مضامین

گاندھی جی کی تفہیم اور ان کی صحیح جگہ

مولانا عبدالحمید نعمانی ناظم شعبہ مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہندموبائل: 9811657503

گاندھی جی کی تفہیم اور ان کی صحیح جگہ
مولانا عبدالحمید نعمانی
ناظم شعبہ مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہندموبائل: 9811657503
گاندھی جی ایک عجیب و غریب شخصیت، فکر اور تحریک سے عبارت ہے، گاندھی جی صرف اتنا ہی نہیں ہیں، جتنا کچھ ہم درسی کتابوں میں دیکھتے اور جانتے ہیں، ان کی تہہ دار شخصیت، باریک بینی اور سماج کی توجہ اپنی طرف کرنے کے گر اور اپنی ضد اور باتیں منوانے کے فن میں طاق تھے۔ ان کا کوئی کام بغیر سوچے سمجھے نہیں ہوتا تھا۔ گاندھی جی کی کلیات نگارشات و خطبات کی سو جلدیں شائع ہوچکی ہیں، ان کے حالاتِ زندگی اور افکار و اعمال پر تحریروں اور کتابوں کا ایک انبار تیار ہوچکا ہے۔ مطالعہ و جائزہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ایک منصوبے کے تحت آگے بڑھتے تھے، جب کہ دوسرے حضرات خالی الذہن ہوتے تھے، خاص طور پر ہمارے اکابر اور بزرگ رہنما۔ اس کی مثال تلاش کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی کہ گاندھی جی نے اپنے نظریے کے برعکس کسی اور کی کوئی بات مانی ہو، انھوں نے بغیر نام لیے اور کبھی نام لے کر اپنے مذہبی فکرونظریہ کو مختلف عنوانات کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں حتیٰ کہ سیاست میں بھی بہت خوبصورتی سے شامل کردیا۔ جہاں وہ فطرتاً ضدی تھے، وہیں فکری عملی تضادات کے بھی شکار تھے۔ ان کی ایک بات، دوسری بات کو بسااوقات کاٹتی نظر آتی ہے، اس کی طرف مشہورسیاسی و سماجی مفکر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے واضح اشارہ کیا ہے:
”کوئی بھی عظیم انسان جو عوامی زندگی سے پچاس سال یا اس سے زیادہ جڑا رہا ہو، تو اس کی باتوں میں تضادات مل جائیں گی۔ مہاتما گاندھی نے اپنی دوربینی کے باوجود برطانوی سامراج، ذات پات پر مبنی نظام، محنت اور سرمایہ سے متعلق کئی ایسی باتیں کہیں جو بے میل یا ایک دوسرے کو کاٹنے والی ہیں۔“ (بھارت کے شاسک، مطبوعہ لوک بھارتی پرکاشن، دہلی، ص۱۶)
اس طرح کا جاندار تبصرہ وہی آدمی کرسکتا ہے جو اپنے نظریے کے تئیں ایماندار ہو، جو آدمی کو جرأتِ اظہار بھی عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر لوہیا میں یہ خوبی اور صفت نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم سماج اور اس کے بیشتر قائدین بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں، جس کے سبب گاندھی جی کی شخصیت اور قیادت ہندستان کے پورے افق پر چھائی ہوئی اور دیگر کی بالکل طفیلی اور مقلدانہ نظر آتی ہے۔