مضامین

حزب اللہ کاقیام

مفتی اخترامام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف ،سمستی پور

حزب اللہ کاقیام
مفکراسلام حضرت مولاناابوالمحاسن سیدمحمدسجادصاحبؒ کی سیاسی خدمات کاایک اہم باب حزب اللہ کاقیام بھی ہے۔
پس منظر
ہندوستان کےبدلےہوئےحالات میں گوکہ آپ ماضی کےتلخ تجربات کی روشنی میں آئینی جدوجہدپریقین رکھتے تھے،اوراسی کواس دورمیں وہ مسلمانوں کےلئےسلامتی کاراستہ تصور فرماتے تھے،چنانچہ آئین میں رہتے ہوئے امارت شرعیہ کاقیام ،جمعیۃ علماء کاقیام اورمسلم سیاسی پارٹی کی تاسیس آپ کےاسی نظریہ کےمظاہر ہیں ،لیکن اس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ ان کےاندرسےجہادکی اسپرٹ ختم ہوگئی تھی،وہ اصلاًایک انقلابی رہنماتھے،اورانقلاب میں جب جیسی ضرورت محسوس کرتے وہ حکمت عملی اختیارفرماتے تھے،ہندوستان کی مکمل آزادی اور مسلمانوں کاتحفظ ان کی سیاست کابنیادی نصب العین تھا،اور اس سےوہ کسی لمحے دستبردار نہیں ہوسکتے تھے،اور اس کےلئے جس طرح آئینی سیاست کی ضرورت پڑتی ہے،اسی طرح کبھی دفاعی سیاست کی بھی ضرورت ہوتی ہے،اوردفاع کےلئےافرادی قوت اورحربی صلاحیت بھی ضروری ہے،”حزب اللہ” کاقیام مولاناؒکی اسی دفاعی سیاست کاحصہ تھا،جس قوم کےپاس دفاعی صلاحیت نہیں ہوتی وہ کسی سےمصالحت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتی،اکثرطاقت والے کمزوروں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
ملک میں ہونےوالےمسلسل فسادات نےمولاناؒکی توجہ ادھر مبذول کرائی کہ مسلمانوں کے تحفظ اوران کی بنیادی خدمات کےلئےملک میں رضاکاروں کی ایک جماعت ضروری ہے،جس کی شاخیں ہرمسلم آبادی میں موجود ہوں،رضاکاروں کی اسی جماعت کانام "حزب اللہ”تھا۔
تاسیس اوردستورسازی
آپ کےکئی تذکرہ نگاروں نےحزب اللہ کاذکرکیاہے،لیکن اس کی پوری تفصیل دستیاب نہیں ہے،غالباًاس کاقیام ۹/ذی قعدہ ۱۳۴۱؁ھ مطابق ۲۳/جون ۱۹۲۳؁ء کوعمل میں آیا،جناب محمدیونس صاحب کوحضرت مولاناؒسےپہلی بار ملاقات کاشرف اسی حزب اللہ کےقیام کےسلسلےمیں حاصل ہواتھا،اورانہوں نےاس کاسن ۱۹۲۳؁ء لکھاہے ،حضرت مولاناؒنے پھلواری شریف میں اس کی میٹنگ بھی طلب فرمائی تھی ،اورباقاعدہ اس کےاصول ودستوربھی مرتب فرمائے تھے۔
اغراض واہداف
جناب یونس صاحب نے اپنے مضمون میں اس کےقیام ،مقاصد اورپس منظرپر روشنی ڈالی ہے،لکھتےہیں:
” حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے قومی کاموں کے سلسلہ میں میری پہلی
ملاقات ۱۹۲۳؁ء میں "حزب اللہ” کے قیام کے سلسلہ میں ہوئی۔ مولانا کا
یہ خیال تھا کہ ایسی حالت میں کہ ملک میں فتنہ انگیز نفوس کے ہاتھوں،
فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں جس سے مذہبی احکام وشعار کی بے حرمتی
