مضامین

دہلی فساد میں‌انصاف سے کام نہیں‌لیا جارہا ہے

ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین، ناندیڑ(مہاراشٹرا)

عدلیہ کو چاہیے تھا کہ وہ بہت ہی تندہی و چابک دستی سے نفرت پھیلانے والی تقریروں کے خلاف کارروائی کرتی۔ جس کی وجہہ سے شہریوں میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے عدالت کی جانب سے ان کی طرف کوئی کارروائی نہیں
ایڈوکیٹ دُشینت دوے (انڈین ایکسپریس 3/مارچ 2020ء)

دلی ہائیکورٹ جب بی جے پی کے قائدین کے خلاف جو انہوں نے منافرت پھیلانے والی تقریریں کی ہیں۔ بالخصوص 27/فروری کو اس سلسلے میں کارروائی نہ کرنا اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے عدلیہ نے اس سے دستبرداری حاصل کی ہے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ قوم سپریم کورٹ کے ججس کو توجہ دلانا چاہتی ہے کہ کس طریقے سے دستور ی طریقے پر عدالت عالیہ پابند ہے کہ وہ جیسے عہد لیتے ہیں اور سنجیدگی سے اظہار کرتے ہیں جس کا ذکر دستور کے تیسرے شیڈول میں کیا گیا ہے۔ اور اس عہد کے مطابق ان ججس نے سنجیدگی سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ”میں سچائی کو سہاروں گا اور دستورِ ہند کے تحت اپنی عقیدت رکھوں گا اور میں مکمل اور پوری طرح ایمانداری سے اپنی صلاحیتوں، علم کے ذریعے فیصلے کروں گا اور میرے آفس کے تمام فیصلے بغیر کسی ڈر و خوف یا رضامندی کے بغیر ہوں گے۔ کسی کی جانب کوئی توجہہ یا بے رغبتی نہ ہوگی اور میں ہر وقت دستور کو، قانون کو قائم رکھوں گا۔“ دستور ہند کے آرٹیکل 21 ہر جج کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ ”کسی شخص کو بھی اس کی زندگی اور شخصی آزادی سے محروم نہیں رکھاجائے گا تاوقتیکہ طریقہ کار، قانون کے مطابق ہو۔“
باوجود اس کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جن کے ساتھ جسٹس ہری شنکر نے مرکزی حکومت کی اس بحث کو تسلیم کیا کہ ان قائدین کے خلاف ایف آئی آر جاری کرنے کے لیے حالات مائل نہیں ہیں اور جبکہ اس وقت ترجیح امن و امان کو قائم کرنے کی ہے۔“ اور اس طرح یہ سماعت 13/اپریل تک ٹال دی گئی۔ بظاہر یہ لگتا ہے عدالت العالیہ کی نظر سے یہ بات اوجھل رہی ہے کہ کس طرح 40 سے زیادہ لوگ موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے اور دو سو سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہیں۔ سینکڑوں مکانات تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں۔ اس سب کے باوجود دلی پولیس دیکھتی رہی۔ بالراست جبکہ مرکزی حکومت کے یہ علاقہ آتا ہے۔
باوجود ا س کے کہ ایف آئی آر داخل کرنے کے لیے حکومت کو وقت دیا گیا تھا وہ مناسب وقت تھا جب بہت زیادہ وہاں بے چینی پریشانیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ عدالتیں دستور کے محافظ ہی نہیں ہیں بلکہ شہریوں کے لیے پدرانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے دلی کو چاہیے تھا بہت تندہی اور چابک دستی سے ایف آئی آر درج کرتی۔ قانون کی عمل آوری کے لیے کسی مائل حالات کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اوقات کا تعین فوری طور پر جرم کے خلاف ایکشن لینے پر ہی ہے۔ اگر عہدیداران متعلقہ اس میں لاپرواہی کریں تو ہائیکورٹ کا یہ اختیار ہے کہ عاملہ کی مشنری کو حرکت میں لائے۔
