اسلامیات

عقیدہ نمبر 39۔ فیض حاصل کرنا

مولانا ثمیر الدین قاسمی، مانچیسٹر، انگلینڈ

مولانا ثمیر الدین قاسمی، مانچیسٹر، انگلینڈاکتساب فیض، یعنی کسی سے فیض حاصل کرنا، اس دور میں ایک الجھا ہوا مسئلہ بن گیا ہے
اس عقیدے کے بارے میں 3 آیتیں اور 4 حدیثیں ہیں، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں۔
فیض حاصل کرنے کی دو صورتیں
]۱[ زندوں سے فیض حاصل کرنا
]۲[ مردوں سے فیض حاصل کرنا
زندوں سے کون سا فیض حاصل ہوتا ہے
استاذ، یا پیر میں یہ 3 صفات ہوں تو اس سے فیض حاصل ہوتا ہے
]۱[ پہلی صفت یہ ہے کہ۔استاذ یا پیر مخلص ہوں ان کا ایک ہی مقصد ہو کہ لوگوں کی اصلاح کرنی ہے، اور ان کو دین پر لانا ہے اور اس معاملے میں لگن کے ساتھ کام کرے ، پیسہ کمانے کے لئے پیری مریدی نہ کرتا ہو، ان کا مقصد یہ نہ ہو کہ اکتساب فیض کے نام پر پورے سال کا خرچ جمع کر لیا جائے، اور ساری فیملی کا خرچ حاصل کر لیا جائے، یا خانقاہ کے نام پر اپنا گھر بنا لیا جائے اگر اس مقصد سے پیری مریدی کرتا ہے تو ان سے کوئی اکتساب فیض نہیں ہوگا
]۲[ استاذ یا پیر، خود بھی شریعت کا پابند ہوں، اگر وہ خود ہی فرض نماز نہیں پڑھتا ہے، روزہ نہیں رکھتا ہے تو آپ کو وہ کیا فیض دے گا، اسکے پاس تو خود بھی کچھ نہیں ہے
]۳[ ان میں ریا اور نمود نہ ہو، وہ یہ کام شہرت اور دکھلاوے کے لئے نہ کرتا ہو۔ کیونکہ اگر وہ ٹیلی ویزن پر، اور یو ٹیوب۔you tube پرآنے کے لئے یہ کر رہا ہے تو یہ شہرت کے لئے ہے، اس میں کیافیض حاصل ہو گا
یا ان کا مقصداپنی فیملی کے لئے خرچ جمع کرنا ہو تو آپ کو کیا فائدہ ہو گا
اس لئے پیر کا انتخاب سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر کیا کریں، میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے
قرآن پاک میں چار قسم کے فیض کا ذکر ہے
]۱[ پیر صاحب مریدوں کے سامنے قرآن پڑھتے ہیں اور ان کا قرآن درست کرواتے ہیں ،
]۲[ انکو قرآن کا معنی سکھلاتے ہیں،
]۳[ قرآن میں جو حکمت ہے، یعنی حلال و حرام کے جو احکامات ہیں ان کو سکھاتے ہیں
]۴[ ، اور دل کا تزکیہ کرتے ہیں یعنی شرک وغیرہ سے بچا نے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے لئے یہ آتیں ہیں
1۔ربنا و ابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم ئایاتک و یعلمہم الکتاب و الحکمۃ و یزکیھم انک انت العزیز الحکیم۔ (آیت ۹۲۱، سورت البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ آئے ہمارے رب ان میں ایک ایسا رسول بھیج جو انہیں میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب کی تعلیم دے، اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے، صرف تیری ہی ذات ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل ہے
اس آیت میں ہے کہ حضورؐ چار کام کے لئے مبعوث ہوئے
2۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ئایاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔ (آیت ۴۶۱، سورت آل عمران ۳)
ترجمہ۔ یقینا اللہ نے مومنو پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے،اور انہیں کتاب کی تعلیم دے، اور حکمت کی تعلیم دے، جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
3۔کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون۔ (آیت ۱۵۱، سور البقرۃ ۲)
ترجمہ۔ جیسے ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا تھا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے ہو۔
آن آیتوں سے پتہ چلا کہ استاذ یا پیر مخلص ہو ں تو ان سے یہ چار قسم کے فیض حاصل ہوتے ہیں