اور توہین ہوتی ہے۔ ملک میں بدامنی بھی پھیلتی ہےاور اس کا نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ اگر ایک طرف مسلمان پریشان ہوتے ہیں۔ تو دوسری طرف
حکومت وقت ، نیز امن پسند غیرمسلم بھی اس کے اثرات سے قدرتاً
محفوظ نہیں رہتے ہیں ۔ اور نہ رہ سکتے ہیں۔اس لیے مقتضائے وقت اور
ضرورت کی آواز سے کانوں میں انگلیاں ڈالنااور اس کی طرف توجہ نہ کرنا
خطرناک نتائج کا موجب ہوگا،ضرورت کے ماتحت ملک کے حالات کی بنا پر
وقت کا یہ ضروری اور ناگزیر مسئلہ ہے کہ ایک جماعت رضاکاروں کی ”
حزب اللہ” کےنام سے ہرگاؤں اور تمام شہر وقصبات میں موجود رہے۔
جو ہرقسم کے فتنہ وفساد کا انسداد کرے۔ اور اس کے لیے وہ اپنی طرف
سے ہرطرح کی خدمات کو انجام دے۔ اور ملک کے امن کو ہر ایثار و
فدویت سے کام لے کر بحال وبرقرار رکھے۔
ہم جانتے ہیں، آج جب کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، اس دوربیں فقیر
صفت بزرگ کے اس نظریہ کو آج چوٹی کے لوگ عملاً برتنے پر مجبور
ہیں۔ اور مختلف نام سے اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں،مولانا مرحوم نے اس
سلسلہ میں "اُصول ودستور” بھی حزب اللہ کے وضع کیے تھے، اور ان
کا خیال تھا، کہ پوری تنظیم کے ساتھ بہارکے ہرہرگوشہ میں حزب اللہ کا
قیام ہوجائے۔ جہاں تک مجھ کو یاد ہے کہ اس کا قیام بھی ہوا۔ اور اس سے
اچھے نتائج بھی مرتب ہوئے۔ مگر مسلمانوں کے ہرکام کی طرح یہ بھی
ادھورا رہا۔ جس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ مولانا مرحوم کی ذات
ایک انار وصدبیمار کی مصداق تھی۔ وہ جس وقت تک ایک چیز کی تخلیق کر
کے، اس کی ابتدائی مبادیات کو درست کرکے عملی ڈھانچہ میں لاکر کھڑا
کرتے۔ زمانہ دوسری ضروری چیز ان کے سامنے اس طرح لاکر کھڑا کردیتا
۔ کہ وہ اس کی طرف توجہ کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ اور اس کی فکر میں لگ
جاتےاور کوئی دوسراایسا صحیح کارکن نہیں ہوتا،جو صحیح طور پر مولانا مرحوم
کے پہلے کام کو پھیلاتا۔ "حزب اللہ” کا بھی حشر یہی ہوا۔ ضرورت آج بھی
اس کی داعی ہے۔ کہ مولانا مرحوم کے وضع کردہ "دستور واصول” کے
ماتحت اس کی تمام تنظیم کی جائے ۔
بیعت جہاداورمجاہدانہ بےقراری
حضرت ابوالمحاسن ؒ کی یہ خدمت امارت شرعیہ کےتابع نہیں تھی ،بلکہ اس کی جڑیں قیام امارت کےقبل سے ملتی ہیں ،مولاناؒمیں یہ خیالات عرصہ سے پرورش پارہے تھے،اور غالباً اسی کاوہ حصہ ہے جس کوآپ کےکئی تذکرہ نگاروں نے نقل کیاہےکہ حضرت مولاناؒنے اپنے کئی خاص احباب سےبیعت جہادلی تھی اور آپ کوان حضرات نے اپناامیرتسلیم کیاتھا، جب کہ ابھی امارت کی تحریک بھی شروع نہیں ہوئی تھی،نہ جمعیۃ کاکوئی تصورتھا،اورنہ تحریک خلافت کاوجود،قاضی احمدحسین صاحب ؒنےاس دورمیں حضرت مولاناؒ کی بےقراری کاحال نقل کیاہےکہ :
