جمعیت علماء هند

ماونٹ بیٹن کا تقسیم ہند کا پلان اور جمعیت علمائے ہند قسط (5)

محمد یاسین جہازی

صدر جمعیت کا تاریخی خطاب
15/ مئی 1947: لکھنو۔ 10/ مئی۔ مولانا حسین احمد مدنی نے جمعیت علمائے ہند کی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اپنی پیرووں پر یہ زور دیا کہ انگریز جون 1948تک ہندستان سے نہ گئے تو انھیں نکالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آپ نے مزید کہا کہ انگریزوں کو جون 1948سے پہلے ہی بوریا بستر گول کرلینا چاہیے، کیوں کہ ہندستان میں ان کا قیام شرارت کا باعث ہوگا۔ ہمیں انگریزوں کی رحم دلی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر جون 1948سے پہلے چرچل پارٹی بر سر اقتدار آگئی، تو پھر یہ وعدے ختم ہوجائیں گے۔ فرقہ وارانہ اتحاد پر زور دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: غدر 1857میں ہندووں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ آزادی کے لیے خون بہایا تھا۔ اب آزاد ہند فوج ہندو مسلم اتحاد کی شان دار مثال ہے۔ جو لوگ ”اسلام خطرے میں“ کا نعرا لگاتے ہیں،تو وہ اسلام کے دشمن ہیں۔“ (روزنامہ زمزم،لاہور، 15مئی 1947۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/404)
تقسیم ہند کے پلان کی منظوری
جمعیت علمائے ہند اور دیگر بڑے بڑے لیڈروں کی انتھک کوششوں کے باوجودمسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور نہیں کیا، جس کے نتیجے میں ماونٹ بیٹن،تقسیم ہند کے پلان پر فریقین کی منظوری حاصل کرنے کے بعد برطانوی حکومت سے منظوری حاصل کرنے کے لیے 18مئی 1947کو لندن روانہ ہوگئے۔ اور وہاں سے منظوری لے کر لوٹے۔
”31/ مئی 1947: لارڈ ماونٹ بیٹن وزیر اعظم برطانیہ سے تقسیم ہند کے پلان کی منظوری لے کر لوٹ آئے۔ انھوں نے ہندستانی زعما کو اپنی اپنی تجاویز سے اس شرط کے ساتھ مطلع کیا ہے کہ جب تک وہ اپنی اپنی پارٹیوں سے اس پلان کی منظوری حاصل نہ کرلیں، اس وقت تک وہ صیغہ راز میں رہیں گی۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/413)
تقسیم ہند کے پلان پر ہندستانی زعما کی منظوری
ماؤنٹ بیٹن نے ۲/ جون 1947کو کانگریس، مسلم لیگ اور سکھوں کے لیڈروں کی ایک میٹنگ کی۔ کانگریس کی طرف سے پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، جے بی کرپلانی۔ مسلم لیگ کی طرف سے محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں، سردار عبد الرب نشتر۔ اور سکھ کی طرف سے سردار بلدیو سنگھ نے نمائندگی کی۔ اس میٹنگ میں بیٹن نے تقسیم ہند کے پلان کو منظور کرلینے پر بحث و گفتگو کی۔ پھر اگلے دن 3/ جون 1947کو ان سبھی نمائندگان کو صبح دس بجے وائسرائیگل لاج نئی دہلی میں مدعو کیا اور ”تقسیم کے انتظامی مسائل“ کے عنوان کا 34صفحات مشتمل ایک دستاویز دیتے ہوئے اسے منظور کرلینے کے لیے کہا۔ لمبی بحث و گفتگو کے بعد ہر شخص نے اسے منظور کرلیا۔ تقسیم پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے بعد ماونٹ بیٹن نے فورا ذاتی تبصرہ لکھا کہ
”اس مجنونانہ فیصلے کی ذمہ داری دنیا کی نگاہوں میں پورے طور پر ہندستانیوں پر ڈالی جانی چاہیے۔ ایک دن وہ اس فیصلے پر جو وہ عن قریب لینے والے ہیں، خود کف افسوس ملیں گے۔“ (ہندستان اپنے حصار میں، ص/29۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/435)
مسلم لیگ کونسل کی تجویز کی منظوری
ماونٹ بیٹن کے ساتھ میٹنگ میں تقسیمی پلان منظور کرلینے کے بعد اسے باقاعدہ منظوری دینے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے 9-10/ جون 1947کو ایک اجلاس کیا۔ اجلاس میں تجویز پاس کرتے ہوئے کہا گیا کہ
”آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس بحث و مباحثہ اور غوروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ملک معظم کی حکومت کے اعلان نامہ ۳/ جون 1947میں ہندستان کے عوام کو انتقال اقتدار کا جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اطمینان بخش ہے اور کونسل اس پر مطمئن ہے کہ کابینہ مشن منصوبہ 16/ مئی 1946پر پیش رفت نہیں ہوسکتی؛ لہذا اسے ترک کیا جاتا ہے۔ ہندستان کی تقسیم ہی واحد حل رہ جاتا ہے، جسے ملک معظم کی حکومت نے ۳ جون کے منصوبے میں تجویز کردیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی رائے ہے کہ ہندستان کو درپیش مسائل کا حل ہندستان دو حصوں: پاکستان اور ہندستان میں تقسیم کرنا ہے۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/447)
کانگریس کی تجویز کی منظوری
آل انڈیا کانگریس نے 14-15/ جون 1947کو کانسٹی ٹیوشن ہاوس نئی دہلی میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس کیا اور ۳/ جون کے تقسیمی پلان کو منظوری دیتے ہوئے ایک تجویز پاس کی، جس کا ضروری حصہ درج ذیل ہے:
”آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے پوری توجہ کے ساتھ ان واقعات کی رفتار پر غور کیا ہے، جو اس کے گذشتہ جنوری کے اجلاس سے اب تک رونما ہوئے۔ اور خاص طور پر ان اعلانات پر جو برطانوی حکومت کی طرف سے 20/ فروری 1947اور ۳/ جون 1947کو کیے گئے۔ یہ کمیٹی ان ریزولیشنوں کی تائید و تصدیق کرتی ہے، جو ورکنگ کمیٹی نے اس دوران پاس کیے ہیں۔ …… ۳/ جون 1947کی تجویزوں سے اس ملک کے چند حصوں کے ہندستان سے الگ ہونے کا امکان ہے۔ خواہ یہ امر کتنا ہی قابل افسوس ہو، اے آئی سی سی موجودہ حالات میں اس امکان کو منظوری کرتی ہے۔“ (تیج مورخہ16/ جون 1947۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری جلد چہارم، ص/462)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close