مضامین

مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانویؒ جن کی یادوں سے معطر تھا چمن

حافظ محمد عمران رشیدی خادم دارالعلوم حبیبیہ لدھیانہ

۹ ستمبر ۲۰۲۱ عیسوی کی شب میں ساٹھے بارہ بجے کے قریب ہمارے مشفق و محسن حضرت اقدس مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی قدس سرہ شاہی امام پنجاب و صدر مجلس احرار اسلام ہند میرے جیسے اپنے ہزارہا محبین و متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ کر سفرِآخرت پر روانہ ہوگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ان للہ ما اخذ و لہ ما اعطی و کل شیئ عندہ باجل مسمی

آپ کا سانحۂ وفات میری زندگی کا ایک ایسا حادثۂ غم ہے،جسے بھلانا میرے لیے شاید کبھی ممکن نہ ہوگا۔میں کم عمر تھا،جب میرے والدین مختصر سے وقفے سے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے،اس فانی دنیا میں اب حضرت ہی میرے لیے والد کے درجے میں تھے،وہ مجھے بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک باپ کی سی شفقت و محبت سے ہی مجھے نوازا۔کم و بیش تیرہ چودہ سال کا ایک طول طویل عرصہ میں نے ان کی سرپرستی میں گزارا،اس مدت میں انھیں کیسا اور کس طرح پایا،یہ ایک ایسا عنوان ہے،جس کے لیے کئی صفحات و ساعات درکار ہیں۔لیکن ان سطور کی تحریر کے وقت حال یہ ہے کہ حضرت کی شفقت کے واقعات رہ رہ کر ان کی یاد دلاتے ہیں،دل صدمے سے چور اور آنکھیں آنسوؤں سے تر بہ تر ہیں؛دل و دماغ اس درجہ متاثر ہیں کہ نہ زبان الفاظ کا ساتھ دے پا رہی ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں کچھ لکھنے کی سکت ہے؛اس لیے سرِدست حضرت کی شخصیت پر تفصیلاً روشنی ڈالنا میرے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔ولعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا

یادش بہ خیر:سن ۲۰۰۰ عیسوی کی بات ہے،میں مِنٰی مسجد شکتی نگر ٹبہ روڑ لدھیانہ میں امام کی حیثیت سے وارد ہوا اور پھر سات آٹھ سال تک یہی مسجد میرا مستقر رہی۔

حضرت اقدس مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی قدس سرہ کے نام سے غائبانہ واقفیت پہلے سے حاصل تھی،اب یہاں کے مستقل قیام کے بعد آپ کے روشن کارناموں سے واقفیت حاصل ہوئی اور آپ کو بہت قریب سے دیکھنے و سمجھنے کا موقع ملا۔ان کی خدمت میں حاضری کا آغاز ہوا،تو ان کے تئیں عقیدت و محبت میں ہر دن اضافہ ہوتا رہا۔حضرت کا ادارہ دارالعلوم حبیبیہ لدھیانہ،شکتی نگر مسجد سے چار پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے،اس لیے آپ کی خدمت میں حاضری ہر روز تو نہیں ہو پاتی تھی،البتہ ہفتے عشرے یا مہینے بھر میں ایک دفعہ ضرور آپ سے ملاقات کے لیے جامع مسجد فیلڈگنج چلا جایا کرتا تھا۔

حضرتؒ ہر دفعہ اپنی نصائح سے نوازتے،ماحضر کے تناول پر اصرار فرماتے،شہر کے علماء و ائمہ کا کوئی مسئلہ اگر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا،تو آپ اس کا معقول حل بتاتے اور ایک نصیحت جو آپؒ بار بار فرماتے،وہ یہ تھی کہ بیٹے! ہمیشہ حق بات کہنا اور سننا اور تمام تر شعبہ ہائے حیات میں سنن نبویہ کو حد درجہ اہتمام کے ساتھ جگہ دینا۔ایسا کرنے سے اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں عزت و عافیت سے نوازے گا اور آپ ہر طرح کے شرور و فتن سے بھی محفوظ رہوگے۔

مجھے یہ دعوی تو ہرگز نہیں کہ میں نے آپ کی اس نصیحت پر پورے طور پر عمل کر لیا،ہاں البتہ آپ کی اس نصیحت پر عمل کی ٹوٹی پھوٹی اپنی سی کوشش ضرور کی۔

جس مسجد میں،میں خدمتِ امامت پر مامور تھا،بحمداللہ وہاں اچھا وقت گزرا۔آخر ایک ایسا مسئلہ پیش آ گیا،جس کے شرعی نقطۂ نظر پر عمل درآمد سے کچھ ذمے دارانِ مسجد انکار کر بیٹھے۔مجھے اس سے سخت تکلیف ہوئی،میں نے حضرت سے اس بات کا ذکر کیا،تو آپ نے فرمایا:بیٹے تم حق پر ہو،روزی کے مالک اللہ تعالی ہیں،چند ٹکوں کی خاطر حق بات سے ذرہ برابر بھی انحراف مت کیجیے گا۔میں نے ایسا ہی کیا اور دینی علوم سے نابلد لوگوں کی بے جا ضد و عناد کے پیشِ نظر چند روز بعد مسجد سے مستعفی ہو گیا۔

