زبان و ادبمضامین

ہندوستانی زبانوں کا مختصر تعارفی و تاریخی خدوخال

محمد تحسین مظفر قاسمی ایم۔اے اردو

آریوں کی آمد سے قبل ہندستان میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کے بارے میں خاطر خواہ مواد دستیاب نہیں ہے البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آریوں کی آمد سے قبل ہندستان میں نگریٹو (Negretive) خاندان کا پتہ چلتا ہے جو افریقہ سے ترک وطن کرکے آئے تھے اور ہندستان کے علاوہ سیلون، برما اور آسٹریلیا کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ ملایا، سماتر اور فلپائن کے بعض جزیروں میں آج بھی ان کے بعض آثار نظر آتے ہیں ۔ ہندستان کے لسانی سرمایے میں کہیں بھی ان کی زبان سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے۔
زبانوں کا آسٹرک خاندان:
نگریٹو کے علاوہ ہندستان آنے والوں میں ایک اور نسل کا پتا چلتا ہے جو آ سٹرک (Austric) یا پروٹو آسٹر لائڈ کہلاتے تھے۔ یہ لوگ فلسطین سے آئے تھے۔ انھوں نے بول چال کی جو زبان استعمال کی وہ اسی نسل کے نام پر آسٹرک کہلائی۔ ان کی زبان کی بعض شاخیں ملایا، انڈونیشیا، ہند چینی اور مان کھمیر وغیرہ علاقوں میں بھی پہونچی اور خیالات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ قرار پائیں۔ ہندستان میں آج بھی خصوصاً آسام، بنگال، بہار، مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے بعض علاقوں میں کول اور منڈ از بانیں بولی جاتی ہیں جن کا مآخذ آسٹرک زبان سے ہی ہے ۔ یہاں تک کہ دریائے گنگا کا یہ نام بھی آسٹرک زبان کا عطیہ ہے۔
زبانوں کا دراویدی خاندان:
ہندستانی زبانوں کا تیسرا اہم خاندان دراویدی خاندان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی زبان ہے جو آسٹرک نسل کے فورا بعد عراق کے راستے بحیرہ روم سے ہندستان وارد ہوئے تھے اور وادی سندھ کو اپنا مسکن بنایا تھا لیکن آہستہ آہستہ ملک کے شمالی حصوں میں پھیلتے گئے اور اپنی زبانوں کی ترویج و ارتقاء میں کوشاں رہے ۔ اس خاندان کی چار بڑی زبانیں کنڑی، تیلگو، تامل، ملیالم کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ اس نسل نے سنسکرت زبان اور اس کے وسیلے سے ہند آریائی خاندان کو بہت حد تک متاثر کیا۔
زبانوں کا تبتی برمی خاندان:
وہ زبانیں جو تبت و بر ما میں بولی جاتی ہیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی زبانیں ہیں جو ہندستان میں بولی جاتی ہے اور ہمالیائی کہلاتی ہیں۔ یہ زبان سکم اور بھوٹان کے علاوہ مغربی ہندوستان کے لداخ اور مشرقی ہندستان کے ناگا پہاڑیوں میں بولی جاتی ہے۔ زبانوں کا یہ خاندان تبتی برمی خاندان کہلاتا ہے، جو بعض تبتی- چینی اور منگولی قبائل کے ہندستان آنے کے سبب اپنے بعض اثرات چھوڑ گیا ۔ ان کے لسانی سرمایے میں خاطر خواہ کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔
زبانوں کا ہند آریائی خاندان:
زبانوں کا مذکورہ بالا خاندان ہندوستانی زبانوں کا سب سے اہم اور قابل ذکر خاندان ہے۔ جس کی ابتدا آریوں کی آمد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو زبان اپنے ساتھ لائے تھے وہ ہند -یوروپی کہلاتی ہے اور ہندستان آنے کے بعد کی بولی ہند ایرانی کہلاتی ہے۔ جس وقت یہ قوم ہندستان وارد ہوئی اس وقت یہاں دراوڑی خاندان کا اثر و رسوخ تھا اور ان کی بولی رائج تھی۔ لیکن جب آریاؤں کی آمد ہوئی تو انھوں نے دراوڑوں سے مقابلہ کیا۔ دراویدی شاید فنون جنگ سے واقف نہ تھے اس لیے پسپا ہو کر جنوبی ہندوستان میں چلے گئے اور آر یہ نسل کے لوگ شمالی ہندوستان میں پھیل گئے اور یہیں ان کی زبان پھلنے پھولنے لگی۔ ماہرین لسانیات نے آریوں کی زبان کے عروج وارتقا کی درج ذیل زمرہ بندی کی ہے:
(1) قدیم ہند آریائی (1500 قبل مسیح سے 600 ق م تک )
(2) وسطی ہند آریائی (600 قبل مسیح سے 1000ء تک)
(3) جدید ہند آریائی (1000ء سے عصر حاضر تک )
(1) قدیم ہند آریائی عہد کو 1500 قبل مسیح سے 500/600 قبل مسیح تک مانا جاتا ہے جو تقریباً 1000 سال پر محیط ہے۔ ان کے دو ذیلی ادوار بھی ہیں:
(1) ویدک سنسکرت 1500 قبل مسیح سے 1000 قبل مسیح تک
(2) کلاسیکی(عوامی) سنسکرت 1000 قبل مسیح سے 500 قبل مسیح تک
ویدک سنسکرت:
اس زبان کے سب سے قدیم نمونے ہمیں ویدوں کی زبان میں ملتی ہیں جیسے ” رگ وید” اس کے علاوہ اس زمانے میں تین اور وید: سام وید، یجر وید اور اتھر وید تحریر کیے گئے۔ ان ویدوں کی زبانوں میں تھوڑا فرق پایا جاتا ہے۔ رگ وید کی تصنیف کا زمانہ 1200 قبل مسیح سے 1000 قبل مسیح تک مانا جاتا ہے۔
کلاسیکی سنسکرت:
اس کا ارتقا ویدک سنسکرت کے بعد ہوئی۔ ویدک سنسکرت میں جب ادبی تخلیقات کا آغاز ہوا تو یہ کلاسیکی سنسکرت کے نام سے موسوم ہوئی۔ مہا بھارت اور راماین کلاسیکی سنسکرت میں لکھی گئی ہے۔
500 قبل مسیح تک پہنچتے پہنچتے سنسکرت زبان دم ٹوڑنے لگی اور اس کی جگہ ایک نئی زبان نے لے لی جو پراکرت کہلاتی ہے جو سنسکرت کی ہی بدلی ہوئی شکل ہے۔
(2) وسطی ہند آریائی ذیلی تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) پالی اور اشوکی کا دور (500 قبل مسیح سے تا مولود مسیح یعنی ایک عیسوی تک (500 سال ))
(2) پراکرتوں کا دور ایک عیسوی تا 500ء (500سال)
(3) اپ بھرنش کا دور (500ء سے 1000 ء تک۔
پراکرتوں کا دور ل:
سنسکرت کے زوال کے بعد پراکرت زبان کا ظہور ہوا جو سنسکرت میں تبدیلی کے نتیجے میں فطری طور پر ظاہر ہوئی اور سنسکرت عام لوگوں سے زیادہ پنڈتوں اور پروہتوں کی زبان ہوگئ۔
پراکرت بھی کئی علاقائی زبانوں میں تقسیم ہوئی۔ شورسینی پراکرت شورسین کا علاقہ جس کا مرکز متھرا تھا۔ کھڑی بولی ان میں سے ایک ہے جو اردو کی بنیاد و اساس ہے۔ ماگدھی پراکرت اور مہاراشٹری پراکرت۔
پالی اور اشوکی کا دور:
"پالی” مہاویر سوامی اور مہاتما بدھ کے عہد یعنی یعنی پانچویں صدی قبل مسیح کی یادگار ہے۔ بدھ مذہب سے متعلق تمام اپدیش پالی میں موجود ہے۔ اشوکی موریا سلطنت کے حکمران اشوک موریا کے عہد یعنی تیسری صدی قبل مسیح کی یادگار ہے جو مختلف پتھروں اور لوٹوں پر کندہ اشوک کے فرامین ملتے ہیں۔ اس زبان کو شلالیکھ بھی کہا جاتا ہے۔