یہ اصولی بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دلی پولیس اُن شہریوں کے خلاف ایف آئی آر کرنے میں بہت عجلت کرتی ہے جو مرکزی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس میں کنہیا کمار اور ہرش مندر کا شمار ہوتاہے۔ عدالت عظمیٰ کی دستوری بینچ نے کیدار سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہار 1962ء میں جو فیصلہ کیا ہے اس کی پولیس پابند ہے کہ کیونکر آئی پی سی کی دفعہ 124(A)میں کارروائی کرے۔ ”کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کچھ کہے یا لکھے، جو کچھ بھی وہ حکومت کے بارے میں کہنا چاہتا ہے۔ یا اُس کی کارکردگی کے بارے میں کہنا چاہتا ہ۔ خواہ وہ بذریعہ تنقید ہو یا اُس پر کوئی تبصرہ، وہ کرسکتا ہے۔ اس وقت تک کہ وہ جرم نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے کہنے کی وجہہ سے تشدد پھوٹ پڑا ہو۔ قانون کی حکمرانی میں دخل ہوا ہو اور اُس کی نیت نظم عامہ میں مداخلت کرنے کی تھی۔“ اس سے ایک اور نکتہ کی وضاحت ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیاہے کہ ”یہ صرف اسی وقت ہوتا ہے جب الفاظ، تحریر کہنا وغیرہ جس کی وجہہ سے نقصاندہ رحجانات پیدا ہوں اور اس کی نیت نظم عامہ میں مداخلت کرنی ہو اور وہ لاء اینڈ آرڈر کو ختم کرنا چاہتا ہو تب ہی ان ایکٹیویٹیز کو روکنے کے لیے پبلک آرڈر کی خاطر اس دفعہ کا استعمال ہوتاہے۔
اسی طرح فیڈریل کورٹ کا فیصلہ جو نہاردودتّ بنام کنگ ایمپرر 1942ء میں ”بغاوت کے الزام کا مختصر یہ ہے کہ بغاوت کے ذریعے تشدد کو بھڑکایا جائے یا پھر عوام کو غیر قانونی کام کے لیے اُکسایا جائے، جس کے لیے تحریر و تقریر کی گئی ہواور اس کے ذریعے گورنمنٹ کو کمزور کرے، لاء اینڈ آرڈر پر نفرت اور حکومت سے بے دلی پیداکرے، یا پھر حکومت کے خلاف فرمانبرداری نہ پیدا کرے۔“
ایسا لگتا ہے کہ عدالت العالیہ نے ان فیصلوں کو اپنی نظروں سے غائب ہی رکھا۔ جبکہ عدالت عظمیٰ کی دستوری بینچ للیتا کماری بنام گورنمنٹ آف یوپی 2013ء میں کہا کہ ایف آئی آر کا اندراج کرنا لازمی اور پابند ہے جو تعزیرات کی دفعہ 154 میں ہے کہ اگر کوئی اطلاع جو کسی جرم قابل دست اندازی پولیس کی اطلاع مل جاتی ہے بغیر کسی ابتدائی انکوائری کیے کہ کس حالات میں وہ دی گئی ہے ایف آئی آر کو درج کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے محمد ہارون اینڈ دیگر بنام یونین آف انڈیا 2014ء میں اسی طرح کے حالات میں مختلف رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران جب مظفر نگر میں فسادات پھیل چکے تھے تو کہا کہ یہ حکومت کی جوابداری اور ذمہ داری ہے کہ ریاستی انتظامیہ بشمول انٹلیجنس ایجنسی دونوں ریاست اور مرکز کو چاہیے کہ ایسے واقعات کو روکنے کی خاطر جب فرقہ وارانہ تشدد بھڑک جائے تو کارروائی