اس معاملے میں مولانا آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا محمد علی، شوکت وغیرہم کا بھی استثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک آزادیِ ہند کے تعلق سے گاندھی جی کی عظمت و سعی کے اثرات امر مسلم ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے عدم تشدد، مرن برت، برہم چریہ وغیرہ کو بطور فلسفہ کے، تحریک میں شامل کرکے مذہبی علامتوں کو جو جین ازم اور ہندو مت سے اخذ کیے گئے، استعمال کا ایسا راستہ بھی کھول دیا، جو ہندو احیا پرستی پر منتج ہوتا ہے۔ ایک بات کو ایک وقت غلط اور لعنت قرار دینے کے باوجود، دوسرے وقت اسی بات کو اس طور سے دلیل اور خوبی کی شکل میں پیش کرنا کہ سماجی عمل کی ضرورت و تعبیر بن جائے، یہ گاندھی جی کا فن و کمال بھی ہے، اور اپنی نظریاتی و عملی کمزوریوں کی وجہ سے منہدم ہوتے سماج کے تحفظ و تقویت کا باعث بھی۔ دو باتوں کے بیچ کے بین السطور، باریک لکیروں اور مسالے دار لائنوں کو پڑھنے والے بہت لوگ ہیں، معاملہ ایسی صورت میں مزید حساس ہوجاتا ہے کہ ملک کی ایک بڑی تعداد تہذیبی و سماجی پس منظر میں گاندھی جی کو بھگوان اور قابل پرستش دیوتا بنانے یا اس کا درجہ دینے کی کوشش مسلسل کررہی ہے، ہندستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں انسان کے لیے جگہ یا تو بالکل نہیں ہوتی ہے، یا بہت کم ہوتی ہے، یہاں یا تو دیوتا اور بھگوان کا ذکر ہوتا ہے یا راکشس اورشیطان کا۔ آدمی چاہے جتنا بڑا ہو بہت کم توجہ کے قابل ہوتا ہے۔ اگر قابل توجہ ہوتا ہے تو بہت جلد بھگوان بن کر پتھر میں بدل جاتا ہے۔ بودھ ہو یا امبیڈکر ان کے اصول کے مطابق بت پرستی، مورتی پوجا اور مجسمہ سازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن برہمن واد، جس کے خلاف دونوں نے تحریک چلائی، خود اس کا شکار ہوکر بت اور پتھر میں بدل گئے ہیں اور اس کا دائرہ روز بروز وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ امبیڈکر، گاندھی جی کے زبردست ناقد ہیں، دیگر بہت سے دلت رہنما اور اہل علم و قلم مانتے ہیں کہ گاندھی جی برہمن ازم اور منوواد کے محافظ ہیں، اور ہمیں ہریجن کہہ کر ہماری توہین و تحقیر کی ہے، اور منووادیوں کے نظام سے موافقت کرکے زندگی گزارنے کی ترغیب دی ہے، کچھ دنوں پہلے یوپی کی وزیر اعلیٰ مایاوتی نے بھی یہی تاثر دیا تھا۔ ایل.بی. پٹیل نے اپنی کتاب ”منوواد اور اس کی اودھارنا“ میں اس پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ انھوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ جو لوگ گاندھی واد کو ملکی مفاد اور انسانیت کے مفاد میں مانتے ہیں انھیں اپنا نظریہ بدل لینا چاہیے، وہ دھوکے میں جی رہے ہیں، خاص کر بہوجن سماج کے لوگوں کو خاص طور پر وارنگ دینا چاہتا ہوں کہ گاندھی واد منوواد کا دوسرا نام ہے، اور جدید ہندستان کو ستیاناش کرنے والا گاندھی واد ہی ہے۔ بھارت میں جب تک گاندھی واد زندہ ہے تب تک منوواد زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔“
آگے مصنف نے ڈاکٹر امبیڈکر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
