مضامین

حصولِ تعلیم: بچوں کا قانونی حق

حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہ

بات بڑے اطمینان کی ہے کہ وطن عزیز میں تعلیم کی طرف پوری توجہ دی جارہی ہے اور ۹۰۰۲ء میں پارلیمنٹ نے وہ قانون منظور کرلیا، جس کا نام ہے ”مفت اور لازمی تعلیم، بچوں کا بنیادی حق، ایکٹ ۹۰۰۲ء“ یہ خوش آئندقانون ہے، جو نوعمروں کی تعلیم کی شاہراہ کھولتا ہے، مسودہ قانون کی شکل میں کوئی دو برس اس پر غور کیا جاتا رہا ہے، اور قانون بننے کے بعد یکم اپریل ۰۱۰۲ء سے اسے نافذ کردیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے بہت بڑی رقم بھی خاص کردی ہے، اس مرکزی ایکٹ کے پیش نظر صوبوں میں بھی قانون سازی ہوگی، تاکہ پورے ملک میں چھ سال سے چودہ سال کے نوعمروں کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کئے جاسکیں، اور آنے والے دنوں میں ہندوستان کا ہر انسان کم ازکم آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرلے۔ مرکز کے قانون سازوں نے مانا ہے کہ حصول تعلیم ہر بچہ کا حق ہے، ہر والدین کا فرض ہے، ہر استاد کی ذمہ داری ہے!
مرکزی حکومت کے اس جذبہ کی قدر کرنی چاہیے، اور اس کے استحکام اور اثر انداز ہونے کی دُعا بھی کرنی چاہیے، اس قانون نے جہاں ہر ہندستانی بچہ کو ’مفت لازمی تعلیم‘ کا حق دیا ہے، وہیں یہ بھی بتایا ہے کہ تعلیم کیا ہے؟ بچہ (چھ سے چودہ سال)کی تعلیم کہاں ہوگی؟ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری کیا ہے؟ اس عمر میں بچے کن موضوعات کو پڑھیں گے، بچہ کو علم کے نئے اُفق سے آشنا کرانے کے لیے درجات کی ترقی کس طرح ہوگی؟ تعلیم کس قسم کی تعلیم گاہوں میں دی جائے گی؟ ان تعلیم گاہوں کی انتظامیہ کیسی ہوگی؟ تعلیم گاہوں کے قیام کا حق کس طرح کے اداروں کو ہوگا؟ اور کار گزار تعلیم گاہیں حکومت کے متعین معیار کو پورا نہیں کرتیں، تو تعلیم گاہوں کے ساتھ حکومت کیا رویہ اپنائے گی؟ اگر چھ سے چودہ سال تک کے نوعمروں کو وہ تعلیم نہیں دی گئی، جو حکومت نے متعین کی ہے، تو وہ استاد اور ویسی تعلیم گاہیں کیا بچوں کے ’حق تعلیم‘ سے محروم کرنے والے سمجھے جائیں گے؟ اور کیا انھیں مجرم مانا جائے گا؟ یہ نیا قانون ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ ضرورت ہے کہ قانون کا بھرپور جائزہ لیا جائے، خوش گمانی اور بدگمانی سے الگ ہوکر اور اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد اقلیتوں کے اداروں کی کیا صورتحال ہوگی، اسے بھی دیکھا جائے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ تعلیم کیا ہے؟ اس ایکٹ کا جواب یہ ہے کہ ”تعلیم وہ ہے جسے حکومت قانون سازی کے ذریعہ متعین کرے۔“ اس کی مزید تفصیل ایکٹ کی مختلف شقوں اور دفعات میں کی گئی ہے۔ مثلاً:
دفعہ ۳:(A) ہر بچہ کا حق ہے کہ کل وقتی الیمنٹری ایجوکیشن فارمل اسکول میں اس طرح دی جائے جو اطمینان بخش اور معیاری ہو، اور جو لازمی طور طریقوں اور معیار کے مطابق ہو۔
کل وقتی (Full Time) اور الیمنٹری ایجوکیشن (Elementary Education) کی تشریح ایکٹ میں اس طرح ہے:
دفعہ ۲:(F) پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں جماعت تک کی تعلیم، الیمنٹری ایجوکیشن ہے۔
"Elementary Education” means the education from first class to eight class.
یہ تعلیم اسکول میں دی جائے گی اور ایکٹ نے وضاحت کی ہے کہ ”اسکول سے مراد (حکومت کا) منظور کردہ اسکول ہے جو الیمنٹری ایجوکیشن دیتا ہو۔
School means any recognised school imparting elementary education.