کرے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ عہدیداران جو اس ذمہ داری کی عمل آوری میں نااہل اور لاپرواہ رہے ہوں خواہ وہ کسی عہدے کے بھی ہوں اُن کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ بہت ہی اہم ہے کہ مندرجہ بالا متذکرہ فیصلوں کے مطابق جو نہ صرف تمام ضرورت مند خاندانوں، بلالحاظ مذہب و ملت کے لیے یا جو متضررہ خاندان ہیں اُن کے لیے ایسے اقدامات کا آغاز کرنا ضروری ہے۔
ظاہرہ حبیب اللہ بنام اسٹیٹ آف گجرات 2004ء میں ایسے ہی حالات میں عدالت عظمیٰ کو مجبور ہوکر یہ کہنا پڑا تھا کہ ”اگر کوئی سرسری طور پر کسی مقدمہ کا ریکارڈ دیکھے اور اُسے یہ محسوس ہو کہ انصاف رسانی کے سسٹم میں بے اعتنائی برتی گئی یا ناجائز استعمال کیا گیا ہے تو وہ مکر و فریب میں آجائے گا۔ اور اگر تحقیقاتی پیپرس سے یہ نظر آتا ہے کہ وہ بے پرواہی سے کی گئی ہے اور کسی سچائی کو اخذ کرنے میں ناکام رہے ہوں تو ایسے موقع پر جو اس کے ذمہ داران ہیں اس جرم کے مرتکبین میں شامل ہوں گے۔ پولیس پراسیکیوٹر کو چاہیے کہ وہ تیزی کے ساتھ کارروائی کرے، اور سچائی کو کورٹ کے سامنے بتلائے۔ جس کی وجہہ کورٹ اگر خاموش تماشائی بن جائے یا گونگا بن جائے یا عدلیہ کی بے پروائی یا بے حرمتی کرے تو پھر تندہی سے کام نہ کرنے کا عدلیہ بھی ذمہ دار رہے گی۔ ریاستی حکومت کو اگر دیکھا جائے تو زیادہ ذمہ داری اُس کی ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی کو یہ محسوس ہوتا ہے ریاستی حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے کہ وہ تحت کی عدالت میں انصاف رسانی کے ذریعے فیصلہ حاصل کرسکے اور وہاں چلنے والی مقدمہ کی کارروائی کو ایک دکھاوے کے طور پر ڈرامائی عدالت چلائے تو ایسے کریمنل سسٹم کو چاہیے کہ وہ صاف ستھراہو اور وہ لہری و خبطی سیاستدانوں کی مرضی و ایجنڈے کے مطابق نہ چلتے ہوئے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کے درمیان دستور کے مطابق فاصلہ رکھے۔“ اب اس وقت یہ سوال سامنے ہے کہ کس طرح سے جسٹس سی ایس مرلی دھرن کا ٹرانسفر ہوا۔ باور یہ کرایا جاتاہے کہ آدھی رات کو جو بینچ کی یہ صدارت کررہے تھے جو معاملہ زیر غور تھا اور جو ڈویژن بینچ جس کی صدارت جسٹس پٹیل کررہے ہیں اُنہیں ان کی جگہ کام کرنے کے لیے احکامات صادر ہوئے ہیں۔ اب اُنہیں چاہیے کہ وہ معاملات کو بہت ہی احتیاط سے دیکھیں۔ شہریوں کو یہ نہیں محسوس ہونا چاہیے کہ کسی وجہہ سے مرکز جو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے عہدیدار ہے انہیں بھی اس کا شکار بنایا گیا ہے اور یہ کارروائی کا کڑوا تجربہ شہریوں کی زندگی اور اُن کے ذہنوں میں پیدا ہوچکا ہے۔
کوئی بھی یہ اُمید رکھتا ہے کہ عدلیہ جاگ جائے گی اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہر حال میں کرے گی۔ جبکہ جن حالات میں دستور کی پامالی ہورہی ہے اور ان عہدیداروں کی ٹال مٹول اور اپنے آپ کو ان کاموں سے باز رکھنا ہی چاہیے۔
(محرر مضمون سپریم کورٹ کے بار کونسل کے صدر ہیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close