اسلامیات

ننگی زندگی

محمد یاسین جہازی

عریانیت سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں بے لباسی میں آخری حد تک پہنچ گئی ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی وہاں تک پہنچنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ لیکن ایک زمینی تجزیہ بتلاتا ہے کہ اس میں لڑکے بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ عریانیت اور فحاشی کے مظاہرے میں دونوں کسی سے کم نہیں ہیں۔
راقم الحروف کسی خاص مقصد سے تقریبا ایک ہفتہ کے لیے جھارکھنڈ کے آدی واسی علاقوں میں قیام پذیر رہا۔ اس دوران ان کی طرز معاشرت کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ لباس کے حوالے سے ان کے شب و روز کا معمول یہ دیکھا کہ لڑکیاں اور عورتوں کے جو روایتی لباس ہیں، خواہ اس میں پردہ اورستر پوشی ہو یا نہ ہو، وہ چوبیس گھنٹے زیب تن رہتی ہیں۔ لیکن جو مرد ہیں، وہ بالعموم ہاف چڈی یاتولیہ کے چیتھڑے میں نظر آئے۔ اس کی وجہ غربت اور عدم دستیابی کے علاوہ لباس و تہذیب سے ناآشنائی تھی۔ لیکن ایک دو افراد سے استفسار میں ان کا یہ نظریہ معلوم ہوا کہ ”ہم مردوں کے بدن میں کوئی چیز پرکشش نہیں ہے، اس لیے اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ لڑکیوں کو چھپانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ان کے جسم دوسروں کے لیے آکرست ہیں“۔
تہذیب و ثقافت سے ناآشنا افراد اگر یہ وجہ پیش کریں، تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں؛ لیکن تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے ٹھیکے دار معاشرہ، ان آدی واسیوں سے بھی کہیں زیادہ بودے فکر اور لباس کی بے ڈھنگی کے شکار ہیں۔مہذب سماج کی لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہے کہ”مہذب طوائفیں“ جہاں تک ننگی ہوچکی ہیں، ان کی تقلید میں یہ شریف زادیاں بھی وہاں تک عریاں ہوچکی ہیں۔ لیکن لڑکوں کے لباس کا جائزہ لیں، تو یہ بھی ننگے پن میں آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب یہ پہنتے ہیں، تو گلے کے شگاف اور پیر کی ایٹری تک کو چھپاتے ہیں، لیکن ننگے پن پر آتے ہیں، تو چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر کھلے عام گھومتے نظر آتے ہیں۔ آفس یا کسی فنکشن کے موقع پر پورے لباس میں نظر آتے ہیں، لیکن جوں ہی گھر لوٹتے ہیں، تو ساری چیزیں اتار کر ایک چڈی، ایک بنیان پہن کر سرعام گھومتے ہیں، حتیٰ کہ گھر میں اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کے سامنے بھی اسی لباس میں رہتے ہیں۔اسی طرح بالعموم نوجوانوں میں لوور پہننے کا جنون ہے، جس میں ستر اعظم ہی کھل جاتا ہے اور جس حصہ کو ڈھانکنے کے بنیادی نظریے سے لباس پہنا جاتا ہے، وہی کھلا رہ جاتا ہے۔سماج کے اس منظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی عریانیت اور ننگے پن کا دوسرا نام ہے۔
لباس انسان کے لیے ایک زینت ہے، آرائش و زیبائش کا فطری سلیقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت میں اس کے طریقے اور حدود متعین کیے گئے ہیں۔ مرد کے لباس کا شرعی ضروری حد یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک چھپایا جائے۔ اور عورتوں کا پورا بدن ضروری حد میں شامل ہے، صرف دونوں ہاتھ گٹوں تک، چہرہ اور ٹخنے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے تک کوئی لباس پہننا ناجائز ہے، اس کے علاوہ زینت کے لیے وہ جتنے بھی چھپائیں یا دکھائیں، سب جائز ہے۔
اسلام کے اس طریقے اور مہذب سماج کے طریقوں کا تقابلی جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ اسلام نیلباس کا جو شعور دیا ہے، اس میں زیبائش بھی ہے اور پرکشش بھی۔ جو لڑکیاں بالعموم اسکرٹ یا موجودہ چلن والے لباس میں گھومتی ہیں، ہر وقت ہوس کے درندے انھیں تاڑتے رہتے ہیں اور ننگا سماج بھی ان کو بہت زیادہ تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتا؛ لیکن جو عورتیں شرعی لباس کا اہتمام کرتی ہیں، انھیں ننگا سماج بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ علاوہ ازیں لباس میں ایک عورت جتنی پرکشش نظر آتی ہے، عریانیت میں وہ حسن مفقود ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لڑکے شرعی لباس کا خیال رکھتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور دوسروں کے لیے پرکشش ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر گھومتے ہیں، ان کے بدن کا مکروہ منظر ہر شخص کو تنفر کی دعوت دیتا ہے؛ بالخصوص جو لوگ بغل کے بالوں کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے اور ہاف بنیان پہن کر گردش کرتے رہتے ہیں، ان کے بدن کی یہ ہیئت کتنا کریہہ منظر ہوجاتی ہے، اسے صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے…… الامان والحفیظ۔
لباس کے حوالے سے اگر ایسے سماج کے افراد یہ روش اختیار کریں، جنھیں مذہب کی کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہے، تو معقول عذر سمجھا جاسکتا ہے، لیکن افسوس اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان کا معاشرہ بھی اس معاشرہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی دوسرے سماج کے دوش بدوش ہیں اور ننگے پن میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ اس لیے میرے اسلامی اور دینی بھائیو!دوسروں کی دیکھا دیکھی اس طرح ننگی زندگی کا مظاہرہ سے باز آئیں اور نبی کریم ﷺ کی سیرت اور طریقے کو اپناتے ہوئے شرعی لباس کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضیات پر چلنا ہمارے لیے آسان کردے۔ اور اسلامی لباس کا نمونہ بن کر زندگی گذارنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close