دارالعلوم حبیبیہ لدھیانہ میں احقر کا تقرر

جب حضرتؒ کی خدمت میں حاضری ہوئی،تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی حضرت نے فرمایا کہ:بیٹے عمران! آپ آج پریشان سے کیوں نظر آ رہے ہیں۔ظاہر ہے چھ سات سال کا لمبا عرصہ جس مسجد اور محلے میں گزرا تھا،اس سے علٰحدگی دل پر شاق گزری تھی،میں نے مسجد سے استعفے کی بات آپ کے سامنے رکھی۔آپؒ نے مجھے سینے سے لگایا۔میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔حضرتؒ کی قبر پر اللہ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں،انھوں نے مجھے تسلی دی،حوصلہ افزا واقعات سنائے،فرمایا مایوس بالکل بھی نہ ہوں،میری اور آپ کی اور ہر ذی روح کی روزی پروردگارِعالم کے ذمے ہے۔آپ پریشان نہ ہوں۔دارالعلوم حبیبیہ لدھیانہ کی آغوش آپ کے لیے حاضر ہے،اس پلیٹ فارم سے اپنی خدمات کا سفر شروع کیجیے۔بس میری دلی خواہش فقط اتنی ہے کہ آپ دارالعلوم حبیبیہ کے معیارِتعلیم کو اتنا بلند اور مضبوط کر ڈالیں،کہ طلبہ کی تعلیم و تربیت کا حق ادا ہو جائے۔

میں نے تعمیلِ حکم میں دارالعلوم حبیبیہ میں بہ طورِخادم قیام اختیار کر لیا،وہ سن ۲۰۰۸ عیسوی اور اب سن ۲۰۲۱ عیسوی کم و بیش تیرہ سال آپ کی سرپرستی میں گزارنے کا شرف حاصل ہوا اور یہ آپ کی اپنے ادارے کے اساتذہ و طلبہ کے تئیں شفقت و محبت،ہم دردی و خیرخواہی اور ان کے بے پناہ خلوص و للّٰہیت ہی کا اثر ہے کہ تیرہ سال کا یہ عرصہ دم زدن میں گزر گیا۔

ہم نے اتنا لمبا زمانہ ان کی صحبت و سرپرستی میں گزارا،لیکن سچ پوچھیے تو ان کی عبقری شخصیت کے کماحقہ ادراک سے ہماری عقل آج تک قاصر ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اساتذۂ دارالعلوم کے ساتھ بے تکلفی و اپنائیت کا معاملہ اختیار فرماکر،اپنے امتیازات و اختصاصات سے انھیں واقف ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ان کی لائقِ رشک شخصیت "من تواضع للہ رفعہ اللہ” کا ایک عظیم مظہر تھی۔

حضرت نے اپنے دارالعلوم کے اساتذہ کے ساتھ ایسا معاملہ رکھا،جیسا ایک والد اپنی اولاد کے ساتھ رکھتا ہے۔دارالعلوم اور دارالعلوم سے تعلق رکھنے والے ہر فرد پر وہ مکمل نگاہ رکھتے تھے،اصول و ضوابط میں کوتاہی ان کے یہاں جرم کا درجہ رکھتی تھی،ان کی وفات سے ہم خدام دارالعلوم حبیبیہ یتیم ہوکر رہ گئے ہیں۔

حضرتؒ کو اپنے ادارے کی ترقی کی ہمہ وقت فکر رہتی تھی اور ان کے شب و روز کے بیش تر اوقات بھی یہیں گزرتے تھے،بلکہ اب آخر کے سالوں میں تو ان کا مستقل قیام جامع مسجد فیلڈگنج ہی میں رہتا تھا،صبح اور شام میں آپ بہ مشکلِ تمام فقط دو تین گھنٹے ہی گھر پر گزارتے تھے۔باقی سارا وقت اوراد و وظائف،صوم و صلوۃ اور واردین و صادرین سے ملاقات کے اشتغال کے ساتھ جامع مسجد ہی میں گزرتا تھا۔تہجد کے آپؒ حددرجہ پابند تھے،میں جب دارالعلوم حبیبیہ میں نیا نیا مدرس ہوکر آیا تھا،اس زمانے میں حضرتؒ کا معمول رات میں گھر پر قیام کا تھا،عشاء کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور رات کے تین بجے واپس جامع مسجد پہنچ کر نمازِتہجد اور دیگر معمولات کی ادائیگی میں مصروف و مشغول ہو جاتے تھے اور یہ آپ کا ایسا معمول تھا،جس پر آپ برس ہا برس سے عمل پیرا تھے۔

دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی شانہ ہمارے حضرتؒ کی مغفرت فرمائے،خلف الرشید مولانا محمد عثمان صاحب رحمانی کو انھی جیسی ہمت و جرأت عطا فرمائے،اہلِ خانہ اور جملہ متعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close