ہر فورم پر فلسطینیوں کی جد وجہد اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے۔موجودہ حکومت نے بھی اس کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے، جو قابل ستائش ہے، لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات ملک کی عدم تشدد کی عظیم روایات کے منافی ہیں، اس لیے اسے ختم کرنا ہی بہتر ہوگا۔
(۵) جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس فلسطین کے علاوہ عالم اسلام کے دیگر ممالک؛ بالخصوص شام، یمن و لیبیا کی صورتِ حال پر بھی اپنے دکھ اور قلق کا اظہار کرتا ہے اور وہاں کے حکمرانوں اورعوام کو باہمی افتراق و جدال ترک کرکے ہوش مندی اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ذریعہ اپنا مسئلہ حل کرنے پر متوجہ کرتا ہے۔
(۶) مسلمانوں سے پرخلوص اپیل کرتا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی دینی و تاریخی اہمیت کے پیش نظر حج و عمرہ کے موقع پر یا مستقل طو پر اس کی زیارت کریں۔
(۸) یہ اجلاس عام عالم عرب کے بعض حصوں میں ابراہمک مذہب کے نام پر پیدا کردہ فتنہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ سبھی گزشتہ و موجودہ مذاہب سماوی کا ایک ہی نام ہے اوروہ اسلام ہے۔جو لوگ باہمی رواداری کے نام پر ایسا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ درحقیقت رواداری کے حقیقی مقصد اور معنی سے غافل ہیں۔
روز قدس کی اہمیت
سب سے پہلے جمہوریہ ایران کے پہلے وزیر خارجہ ابراہیم یزدی نے ہر سال ایک صیہونی مخالف دن منانے کی تجویز ایرانی انقلاب کے رہنما روح اللہ خمینی کے سامنے پیش کی تھی۔ اس وقت اسرائیل اور لبنان میں سخت کشیدگی جاری تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان یہی تناؤ اس تجویز کا باعث تھا۔ خمینی کو یزدی کی یہ تجویز پسند آئی اور 7/ اگست 1979ء میں انھوں نے اعلان کر دیا کہ ہر سال رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو یوم القدس منایا جائے گا اور اس دن دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کے مظالم کے خلاف اور فلسطینوں کے حق میں احتجاج اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔ نیز روح اللہ خمینی نے یہ بھی اعلان کیا کہ یروشلم کی آزادی تمام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس دن انھوں نے اعلان کیا کہ میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اوریک جہتی کا مظاہرہ کریں۔
ہمیں ملت مسلمہ کے بیدار شعور اور ”روز قدس“ کی تحریکات سے پیدا شدہ یہودی ظلم و بربریت کے خلاف ایمانی جذبات سے قوی امید ہے کہ بہت جلد اسرائیل کا ناجائز وجود صفحہئ ہستی سے نابود ہوجائے گا،ان شاء اللہ تعالیٰ؛ کیوں کہ ؎
ظلم تو ظلم ہے، بڑھتا ہے، تو مٹ جاتا ہے(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close