”گاندھی واد میں برائی کو اچھائی ثابت کرنے کا فن اور کرامت اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ اگر کوئی واد (ازم) ایسا ہے جس نے دھرم سے پورا فائدہ اُٹھایا ہے تو وہ گاندھی واد ہے، جس نے انسان کو دیوانہ اور مست بنانے کے لیے دھرم کی افیم کا پورا استعمال کیا ہے۔ شیکسپیئر کے قول کو اگر اس تناظر میں لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ مکاری اور دھوکے بازی کا دوسرا نام گاندھی واد ہے۔“ (مذکورہ کتاب، صفحہ ۷۵، مطبوعہ سدھارتھ بکس، دہلی، ۹۰۰۲ء)
جب کہ دوسری طرف مہاتما قرار دیتے ہوئے بھگوان کے اوتار کا درجہ دیا جاتا ہے، اور حیرت ہے کہ جب ایسا گاندھی جی کے سامنے کہا گیا تو انھوں نے تردید نہیں کی، تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ گاندھی جی کے گھر کے آدمی، ان کے پوتے راج موہن گاندھی اور تشار گاندھی اور دوسرے بہت سے دیگر غیرمسلم اہل علم نے اس کی پوری کوشش کی کہ گاندھی جی کو ایسے انسان کے زمرے میں رکھا جائے، جس کے گفتار و کردار کو موضوعِ بحث و گفتگو بنا کر صداقت و واقفیت تک رسائی کی کوشش کی جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ گاندھی جی کا مسلک و عمومی کردار یہی تھا کہ ان کے کردار و افکار پر تنقید و تبصرہ کیا جاسکتا ہے اور اختلاف کے اظہار کی پوری پوری گنجائش ہے، ورنہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا ہے۔ انھوں نے بہت سی ایسی باتوں اور کاموں کو بذاتِ خود بے نقاب کردیا، جو معاشرے میں معیوب اور قابلِ اعتراض سمجھے جاتے ہیں، خاص طور سے برہم چریہ کے تناظر میں جنسی تجربات ان کی زندگی میں ہی زبردست موضوعِ بحث بن گئے تھے اور بعد میں آج تک چرچے میں ہیں۔ گزشتہ دنوں جب گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی کی ان کی زندگی کے احوال و افکار پر کتاب میں رابندر ناتھ ٹیگور کی بھانجی پودھرائن سرلا دیوی سے گاندھی جی کے خصوصی تعلق کا ذکر (۴ صفحات میں) آیا تو ایک بھونچال سا آگیا تھا۔ گاندھی وادیوں کے شور مچانے پر پوتے راج موہن اور تشار دونوں نے واضح الفاظ میں کہا تھاکہ گاندھی جی کو عام انسان سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے۔ حال فی الحال انگریزی مصنف جوسیف لیلی ویلڈ کی کتاب Great Soul: Mahatma Gandhi and his struggle with India پر ہنگامہ شروع ہوا اور اس پر پابندی عائد کرنے کی بحث چلی تو دونوں پوتوں نے پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا خود گاندھی جی کی توہین ہے۔ مشہور کالم نگار کرن تھاپر نے (ہندستان ٹائمز ۳۱/اپریل ۱۱۰۲ء) آدمی یا مہاتما (Man or Mahatma) کے عنوان کے تحت لکھا کہ گاندھی کوئی خدا نہیں بلکہ عظیم انسان تھے اور عظیم انسان کے ساتھ انسانی تقاضے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگرچہ جنسی معاملات کو لے کر مصنف نے کچھ اشارے کیے ہیں، جب کہ وہ اس کا انکار بھی کررہا ہے تو بات کو خاص رنگ دینے کی کوشش، صحت مند سوچ پر مبنی نہیں ہوسکتی ہے۔ گاندھی جی کا جنس اور برہم چریہ سے متعلق جو فلسفہ ہے، جسمانی تعلق اس کے قطعی منافی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے برہم چریہ کے سلسلے میں مرد، عورت کے تعلق پر جو رویہ اختیار کیا وہ سراسر ذہنی، فکری خلا، ناآسودگی، بے یقینی، تشنگی اور مریضانہ ہے اور ہندوشاستر کے بتائے برہم چریہ نظام و مفہوم کے منافی ومتضاد بھی،ایسے ہی مقامات پر وحی الٰہی کی رہنمائی اور معنویت و ضرورت سوا ہوجاتی ہے کہ زندگی کے بہت سے معاملے میں ان کے اسرار و حکم کے افہام و تفہیم میں بڑے سے بڑا انسان چاہے جتنا عقل مند ہو، غچاّ کھا جاتا ہے، اور خواہی نخواہی تضادات کا شکار ہوجاتا ہے۔ گاندھی جی بھی اس کے شکار نظر آتے ہیں۔ دل کی تطہیر، مقدس حیات اور ریاضت و مجاہدہ کرکے ضبط نفس کی مطلوبہ بلندی تک پہنچنے کے لیے اپنے طرز پر پورے غوروفکر کے بعد انھوں نے جس راستے کا انتخاب کیا اسے وہ منزل تک لے جانے والا سمجھ رہے ہوں گے اور ہمارے لیے ان کی نیت اور اخلاص پہ شک کی گنجائش نہیں ہے، لیکن جہاں تک انسانی فطرت اور سماج کی رہنمائی کا سوال ہے، تو اس حوالے سے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی کا برہم چریہ کا مخصوص مفہوم، مرد عورت کے فکری تعلقات اور جنسی تجربات کے لیے منتخب راستے بلاشبہ انتہائی پرخطر اور سماج کو بے راہ روی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اس طرح کے تجربات و معاملات میں خالق کائنات کی عنایت و رحمت شامل حال رہتی ہے کہ عام انسانی معاشرہ بڑوں کی روش کی نقل نہیں کرتا ہے، نہ عمل کرتا ہے۔اگر گوتم بودھ، جین کی زندگی کو سنجیدگی سے اختیار کرلیں تو انسانی سماج کچھ ہی دنوں میں نیست و نابود ہوجائے، ان کا انتہائی احترام و توقیر کے باوجود عملاً ممکن نہیں رہ جاتا کہ ایک خاص قسم کی نجات اور نروان پانے کے لیے انسانی معاشرے کو درمیان میں ہی ختم کردیا جائے، اگر مرد عورت کے ایسے فطری تعلقات کو ختم کردیا جائے، جس کو مذہب، سماج یا قانون کی منظوری حاصل ہو تو انسانی آبادی کا تسلسل کیسے قائم رہ پائے گا، جب کہ خالق کائنات کا منشا و مرضی یہی ہے، اس کا ثبوت تمام تر موقر مذاہت کی تعلیم و منظوری اور عالمی سطح پر تمام تر انسانی آبادیوں میں ازدواجی رشتے کا جاری عمل ہے، اوشو اور ان سے پہلے اور بعد کے کچھ دانشوروں کا یہ تصور کہ مرد عورت کے فطری تعلق اور توانائی (مادّہ منویہ) کی نکاسی کے لیے بیاہ شادی کے رائج نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (دیکھیں اوشو کی مشہور کتاب ”سمبھوگ سے سمادھی کی اور“)
گاندھی جی ایک دوسرے معنی میں ازدواجی رشتے کے ہی خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے تعلق میں پڑ کر آدمی خدمت خلق اور دوسرے کی خدمت و فلاح و بہبود کے لیے خالی و باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ازدواجی رشتہ اور فطری جنسی تعلق، خدا رسیدگی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ (دیکھیں گاندھی جی کی خودنوشت سوانح حیات Story of my Experiment with Truth (حق کے لیے میرے تجربات کی کہانی) ک کا اوّل و دوم باب، نیز گاندھی جی کا سماج درشن از مہادیو پرساد، مطبوعہ ہریانہ ساہتیہ اکادمی، ۲۰۰۲ء،پانچواں ایڈیشن، ص۸۶) سوانح کا اُردو ترجمہ سیّد عابد حسین نے ”تلاشِ حق“ کے نام سے کیا تھا اور آزادی سے پہلے مکتبہ جامعہ قرول باغ دہلی سے شائع ہوا تھا۔
