اہم خبریں

سر پر بالوں کی افزائش کے لیے سرجری(ٹرانسپلانٹ) جائز، مگر انسان و خنزیر کا بال نہیں

تین اہم عنوانات پر منعقد ادارہ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا سولہواں فقہی اجتماع اختتام پذیر

اجتماع میں مولانا قاری محمدعثمان منصورپوری نے علماء کو اکابر کی کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دی، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جو صورتیں جائز نہیں،مفتیان کرام ان کا متبادل بھی امت کے سامنے پیش کریں*

نئی دہلی:19/مارچ :موجودہ دور میں سروس کنٹریکٹ کی بہت ساری شکلیں وجود میں آئی ہیں، اس کے علاوہ تجارتوں میں شرکت و مضاربت اور حسن و زینت کے دور میں سرپر بالوں کی افزائش و زیبائش کے کئی طریقے مارکیٹ میں موجود ہیں، ایسے میں ان تمام جدید مسائل میں امت مسلمہ کی شرعی ر ہ نمائی کے لیے بمقام مدنی ہال صدر دفتر جمعیۃ علماء ہند ’ادارہ المباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند‘کا تین روزہ سولہواں فقہی اجتماع چھ نشستوں میں منعقد ہوا۔ اس اہم اجتماع کی صدارت بالتربیت مولانا سید ارشد مدنی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند،مولانا نعمت اللہ اعظمی محدث دارالعلو م دیوبند،مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند،مولانا رحمت اللہ کشمیری رکن مجلس شوری دارالعلوم دیوبنداور مولانا ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند جیسی شخصیات نے فرمائی جس میں پورے ملک میں پائے جانے والے مشہور دارالافتا اور مدارس کے ممتاز علماء اور مفتیان کرام شریک ہوئے۔

اس اجتماع میں طویل مناقشہ کے بعد تینوں عنوانات کے لیے الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور تیارہ کردہ تجویز کو اجتماع میں منظور کرایاگیا۔

چنانچہ تجویز (۱) میں عقود الصیانۃ (سروس کنٹریکٹ) کی آٹھ شکلوں کی تنقیح کی گئی اور کہا گیا کہ عقد صیانت (سروس کنٹریکٹ) ایک جدید عقد ہے،جو شرعی تطبیق کے اعتبار سے عقد اجارہ کے قریب تر ہے،لہذا اس پرحسب شرائط اجارہ کے احکام جاری ہوں گے۔او راحتیاط اس میں ہے کہ کنٹریکٹر متعینہ مدت میں کم از کم ایک مرتبہ نگرانی کے عمل کا التزام کرے اور مکان کی کرایہ داری میں مرمت کے معاہدہ کے بارے میں ایک تجویز میں کہا گیا کہ مرمت اور اصلاح کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے۔ اسے کرایہ دار پر لازم نہیں کیا جاسکتا۔تاہم وہ دونوں اپنی رضامندی سے بھی آپسی ذمہ دار یاں طے کرسکتے ہیں۔اسی طرح جس عقد صیانت میں صائن مختلف آلات (مثلا کمپیوٹروغیرہ)کے پروگراموں کوایک متعینہ مدت کے اندرتجدید(اپڈیٹ) کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے تو یہ بھی اجارہ کی ایک شکل ہے اور جائز ہے۔

شرکت و مضاربت کی بعض قابل تنقیح شکلوں پر منظور کردہ تجویز میں کہا گیا کہ حلال طریقے سے مال کمانا شرعامطلوب ہے؛ اسی لیے شریعت مقدسہ میں مختلف عقود اور معاملات کی جازت دی گئی ہے، جن میں ایک عقد شرکت بھی ہے۔جس میں مختلف صلاحیتوں والے افراد آپس میں مل کر محنت کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے کاروبار سے فائدہ اٹھاتا ہے، اس طرح کے عقود میں دیانت وامانت اور باہمی اعتماد کوجزو لازم کی حیثیت حاصل ہے؛ اسی لیے قرآن وسنت میں ایسے عقود میں ہر طرح کی خیانت اور فریب دہی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے،لہذا جب بھی متعدد افراد مشترکہ طور پر کاروبار کا ارادہ کریں تو انھیں چاہیے کہ وہ شرعی اصول وضوابط کی روشنی میں شرکت کا باقاعدہ معاہدہ کریں اور بہتر ہے کہ یہ معاہدہ تحریر ی ہو، اس کے بعد ہی اس سلسلہ میں پیش قدمی کی جائے اور سبھی شرکاء طے شدہ معاہدہ کی پابندی کریں۔مناسب ہے کہ حسی طور پر مشترک نقد سرمایہ یا مشترک اکاؤنٹ میں رقم جمع کر کے ہی شرکت کا کاروبار انجام دیا جائے۔اگر کسی وجہ سے مشترکہ اکاؤنٹ کے ذریعہ کاروبا ر کرنا دشوار ہو، تو شرکاء کے الگ الگ اکاؤنٹ سے حسب معاہدہ رقم نکال کر بھی شرکت کا معاملہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ ہر شریک تصرف میں دوسرے کا وکیل ہوتا ہے۔اسی ضمن میں بعض مروجہ صورتوں کو ناجائز بھی قرار دیا گیا ہے، نیز مشترکہ کاروبار میں کسی شریک کے علیحدہ ہونے کے متعلق بھی رہ نمائی کی گئی ہے۔