(3) اپ بھرنش :
پراکرت کی بگڑی ہوئی شکل اپ بھرنش کہلاتی ہے۔ بعض ماہرین لسانیات اپ بھرنش کو پراکرت کی ہی ایک شکل تسلیم کرتے ہیں اوراسے تیسری پراکرت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بہر حال اپ بھرنش کے لغوی معنی ہے بگڑی ہوئی یا بھرشٹ زبان ۔ چونکہ اپ بھرنش پراکرت سے پیدا ہوئی ہے اس لیے جہاں جہاں پراکر تیں بولی جاتی تھیں انھیں علاقوں میں اپ بھرنش کا ارتقائی عمل شروع ہوا۔ اپ بھرنش کی اصطلاح دوسری صدی قبل مسیح کے عظیم قواعد داں اور مہا بھاشیہ کے مصنف پاتنجلی کے دور سے ملتی ہے لیکن اس نے یہ اصطلاح زبان کے معنی میں استعمال کی تھی ۔ اپ بھرنش کے باقاعدہ قواعد گیارہویں صدی عیسوی کے قواعد نویس بھیم چندر نے لکھے۔ ماگدھی اپ بھرنش کا ارتقا ما گدھی پراکرت سے ہوا۔ اس کا اثر ورسوخ مشرق کے ایک وسیع خطے پر تھا، جس میں بنگال، آسام، اڑیسہ اور بہار کے علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں کی جدید زبانیں یعنی بنگالی، آسامی ، اڑیا اور بہار کی تقریباً تمام بولیاں ماگدھی اپ بھرنش سے ہی نکلی ہیں۔ مغربی ما گدھی اپ بھرنش کی بولیوں کو بہار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں تین بولیاں میتھلی مگہی اور بھوجپوری شامل ہیں۔ اردھ ماگدھی اپ بھرنش، شور سینی اپ بھرنش اور ماگدھی اپ بھرنش کے درمیان کے علاقے کی زبان تھی ۔ اس سے مشرقی ہندی کی بولیاں وجود میں آئیں۔ مہاراشٹری اپ بھرنش کا ارتقاء مہاراشٹری پراکرت سے ہوا جو مہاراشٹر کے علاقے کی زبان تھی ، اسی زبان کے بطن سے موجودہ مراٹھی زبان وجود میں آئی۔
(3) جدید ہند آریائی
جدید ہند آریائی زبانوں کو ان کی خصوصیات کی بنیاد پر جارج گریرسن نے کئی گروہوں میں منقسم کیا ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
(1) بیرونی زبانیں:
لہندا ( مغربی پنجابی، سندھی ، مراٹھی، آسامی، بنگالی، اڑیا، بہاری بولیاں ( میتھلی، مگہی ، بھوجپوری )
(2) وسطی زبانیں:
مشرقی ہندی (اودھی بگھیلی، چھتیس گڑھی )
(3) اندرونی زبانیں:
مغربی ہندی (کھڑی بولی، ہریانوی ، برج بھاشا، بندیلی قنوجی) مشرقی)، گجراتی، راجستھانی (مارواڑی / میواڑی، مولوی، جے پوری،
میواتی بھیلی ، خاندیشی)
(4) پہاڑی بولیاں:
نیپالی گور کھار، کمایونی / گڑھوالی ، شملہ اور اس کے گردونواح کی پہاڑی بولیاں۔
پروفیسر مسعود حسن خاں مقدمہ تاریخ زبان اردو میں لکھتے ہیں کہ جدید ہند آریائی زبانوں کی پرورش و پرداخت پراکرتوں کے بجائے اپ بھر نشوں سے ہوئی ہے۔ ان کا سلسلہ حسب ذیل اپ بھرنشوں سے جا کر ملتا ہے۔
(1) شور سینی اپ بھرنش (کھڑی بولی ، راجستھانی ، پنجابی (مشرقی) گجراتی۔
(2) ماگدھی اپ بھرنش (بنگالی، آسامی ، اڑیا )
(3) اردو ما گدھی اپ بھرنش (پور بی زبانیں ، جیسے اودھی ، بھوجپوری وغیرہ )