"ابتداہی سےمولاناؒکی اسپرٹ مجاہدانہ تھی ،امارت شرعیہ کےقیام کا خیال
تو مولانا مرحوم کو بہت پہلے سے تھا ،لیکن حالات کی نا سازگاری نہ حرف
مطلب کو زبان تک لانے کی اجازت دیتی تھی ،نہ ماحول عمل کا متحمل تھا
، پھر بھی مجاہدانہ جذبہ مولاناؒ کو بے قرار رکھتا تھا ،چنانچہ جہاد کی بیعت
بعض خاص لوگوں سے مولاناؒ نے قیام امارت سے پہلے لی تھی ۔
ان خواص میں خانقاہ سملہ کےحضرات بھی شامل تھے ،خودخانقاہ کےسجادہ نشیں حضرت شاہ ابوطاہرفردوسی صاحب ؒ بیان فرماتے ہیں کہ:
"گیا میں جب مولاناؒ کا قیام رہا سملہ ہر عرس میں تشریف لایا کئے ،ایک
موقع پر جب کہ آپ کو یہ معلوم ہوا کہ یہاں ارکان اسلام کے ساتھ
جہاد پر بھی بیعت ہوتی ہے تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ بیعت کے ساتھ
اہتمام جہاد بھی کرنا چاہیئے ،میں نے عرض کیا تو آپ ہی امیر بنیں ،میں
امیر تسلیم کرتا ہوں ،اس گفتگو کے چند دن بعد میں چند احباب کے ساتھ
گیا مدرسہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے تو امیر تسلیم ہی کر لیا
ہے ،ہمارےیہ مخلص احباب بیعت جہاد کے لئے حاضر ہوئے ہیں ،
چنانچہ آپ نےان لوگوں سے بیعت جہاد لی، ان میں سے جن لفظوں
میں آپ نے بیعت لی ان کے ماثورہ الفاظ یہ ہیں ۔ بایعنا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ فی
العسر و الیسر والمنشط والمکرہ و ان لا انازع
الامراہلہ و ان نقول بالحق حیث کنا و لا نخاف
لو مۃ لائم۔
اس وقعہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد امارت کی تحریک شروع ہوئی اور
اللہ نے آپ کو نائب امیر شریعت بنایا ۔
حربی سیاست کارجحان
اس زمانہ میں حضرت مولاناؒپرحربی سیاست کےرجحان کاغلبہ تھا،اس کااندازہ قاضی احمدحسین صاحب کےاس بیان سےہوتاہے:
"وہ اس سلسلہ میں خفیہ انقلاب پسند جماعتوں کی بھی تائید کو جائز رکھتے
تھے ،جنگ عظیم کے زمانہ میں بنگال کی خفیہ سو سائیٹوں کے غبطہ میں مجھ
کو خفیہ سو سائیٹی بنانے اور آتشیں اسلحہ کی فراہمی کا خیال پیدا ہوا ۔ مولاناؒ
میرے اس خیال سے نہ صرف واقف تھے بلکہ معین و مشیر بھی تھے ،
چنانچہ مولاناؒ کے ایک دوست نے جب ان کو بتلایا کہ وہ ریوالور بہم پہنچا
سکتے ہیں تو مولاناؒ نے مجھ کو ان سے ملا دیا ، ان صاحب نے مجھ سے ڈیڑھ
سوروپیہ لیا ، ریوالور کیا دیتے روپیہ بھی ہضم کر گئے ، بہر حال اس سے
مولاناؒ کے ذوق کا اندازہ ہو تاہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ خفیہ سو سائٹی
کے سلسلہ میں میرے خیالات ابھی عزیمت کی حد سے نکل کر عمل کی
سر حد تک بھی نہ پہنچے تھے کہ تحریک خلافت شروع ہو گئی اور مولانا سجاد
صاحبؒ نے صوبہ بہار میں پہلی خلافت کمیٹی گیا میں قائم کی اور میں اس کا
سکریٹری تھا”
مولاناسجادؒکی مجاہدانہ اسپرٹ آخرتک برقراررہی
بعدکےادوارمیں مولاناؒپرآئینی سیاست اورپرامن جدوجہدکارجحان غالب ہوگیا