]۱[ پیر صاحب مریدوں کے سامنے قرآن پڑھتے ہیں اور ان کا قرآن درست کرواتے ہیں ،
]۲[ انکو قرآن کا معنی سکھلاتے ہیں،
]۳[ قرآن میں جو حکمت ہے، یعنی حلال و حرام کے جو احکامات ہیں ان کو سکھاتے ہیں
]۴[ ، اور دل کا تزکیہ کرتے ہیں یعنی شرک وغیرہ سے بچا نے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیر اچھا ہو اور مرید بھی لگن سے فیض حاصل کرے تو مریدوں کو یہ چار قسم کے فیض حاصل ہوتے ہیں، قرآن میں انہیں کا تذکرہ ہے
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پیر صاحب کوئی خاص معنوی چیز مرید کو دے دیتے ہیں، اور مرید اس کے حاصل کرنے کے لئے برسوں پیر کی خدمت کرتا رہتا ہے، لیکن حدیث اور آیت سے ایسا معلوم نہیں ہوتا، بلکہ وہی چار باتیں جو اوپر ذکر کی وہی حاصل ہوتی ہیں
یزکیکمکی تفسیر
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیر صاحب اپنے مرید کو کوئی معنوی چیز دے دیتے ہیں، اور وہ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے ہیں
کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون۔ (آیت ۱۵۱، سور البقرۃ ۲)
اس آیت میں، و یزکیکم،رسول تمہارا تزکیہ کرتے ہیں، سے استدلال کرتے ہیں
لیکن تفسیر ابن عباس سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں کوئی معنوی معنی دینا نہیں ہے بلکہ یزکیکم کا معنی یہ ہے کہ توحد سکھلا کر، زکوۃ دلوا کر اور صدقہ دلوا کر تم کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں
تفسیر ابن عباس میں،یزکیکم، کا ترجمہ کیا ہے] یطھرکم بالتوحید، و الذکاۃ، و الصدقۃ من الذنوب [
ترجمہ: تم کو توحید سکھلا کر، زکوۃ دلوا کر، اور صدقہ دلوا کر پاک کرتے ہیں
اس لئے کچھ لوگ جو، یزکیکم، کا معنی بتاتے ہیں کہ پیر صاحب دل کا تزکیہ کر دیتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کا معنی ہے کہ شریعت میں جو حلال، اور حرام کے احکامات ہیں پیر صاحب وہ بتاتے ہیں، جیسے استاد بتاتے ہیں
پیر صاحب خدا ترس ہو تو اس کا اثرزیادہ ہوتا ہے
پیر صاحب خدا ترس ہو، اور لگن سے کام کرے، اور مرید بھی لگن سے محنت کرے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے
اس کے لئے یہ حدیث ہے
1۔ان اسماء بنت یزید انہا سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: الا ینبأکم بخیارکم؟ قالوا بلی یا رسول اللہ قال خیارکم الذین اذا رؤوا ذکر اللہ عز و جل۔ (ابن ماجۃ شریف، کتاب الزہد، باب من لا یؤبہ لہ، ص ۱۰۶، نمبر ۹۱۱۴)
ترجمہ۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ؐ کو کہتے ہوئے سنا کہ، تم میں سے اچھے کون ہیں اس کی خبر دوں؟ لوگوں نے کہا، ہاں یا رسول اللہ!، آپؐ نے فرمایا، تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو دیکھو تو خدا یاد آجائے
اس حدیث میں ہے کہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے، وہ اچھے لوگ ہیں، اس لئے پیر ایسا اللہ والا ہو جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔
یہ چاروں فائدے اس وقت ہوں گے جب پیر صاحب زندہ ہوں، اور آپ ان سے بالمشافہ درس حاصل کریں۔لیکن کسی کا انتقال ہو گیا ہے تو وہ یہ فیض نہیں دے سکتے ہیں، کیونکہ مرنے کے بعد اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، حدیث میں یہی ہے، اس لئے اب وہ یہ فیض نہیں دے سکتا۔
قبروں اور مردوں سے کون سا فیض حاصل ہوتا ہے
بہت سے لوگ میت سے اور مزار سے بہت سے فیوض بتاتے ہیں، لیکن قرآن اور حدیث کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ
قبر پر جانے سے یہ 3 فیض حاصل ہوتے ہیں
]۱[ آخرت یاد آنے لگے
]۲[ دنیا سے دل اچاٹ ہونے لگے
]۳[ موت یاد آنے لگے ۔ یعنی یہ سوچنے لگے کہ جس طرح یہ بڑے لوگ دنیا سے چلے گئے، کچھ دنوں کے بعد مجھے بھی یہ سب چھوڑ کر جانا ہے، اس لئے دنیا کامال جمع کرکے کیا فائدہ ہو گا، یا اس کی شہرت حاصل کرکے کیا کروں گا
اگر قبرستان پر جانے کے بعد یہ تین باتیں پیدا ہوتی ہوں تو بہتر ہے، اور اگر قبر چمک دمک والی ہے، اور اس پر دنیا کی سارے کھیل تماشے ہیں، اور آخرت کی یاد آنے کے بجائے تفریح ہوتی ہو، دنیا کی آشائش ہوتی ہو،بلکہ مزار مال بٹورنے کا ذریعہ ہو، اور کھیل تماشے کا ذریعہ ہو تو یہ قبر کا فیض نہیں ہے بلکہ الٹا اس کانقصان ہے
ان احادیث میں قبر کی زیارت کے فوائد بتائے گئے ہیں
3۔ عن ابن مسعودان رسول اللہ ﷺ قال کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فانھاتزھد فی الدنیا و تذکر الآخرۃ۔ (ابن ماجۃ شریف، باب ما جاء فی زیارۃ القبور، ص ۳۲۲، نمبر ۱۷۵۱)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو قبر کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، اب اس کی زیارت کیا کرو، اس لئے کہ اس سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے، اور آخرت یاد آنے لگتی ہے
4۔عن ابی ہریرۃ قال زار النبی ﷺ قبر امہ فبکی و ابکی من حولہ فقال استأذنت ربی فی ان أستغفر لہا فلم یأذن لی، و استأذنت ربی ان ازور قبرہا فأذن لی، فزوروا القبور، فانہا تذکرکم الموت۔ (ابن ماجۃ شریف، باب ما جاء فی زیارۃ قبور المشرکین، ص ۴۲۲، نمبر۲۷۵۱)
ترجمہ۔ حضور ؐ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، خود بھی روئے اور اپنے قریب والوں کو بھی رلائے، پھر فرمایا کہ، میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے استغفار کی اجازت مانگی، تو مجھے اجازت نہیں ملی،اور اپنے رب سے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھ کو اجازت مل گئی، اس لئے قبر کی زیارت کیا کرو، اس لئے کہ اس سے تم کوموت یاد آنے لگے گی
ان احادیث میں تین فوائد ذکر کئے گئے ہیں
]۱[ دنیا میں زہد پیدا ہوجائے، یعنی قبر دیکھ کر دل دنیا سے اچاٹ ہونے لگے
]۲[ آخرت یاد آنے لگے
]۳ [ قبر دیکھ کر اپنی موت یاد آنے لگے، کہ مجھے بھی اسی قبر میں آنا ہے
یہ ہیں مزار پر جانے کے فیض
اگر قبر پر جانے سے یہ تین فائدے حاصل ہوتے ہوں تو بہتر ہے، لیکن اگر وہاں جانے سے آپ کی تفریح ہوتی ہے، دنیا میں خود جی لگتا ہے، اور آپ عیش کے لئے جاتے ہیں تو یہ قبر کا فیض نہیں ہے، یہ الٹا اثر ہے، اس لئے قبر کی زیارت کی رخصت نہیں ہے
لیکن کیا کیاجائے کچھ لوگوں نے پیسہ بٹورنے کے لئے اور اپنی شہرت کے لئے عجیب عجیب فیض کا ذکر کیا ہے، کہ ولیوں سے یوں فیض ہو گا، اور یہ حاجت پوری ہو جائے گی۔ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے
پیر صاحب آپ کوکوئی معنوی فیض دے دیں گے ایسا نہیں
بعض پیر حضرات یہ تأثر دیتے رہتے ہیں کہ میری خدمت کروگے تومیں تمہیں کوئی معنوی فیض دے دوں گا اور مرید اس کے حاصل کرنے کے لئے برسوں خدمت میں لگا رہتا ہے اور وہ اس حدیث سے استدلا کرتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہ معنوی چیز دینے کا واقعہ حدیث میں صرف ایک مرتبہ ہے جو معجزہ کے طور پر تھا، اس کے بعد پھر صادر نہیں ہوا۔۔حدیث یہ ہے
