اہم خبریں

پٹنہ کے پھلواری شریف میں” رابطہ ادب اسلامی” کا دوروزہ قومی سیمینار بعنوان "…مولانا عبداللہ عباس ندوی "

فاروق اعظم قاسمی

18_19فروری 2023کو یہ سیمینار المعہد العالی کے تحتانی ہال میں منعقد ہوا ،کنونر علم و کتاب کے معزز رکن مولانا طلحہ نعمت ندوی تھے، دوسرے روز اس حقیر کا بھی مقالہ "ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی کا نثری آہنگ”تھا ،پہلے دن کے پروگرام کا مجھے علم نہیں ۔اتوار کو تقریباً نو بجے صبح سیمینار کی تیسری نشست کا آغاز ہوا،ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد چوتھی نشست شروع ہوئی اور پروگرام ایک بجے اختتام پزیر ہوا ،ہردو نشست میں پانچ سے چھ مقالہ نگار شریک ہوئے ،پہلی کی صدارت مولانا عمیر الصدیق صاحب نے کی اور دوسری کی پروفیسر محسن عثمانی ندوی صاحب نے ۔صاحب سیمینار کے مختلف پہلوؤں پر مقالہ نگاروں نے روشنی ڈالی اور ان کی ذات و صفات کے مختلف جہات روشن ہوئے ۔مجھے مولانا عمیر الصدیق صاحب کی صدارت میں اپنا مقالہ پیش کرنے کا موقع نصیب ہوا۔
مولانا عبداللہ عباس ندوی ایک بلند مقام عالم دین ،ماہر زبان و ادب ،وسیع المطالعہ،تجربہ کار استاذ، صاحب تحقیق و تنقید مصنف،قادر الکلام شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک صاحب دل انسان تھے ۔ان کے فضل و کمال کی اونچائی آسمان چھوتی تھی مگر ان کے پاؤں ہمیشہ زمین سے لگے رہے ۔میری گنہگار آنکھیں مولانا عبداللہ عباس ندوی کی زیارت سے تو محروم رہیں تاہم ان کی تحریروں سے ان کی خداترسی اور خود فراموشی کا بہ خوبی علم ہوجاتا ہے۔بقول خواجہ احمد فاروقی: انھونے اپنے فضل و کمال کو صحافت میں یوں چھپا رکھا تھا جیسے کوئی نیک انسان اپنی دینداری چھپاتا ہے ۔وہ بیک وقت عربی ،انگلش اور اُردو زبان میں لکھنے ،پڑھنے اور بولنے پر پوری طرح قادر تھے اور تینوں زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں مگر تصنیف کے لیے اردو کو بطور خاص انھوں نے اختیار کیا ۔ان کی اردو نثر انتہائی آبشاری ہے ،سادہ اور آسان بھی۔وہ مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کے بعد ادب اسلامی کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔
اس سیمینار کا امتیاز یہ تھا کہ یہ روایتی سیمیناروں سے ذرا الگ تھا،دو منٹ اور پانچ منٹ کی کوئی ہڑبڑی نہیں تھی،دس بارہ منٹ کا ہر کسی کو موقع دیا گیا۔
دونوں صدور نے مقالہ نگاروں کی ہمت افزائی فرمائی اور خوش ہوئے بطور خاص نوجوانوں کو بہت سراہا اور دعاؤں سے نوازا ۔مولانا عمیر الصدیق صاحب نے اس بات پر اظہارِ مسرت فرمایا کہ نوجوان قلم سے دلچسپی لے رہے ہیں اور مولانا ندوی پر خود ان کے آبائی وطن میں اتنی خوبصورت بزم سجی ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوچیے کہ اگر بہار والے نہ ہوتے تو کیا "دارالمصنفین”ہوتا۔مولانا راشد نسیم ندوی کی تجاویز ،صدرِ رابطہ مولانا عتیق الرحمن قاسمی ندوی کے حرف رابطہ اور مولانا بدر مجیبی کے حرف تشکّر پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔
مولانا عمیر الصدیق سے فونک گفتگو کبھی کبھار ہوتی ہے تاہم ان کی زیارت کی دیرینہ تمنا تھی جو الحمدللہ پوری ہوئی۔مولانا واقعتاً صاحب دل انسان ہیں،رابطہ کے سیکریٹری ڈاکٹر سرور عالم ندوی جب مولانا عبداللہ عباس ندوی کے نعتیہ کلام کو ترنم بخش رہے تھے تو مولانا عمیر کے دیدے چھلک رہے تھے۔
ان سیمیناروں کا ایک مفید پہلو یہ بھی ہے کہ بیک وقت ایک سے زائد صاحبان فضل و کمال کی زیارت ہوجاتی ہے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ہاتھ آجاتاہے ۔اس مواقعے سے وقت کے معروف محققِ حدیث مولانا یحییٰ ندوی ،سوانحی ادب کے مشہور محقق و ناقد مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی ،مفکر و مصنف پروفیسر محسن عثمانی ندوی اور عربی زبان کے ماہرڈاکٹر راشد نسیم ندوی جیسے حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور کچھ لمحات صحبتِ بااہل دل بھی۔
اللہ اس سیمینار ہم سب کے لیے مفید بنائے اور اور اس بزم کو سجانے والوں کو جزائے خیر دے ۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close