لیکن کلیتاًیہ رجحان ختم نہیں ہواتھا،بلکہ حسب ضرورت آپ کےنزدیک ہردورمیں اس کی گنجائش باقی رہی،شاہ ابوطاہرفردوسی صاحبؒ بیان فرماتے ہیں کہ:
"مولانا ؒکے علمی ودینی ،سیاسی کارناموں میں صرف آئینی جد و جہد کو عموماً
اہمیت دی جا رہی ہے ،مگر میری دانست میں صرف آئینی جد و جہد میں
آپ کے کارناموں کا انحصار صحیح نہیں ہے ،اس میں شک نہیں کہ اسلامی
اقتدار کے حصول کے لئے حسب استطاعت آئینی جد وجہد کو اختیار فرمایا
اور اس میں آپ کو بفضلہ تعالی خلاف امید گو نہ کامیابی بھی ہوئی مگر آپ
اس کے بھی خواہشمند تھے کہ اگر موقع آئے اور دشمنان اسلام کا تمرد
اور ان کی سرکشی سد راہ آئے تو جہاد بالسیف کو بھی کام لایا جائے ،اور اس
سے ان کے رفقا ءکارنا واقف نہیں ہیں ،چنانچہ قاضی احمد حسین صاحب
کے مقالہ میں جو غالباًالہلال میں شائع ہوا تھا اشارہ کیا گیا ہے،اور امارت
کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سپاہیانہ فنون کے سکھلانے کا جو نظم کیا گیا تھا
وہ بھی اس پر شاہد ہے”
قاضی احمدحسین صاحبؒ بھی اس کی تائیدکرتے ہیں،انہوں نےاس کےدوشواہد نقل کئےہیں:
٭ایک یہ کہ سرحدکےمجاہدین سے ان کی دلچسپی تاحیات قائم رہی اوروہ ان کی مالی مددبھی فرماتے رہے۔
٭دوسرے یہ کہ قیام امارت کےبعدوہ سرحدکی طرف ہجرت کرجاناچاہتے تھے،
لیکن حضرت مولاناشاہ بدرالدین صاحب امیرشریعت اول نے روک دیا،قاضی صاحب لکھتے ہیں:
"ہندوستان کی تنظیم کے ساتھ مولاناؒ بیرون ہند کے مسلمانوں کی فلاح
سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ، خصوصاً سرحد کے آزاد علاقہ سے ،
میرے علم میں مولاناؒ نے ایک دفعہ ایک شخص کو ایک معقول رقم صوبۂ
سر حد کے مجاہدین تک پہنچانے کو دی تھی ، میرا یقین ہے کہ صوبہ سرحد
کے مجاہدین کے ساتھ مولانا ؒ کی دلچسپی مرتے دن تک قائم رہی۔
مولاناؒ کی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے میں نے ایک دفعہ بر سبیل
تذکرہ مولانا ؒسے کہا ،اس صوبہ میں امارت شرعیہ قائم کر کےآپ نے
اپنا وقت زندوں کے بجائے مردوں میں ضائع کیا ، کاش کہ آپ صوبہ
سرحد جا کر ایک چھوٹی سی نمونہ کی اسلامی حکومت قائم کئے ہوتے تا کہ
دنیا دیکھتی کہ اسلامی حکومت انسانیت کے لئے کیسی رحمت ہے ، تو مولاناؒ
نے فرمایا کہ صوبہ سرحد سے کچھ لوگ میرے لینے کو آئےتھے اور میں
بھی جانے کو تیار ہو گیا تھا ، لیکن امیر شریعت اول حضرت مولانا شاہ
بدر الدین صاحب نے جانے نہ دیا” ۔
یہ حالات بتاتے ہیں کہ آئینی سیاست نےآپ کی مجاہدانہ اسپرٹ ختم نہیں کی تھی ، بلکہ وہ چنگاری آخرتک خاکسترمیں موجود رہی،حضرت مولاناؒ کاادارہ حزب اللہ بھی اسی حرارت دروں کاایک حصہ تھا۔آپ کےجذبۂ جہادکوہزاروں ہزارسلام۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close