۔ عن ابی ہریرۃ ؓ…. و قال النبی ﷺ یوما لن یبسط احد منکم ثوبہ حتی اقضی مقالتی ھذہ ثم یجمعہ الی صدرہ فینسی من مقالتی شیئا ابدا، فبسطت نمرۃ لیس علی ثوب غیرہا، حتی قضی النبی ﷺ مقالتہ ثم جمعتہا الی صدری فوالذی بعثہ بالحق ما نسیت من مقالتہ تلک الی یومی ھذا۔ (بخاری شریف، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب ما جاء فی الغرس، ص۷۷۳، نمبر ۰۵۳۲)
ترجمہ۔ حضور پاک ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ،،کوئی اپنا کپڑا پھیلائے تاکہ اس میں اپنی کوئی بات کہہ دوں اور اس کو اپنے سے لگا لے تو کبھی وہ میری بات نہیں بھولے گا، پس میں نے اپنی ایک چادر پھیلا دی، میرے پاس اس کے علاوہ تھی بھی نہیں، حضور ﷺ نے اپنی بات اس میں کہی، پھر اس چادر کو اپنے سینے پر چپکا لیا، پس قسم اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، آپ کی کوئی بات ابھی تک نہیں بھولی۔
یہ حدیث معجزہ کے طور پر ہے، ہمیشہ یہ بات نہیں تھی، اسی لئے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو صرف ایک مرتبہ یہ مقالہ دیا اس کے بعد کسی کو دینے کا ذکر حدیث میں نہیں ہے
مستحب کام میں تشدد
اس دور میں یہ بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ایک چیز حدیث سے ثابت ہے، لیکن اس کام کو کبھی کبھار حضور ؐ نے کیا ہے، اس میں کسی کو بلایا بھی نہیں، بلکہ جو لوگ وہاں حاضر تھے انہوں نے ہی کر لیا
مثلا:صحابہ کرام کبھی کبھار مل گئے اور اس میں اللہ کا ذکر کر لیا، تو یہ حدیث سے ثابت ہے، اور اتنا سا کر لینا جائز ہے ، لیکن اب بعض جگہ دیکھا گیا ہے ] الحمد للہ سب جگہ یہ بات نہیں ہے[ کہ ذکر کے نام پر مہینوں سے اشتہار دیا جاتا ہے، لوگوں کو بلایا جاتا ہے، اس کے لئے خوب چندہ کیا جاتا ہے، اور بے پناہ خرچ کیا جاتا ہے، اور جھوم جھوم کر اس طرح ذکر یا جاتا ہے، کہ جیسے وہ ناچ رہے ہوں، اور یہ ناچ گانے کی محفل ہو۔ اور اس کو کچھ کہو تو وہ حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ کبھی کبھار تھا، اور اچانک تھا، اور آپ ذکر کے نام پر پورا ہنگامہ کر رہے ہیں، اور you tube یو ٹیوب پر اس کی تشہیر کر رہے ہیں
اور تحقیق کریں تو اندر خانے یہ محسوس ہوتا ہے کہ]، وہ بولتے تو یہی ہے کہ ہم ذکر کرتے ہیں، یا دین کی خدمت کر رہے ہیں [ لیکن اصل میں اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو یہ تین چیزیں چاہئے
]۱[ عوام کے اندر اپنی شہرت حاصل کرنا، تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام جمع ہوں
]۲[ عوام کے اندر اپنا رعب جمانا
]۳[ اور اس بہانے سے اتنا روپیہ اکٹھا کر لے کہ، اس سے پورے سال کا خرچ چلے
اس لئے ایسے بہت سے مستحبات سے بچنے کی ضرورت ہے، جس میں تداعی ہو، یعنی لوگوں کو بلا بلا کر جمع کیا ہو، کیونکہ در مختار میں لکھا ہے کہ مستحب کام کے لئے تداعی، یعنی لوگوں کو بلا بلا کر مستحب کام کرنا مکروہ ہے، اور شریعت ایسی تداعی سے منع کرتی ہے، اس لئے اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے
زیارت قبور میں، موت کے موقع پر، اور شادی کے موقع پر دیکھا گیا ہے کہ بعض کام بنیادی طور پر مستحب ہوتاہے، لیکن لوگ اس پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ وہ تداعی کے درجے میں آجاتا ہے،
بعض مرتبہ اس میں ریا و نمود ہوتا ہے، اور بعض مرتبہ تو ایسے رواج میں اتنا خرچ کرواتے ہیں کہ آدمی تنگ آجاتا ہے، اور بعض مرتبہ تو سودی قرض لیکر ان کاموں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے مستحب کام میں اتنا تشدد بالکل صحیح نہیں ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close