(4) مہاراشٹری اپ بھرنش ( مراٹھی)
(5) کیکی اور پراچر اپ بھرنش ( پنجابی اور (مغربی) سندھی)
جدید ہند آریائی زبانوں میں سے ماہرین لسانیات نے مغربی ہندی کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ ان کے خیال میں یہ وہ زبان ہے جس سے مدھیہ پردیش کی بولیوں : ہریانی، برج، کھڑی، قنوجی ، بندیلی نے جنم لیا اور یہ شور سینی اپ بھرنش کی سچی جانشین بنی ۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد مدھیہ پردیش کی جغرافیائی حدود میں ہریانی، برج ، کھڑی ، قوجی، بندیلی، گجراتی ، راجستھانی اور پنجابی بول چال کی زبانوں کے طور پر رائج نظر آتی ہیں۔ حتمی طور پر یہ رائے قائم کرنا دشوار ہے کہ ان میں سے نکھر کر پہلے کون سی زبان سامنے آئی۔
تاریخی اعتبار سے اردو کا لسانیاتی رشتہ سنسکرت سے استوار ہے۔ اردو بالخصوص قدیم اردو میں سنسکرت کے الفاظ بے شمار ملتے ہیں۔ اردو کے صوتی نظام میں بھی سنسکرت نژاد آوازیں موجود ہیں۔ جو عربی اور فارسی بہ لحاظ تعداد زیادہ ہیں۔
جدید ہند آریائی سے اردو کا رشتہ
اپ بھرنشوں کے خاتمہ کے بعد جدید ہند آریائی کا آغاز 1000 ء سے ہوتا ہے۔ دراصل یہ زمانہ محض لسانی تغیر وتبدل کا ہی زمانہ نہیں تھا بلکہ ہندستان میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی سطح پر بھی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہورہی تھیں۔ ان تبدیلیوں کا یہاں کی بولیوں پر بھی اثر پڑ نا نا گزیر تھا۔
تقریباً 1000 ء کے آس پاس کا ایک اہم واقعہ مسلمانوں کا شمالی ہندستان میں ورود ہے، جن میں ترک، افغان اور ایرانی نژاد شامل تھے۔ ان لوگوں نے نہ صرف یہاں سکونت اختیار کی بلکہ ان میں بعض لوگوں نے یہاں کے اقتدار پر بھی قبضہ جمایا۔ یہ قبضہ پہلے پنجاب پر قائم ہوا اور آہستہ آہستہ ان کا اثر ورسوخ دہلی پر ہو گیا نتیجا 1193ء میں دہلی کو فتح کر کے وہاں اپنی باقاعدہ حکومت قائم کر لی۔ دہلی کے پایہ تخت بننے کے بعد آہستہ آہستہ اس شہر کو اہمیت اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی گئی اور دہلی مسلمانوں کا ایک بہت بڑا تہذیبی، تمدنی اور سیاسی مرکز بن گیا۔ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں قربت بڑھی، جس کے سبب یہاں ایک نئی تہذیب کا وجود ہوا اور ساتھ ہی ایک نئی زبان کا خمیر تیار ہونے لگا۔ چونکہ مسلمانوں کی مذہبی زبان عربی تھی ، اس کے علاوہ ترکی اور فارسی بھی ان کی زبا نیں تھیں۔ لہذا ان تمام زبانوں کے شمالی ہند کی بولیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور بہت تیزی کے ساتھ یہاں کی مقامی بولیوں میں عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ داخل ہونے لگے۔ دوسری طرف 1000 ء کے آس پاس اپ بھرنشوں میں بھی فطری طور پر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ، اور یہی تبدیلیاں اردو کی خشت اول کے طور پر سامنے آئی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close