گاندھی جی بڑے باریک بیں تھے۔ وہ ایک اخلاقی نظریہ اور تقدس کا بھی الگ تصور رکھتے تھے، اس لیے وہ ازدواجی رشتے سے پرے جاکر فطری جنسی تعلق کے قطعی خلاف ہیں۔ البتہ بہت سے لوگوں کے اس سوال کی زد سے بچنے کے لیے کہ پھر انسانی دُنیا چلے گی کیسے؟ اور آپ کا وجود بھی کس کا ثبوت ہے، یہ تسلیم کیا کہ صرف حصولِ اولاد کے لیے شوہر بیوی جنسی فطری تعلق قائم کرسکتے ہیں، اس سے ہٹ کر نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس جواب میں بہت جھول اور اس سے کچھ ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جو بغیر جواب کے رہ جاتے ہیں۔ گاندھی جی نے قرآن کا مطالعہ کیا تھا اور عالمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا بھی خاص مطالعہ کیا تھا اور احترام بھی ازحد کرتے تھے، جیسا کہ ان کی تحریروں سے ثابت ہے، یہاں سے وہ رہنمائی لے سکتے تھے، لیکن خود پر ازحد اعتماد، روایتی مذہبی روایات اور ماحول کے حالات و اثرات کے سبب مطلوبہ روشنی و رہنمائی نہیں لے سکے اور اصل جواب کے قریب قریب پہنچ کر دور رہ گئے۔ وہ اس پر توجہ سے غور نہیں کرسکے کہ انسان کو قدرت نے اس کا علم نہیں دیا کہ کس بار کے فطری تعلق سے اولاد ہوگی، اس سلسلے میں صرف یہ ہوسکتا ہے کہ آدمی اعتدال سے کام لے، اسی کا ہوکر نہ رہ جائے۔ خدائے قدیر کی طرف سے پیدا کردہ قدرتی توانائی (مادّہ منویہ) کی نکاسی، مذہبی سماجی روایت کے تحت انسان کی فطری ضرورت ہے، نہ کہ مقصد۔ خدا کے بنائے سلسلہئ تولید میں گنتی کے بچے کی ولادت کی ایک خاص حد ہے، ایسا نہیں ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے ہر فطری ملن کا نتیجہ بچے ہی کی شکل میں نکلے، تاہم جسمانی، ذہنی صحت مندی کے لیے قدرتی توانائی کی نکاسی دونوں کی فطری تسکین کی صورت میں ایک فطری ضرورت ہے، اس لیے گاندھی جی کا اپنے بیٹے یا دوسرے مرد عورت کے بطور میاں بیوی کے جنسی فطری تعلق قائم کرنے سے روکنا قطعی غیرفطری رویہ تھا، جس یہودی باڈی بلڈر بیک باخ کو لے کر طرح طرح کی باتیں بنائیں اور کہی جارہی ہیں اس کو بھی گاندھی جی نے مجرد رہنے کی ہدایت و تلقین کی تھی اور جو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے انھیں فطری تعلق قائم کرنے سے روکتے تھے، اس سے وہ سمجھتے تھے کہ برہم چریہ کی تکمیل ہورہی ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں مسلمہ بات یہ ہے کہ جنسی فطری خواہش سے سوچ کی حد سے اوپر اُٹھ جانے کا یقین کسی صحت مند انسان کو عمر کے آخری دن تک نہیں ہوپاتا ہے، ایسی حالت میں آدمی فطری عملی تضاد اور دوہرے رویے کا شکار ہوجاتا ہے۔ خود گاندھی جی بھی اس روے کا شکار ہوئے، وہ اپنی بیوی کستوربا گاندھی سے برہم چریہ کے نام پر الگ ہوگئے تھے، سونے کا کمرہ، بستر الگ اور فطری تعلق سے دور ہوگئے تھے، لیکن دیگر شادی شدہ غیرشادی شدہ خواتین اور لڑکیوں کی رفاقت میں آخر عمر تک رہے، بہت سوں کے ساتھ یکجائی رات گزارتے تھے، حتیٰ کہ برہنہ ساتھ سوتے تھے، جس کے سبب اپنی بیوی کستوربا سے تعلقات خراب رہے اور قریبی رفقا بھی معترض تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ کئی خطوط میں ان کو راج گوپال آچاری تک کو کہنا پڑا کہ مہاتما غلط راہ پر ہیں۔ (دیکھیں برہم چریہ کے پریوگ، ص۵۰۱، مطبوعہ پہلا ایڈیشن، ۷۰۰۲ء، دیاشنکر شکل، ساگر)
یہ اس کے باوجود ہوا کہ وہ ایک ہی خاتون (چودھرائن سرلا دیوی) کو پیاری بٹیا اور روحانی بیوی کہتے لکھتے تھے۔کوئی بھی سماج ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے کہ اس تضاد کا تحمل کرسکے، اگرچہ ہندستان نے کرشن، رادھا اور کنہیا گوپیوں کے مابین رشتے کی کہانی کو سنا ہے، تاہم اکثریتی سماج بھی خود کو اس جگہ رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنے تقدس کا یقین دلانے کے لیے رشتے کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ اس میں راز ہے، نیز یہ کہ یہ تو بھگوان کی لیلا ہے، لیکن گاندھی جی دواپر یگ (جس عہد میں نیکی بدی ایک سطح پر آجائے) کے کرشن نہیں تھے،وہ سامنے کے آدمی تھے، چاہے وہ اپنی عظمتوں کے سبب مہاتما کہے جاتے ہوں، بڑے سے بڑا جادوگر بسااوقات ایسی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے جب اس کی جادوئی طاقت چھن جاتی ہے،گاندھی جی اپنی زندگی میں ایسے جادوگر کی طرح بارہا نظر آتے ہیں، وہ برہم چریہ کے تجربات سے عمر کے آخری حصے تک گزرتے رہے، لیکن تجربے کی کامیابی کی اطلاع دیے بغیر اس دُنیا سے چلے گئے، اور یہ یقین سے نہیں بتاسکے کہ ہمارے اس طرح کے تجربات کا نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ تجربات کی بے ثمری اور مشکوک حالت کا انجام یہ ہوا کہ تجربہ آج تک ایک سوال اور موضوعِ مذاق بنا ہوا ہے۔ آچاریہ رجنیش /اوشو کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ:
”گاندھی مسلسل یہ کہتے رہے،اس ملک کے اور بھی مہاتما یہی کہتے ہیں کہ برہم چریہ کو اختیار کرو لیکن گاندھی جی جیسے عظیم آدمی بھی ٹھیک ٹھیک معنی میں برہم چریہ کو کبھی حاصل نہیں کرسکے،وہ بھی کہتے ہیں کہ میرے خواب میں جنسی خواہش اور شہوت اُتر آتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ دن میں تو میں ضبط و تحمل کرلیتا ہوں لیکن خوابوں (نیند) میں ضبط ٹوٹ جاتا ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں ایک عورت کو بستر پر لے کر سو کر تجربہ کرتے تھے کہ ابھی بھی کہیں جنسی شہوانی خواہش باقی تو نہیں رہ گئی، ستر سال کی عمر میں ایک نوجوان لڑکی کو رات میں بستر لے کر سوتے تھے، یہ جاننے کے لیے کہ کہیں جنسی شہوانی خواہش باقی تو نہیں رہ گئی ہے، پتا نہیں کیا نتیجہ برآمد ہوا اور کیا جان پائے، لیکن ایک بات پکی ہے کہ انھیں ستر سال کی عمر تک شک رہا ہوگا کہ برہم چریہ (ضبط نفس) حاصل نہیں ہوا، لہٰذا اس امتحان اور تجربے کی کوئی ضرورت نہ تھی، برہم چریہ بالکل (غیرمنطقی) غیر سائنسی اور غیرعملی ہے۔“ (سنبھوگ سے سمادھی کی اور، ص۳۵۱، مطبوعہ روول پبلشنگ ہاؤس، پونہ، چوتھا ایڈیشن ۵۹۹۱ء از اوشو)