*سرپر بالوں کی افزائش اور پیوندکاری کی بعض صورتوں* کے شرعی حکم سے متعلق تجویز میں صاف لفظوں میں کہا گیا کہ انسان کے لیے سر پر بالوں کاوجودزینت اور جمال کے اسباب میں سے ہے، اور اس سے محرومی عیب ہے؛ لہذااگر کسی کے سرپر بال نہ رہیں تو ازالہ عیب کے لیے بالوں کی افزائش کی مباح تدبیریں اختیار کرنا جائز ہے اور سر پر بالوں کی افزائش کے لیے بذریعہ سرجری(ٹرانسپلانٹ) یا کسی اورطریقے سے دوسرے انسان اور خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور کے بالوں کو مستقل یا عارضی طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ ایک اور تجویز میں کہا گیا ہے کہ اگر سر پر بال اس طرح سے جمادئے جائیں کہ وہ بآسانی اس سے جدا نہ ہوسکیں تووہ مستقل طور پر سر کاحصہ قرار پائیں گے اور ان پر وضو میں مسح کرنا اور غسل میں پانی بہانا کافی ہوگا؛لیکن اگر اس طرح سر پر بال لگائے جائیں کہ انھیں بآسانی الگ کیا جاسکتا ہو تووہ ٹوپی کے حکم میں ہوں گے، انھیں ہٹائے بغیر مسح یاغسل درست نہ ہوگا۔اور اس حکم میں مردو عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اور موجودہ فیشن کے مطابق رنگ برنگے بے ہنگم بال رکھنے کی حوصلہ شکنی کی گئی بالخصوص اگر سر کے بعض حصے کو استرے سے مونڈ کر بقیہ بالوں کو چھوڑ دیا جائے تو یہ بلا شبہ ناجائز ہے۔

اس کے علاوہ ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہندکی روح رواں مولانا معزالدین احمد رحمہ اللہ پر تجویز تعزیت منظور کی گئی او رکہا گیا کہ یہ اجتماع ان کی بے لوث اوربے مثال خدمات کے اعتراف کے ساتھ انھیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے، نیز مغفرت و رفع درجات کی دعا کرتے ہوئے ذمہ داران جمعیۃ علماء ہند اور مولانا مرحوم کے پس ماندگان کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے۔

اجتماع میں کئی اہم علماء نے عصرحاضر کے تقاضوں اور فتنہ ارتداد جیسے سلگتے عنوانات پر بھی مفتیان کرام کو متوجہ کیا۔اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مفتیان کرام کا کام صرف کسی جدید مسئلے کے سلسلے میں شرعی رہ نمائی نہیں ہے بلکہ وہ صورتیں جو جائز نہیں ہیں ان کا متبادل بھی امت کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے، نیز ایسی مجلسوں میں نوجوان مفتیان کرام کو بطور تدریب شامل کیا جائے تو مستقبل میں اکابر کے خلا کو پر کرنا آسان ہو گا۔

امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند نے صلاح دی کہ اہل علم حضرت مولانا سید علی میاں ندوی ؒ کی تاریخ دعوت و عزیمت کا مطالعہ کریں، اس کتاب سے ہمیں پتہ چلے گا کہ موجودہ ارتداد کے حالات میں ہمیں کس طرح کے عزم واستقلال کی ضرورت ہے۔ اپنے تحریری پیغام میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی نے کورونا جیسی ہلاکت خیز بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس اجتماع میں اپنی شرکت سے محرومی پر معذرت خواہی پیش کی اور موجودہ حالات میں مکاتب کا نظام اور اسلامی اسکولوں کے قیام کو ضروری بتایا، انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ارتداد کی اعلانیہ اور منظم کوشش ہو رہی ہے جس کی مثال آزادی سے پہلے کی شدھی تحریک کے علاوہ ہندستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، اس کے علاوہ جدید نسل میں الحا دکی وباء پھیل رہی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اکابر علماء ان دونوں حالات کے تدارک کے لیے ماضی طرح میدان عمل میں آئیں۔

ان کے علاوہ مولانا عتیق احمد بستوی، مولانا رحمت اللہ کشمیری، مولانامفتی محمد سلمان منصورپوری، مفتی زین الاسلام مفتی جنید پالن پوری، مفتی نذیر کشمیری، مفتی احمد دیولہ، مفتی شیبر احمد، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مفتی اختر امام عادل، مفتی محمد عثمان گرینی جون پور، مولانا راشد اعظمی دارالعلوم دیوبند وغیرہ نے بھی اپنے تاثرات و خیالا ت پیش کیے۔ ان نشستوں کی نظامت مفتی محمد عفان منصورپوری، مفتی عبدالرزاق نے فرمائی۔تلاوت قاری محمد فاروق، مفتی محمد عفان اور نعت قاری احمد عبداللہ نے پیش کیے۔اس موقع پر شرکاء کی خدمت میں متعدد قیمتی کتابیں ہدیہ میں پیش کی گئیں، مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب کی دعاء پر اجتماع کا اختتام ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close