تقریباً یہی رائے دیاشنکر شکل بھی پیش کرتے ہیں، جنھوں نے گاندھی جی کے برہم چریہ کے تجربات پر باقاعدہ تحقیق کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”مہاتما کے برہم چریہ کا تجربہ ان کی زندگی کے آخر وقت تک جاری رہا، ۰۳/جنوری ۸۴۹۱ء کو گولی مارکر قتل کردیا گیا، اس سے پہلے مہاتما یہ کبھی نہیں بتا پائے کہ ان کے برہم چریہ کے عظیم تجربے کا کیا نتیجہ برآمد ہوا، اس بے مثال تجربے کا ثمرہ دنیا کو نہیں دے پائے۔ مہاتما نہیں بتاسکے کہ وہ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ برہنہ سوکر کامل برہم چریہ حاصل کرسکے یا نہیں، ان کے تجربے کا راز ان کی راکھ کے ساتھ ہی گنگا کی مقدس دھارا میں بہہ گیا، لیکن اس تجربے سے وابستہ کئی سوال وہ پیچھے چھوڑ گئے، جن کے جواب ڈھونڈنے کی ہمت و جرأت پرانی نسل نہیں کرسکی، شاید نئی نسل ڈھونڈ لے۔“ (برہم چریہ کے تجربات، ص۳۱، مطبوعہ دہلی)
اور اس تلاش کی راہ اسی وقت کھلے گی اور کھلی رہ سکتی ہے جب گاندھی جی کو بشر کے زمرے میں رکھ کر دیکھا جائے، اور وہ بذاتِ خود جس طرح اپنی کمزوریوں، خوبیوں کا اقرار و انکشاف کرتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی خود کو زمرہئ بشر میں ہی سمجھتے تھے اور بھگوان اور شیطان کے درمیان زمرہئ بشر سے بہتر جگہ نہیں ہوسکتی ہے۔ گاندھی وادیوں کی افراطِ عقیدت اور کچھ دلت حضرات کی طرف از حد جارحیت و تفریط، گاندھی جی کی تفہیم کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے، ملک اور ہم مسلمان اقلیت پر ان کے بہت سے احسانات ہیں، ان کا ہم شکرگزاری کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں۔ ہماری دیانت و دین کا یہی تقاضہ ہے۔ ہندو مسلم اتحاد اور مظلوم مسلمانوں کے لیے ملک کے پرآشوب حالات میں جس جرأت و شرافت کے ساتھ آوازِ حق و انصاف بلند کی وہ بے مثال ہے، اسی طرح ذات پات پر مبنی ہندو سماج میں چھواچھوت کے خلاف اور دلتوں کے حق میں جس ہمت سے کام کیا اور اشراف پر سخت تنقید کی، اس سے پیدا ہونے والی تبدیلی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، تاہم انحراف و کمی اور بدلتے سماجی، سیاسی، اقتصادی حالات میں معنویت و افادیت کا جائزہ ان کا تقاضہ ہے اور آج بھی ضرورت ہے کہ گاندھی جی کے افہام و تفہیم کا سلسلہ آگے بڑھے۔ ملک میں رہنما تو بہت پیدا ہوئے لیکن گاندھی اور جناح کی تہہ دار شخصیت کے مختلف پہلو اور مرتب ہونے والے انقلابی اثرات کا تجزیہ بھی ضروری ہے تاکہ ماضی میں ظاہر ہونے والی بہتر باتوں سے استفادہ و رہنمائی اور مضر مظاہر سے بچاؤ کا راستہ حال اور مستقبل میں بھی نکالا جاسکے۔qq

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close