”بچوں کے مفت اور لازمی حصول تعلیم کے حق“ کے قانون کی ان دفعات پر غور کیا جائے، تو جو باتیں سامنے آتی ہیں، وہ اس طور پر ہیں کہ:
۱. تعلیم وہ ہے جسے حکومت یا اس سے متعلق ادارے قانوناً تعلیم مانیں۔
۲. تعلیم وہ ہے جو کسی فارمل اسکول میں کل وقتی اطمینان بخش طور پر حاصل کی جائے۔
۳. تعلیم وہ ہے جو حکومت یا اس سے متعلق ادارے کے طے کردہ معیار اور طور طریقوں کے مطابق ہو۔
۴. تعلیم وہ ہے جسے حکومت الیمنٹری ایجوکیشن مانتی ہے اور جو پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک دی جاتی ہے۔
۵. تعلیم وہ ہے جو حکومت کے نامزد اسکولوں میں چھ سال کی عمر سے چودہ سال کی عمر تک (یا اس سے زیادہ عمر تک) حاصل کی جائے۔ اوپر لکھی تفصیلات کو ذہن میں رکھیے اور پھر اس قانون کی دفعہ ۸کی تشریح پڑھئے:
The term comulsory education means obligation of the appropriate Governement to (i) Provide free elementary education for every child of the age of six to forteen years. (ii) Insure compulsory admission, attendance and completion of elementary education of every child of the age six to forteen years.
یعنی لازمی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ (۱) مفت الیمنٹری ایجوکیشن ہر بچہ کو دی جائے جس کی عمر چھ سال سے چودہ سال تک ہو۔ (۲) چھ سے چودہ سال کے ہر بچہ بچی کے اسکول میں داخلہ، حاضری اور الیمنٹری ایجوکیشن کی تکمیل کو یقینی بنائے۔
یہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ چودہ سال کی عمر تک بچہ بچی کا حکومت کے اسکول میں داخلہ لازمی ہے، اور ایسا کرنا ہر جوابدہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے اساتذہ اور والدین اگر کل وقتی الیمنٹری ایجوکیشن نہ دیں تو وہ بھی حکومت کی ذمہ داری نبھانے میں رکاوٹ بننے والے (یعنی مجرم) ہوں گے، اور جو ادارہ کل وقتی مکمل الیمنٹری ایجوکیشن نہیں دے گا، وہ ادارہ بھی مجرم ہوگا۔ اسی طرح وہ تعلیمی ادارے بھی مجرم ہوں گے، جو حکومت کے طور طریقوں کے مطابق تعلیم نہ دیں یا حکومت کے بنائے ہوئے تعلیمی اور تعمیری ضابطوں کو پورا کرکے حکومت سے تعلیم دینے کی اجازت حاصل نہ کرلیں۔
17. (5) Any person who establishes or runs a school without obtaining certificate of recognistion, or contunes to run a school after withdrawal of recognition, shall be liable to fine which may extend to one lakh rupees and in case of continuing, contravention to a fine of ten thousand rupees for each day during which such contravention contunes.
(وہ شخص جو اسکول کی منظور کا سرٹیفکیٹ حاصل کئے بغیر اسکول چلاتا ہے، یا منظور شدہ اسکول کی منظوری کے رد ہونے کے باوجود اسکول چلاتا ہے، اسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا، اور سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی شکل میں روزانہ دس ہزار روپے جرمانہ کی رقم ادا کرنی ہوگی)
مدارس اور پرائیویٹ اسکول
اب ذرا سوچیں، چھ سے چودہ سال کے نوعمروں کے لیے ”تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش“ صرف حکومت کے قائم کیے ہوئے یا منظور کیے ہوئے اسکول میں ہے۔ ان اسکولوں کے سوا متعلق عمر کے بچوں کے لیے نہ کوئی اسکول ہے، نہ تعلیمی ادارہ، نہ مدرسہ، نہ مکتب، نہ پاٹھ شالہ، نہ گروکل اور قانون صاف کہتا ہے کہ اگر اس متعین عمر والے کو کسی نے پڑھایا تو وہ مجرم ہے۔ اس لیے اس قانون کے بعد مدارس یا پاٹھ شالاؤں کا وجود ”خلاف قانون“ ہے، اس ایکٹ کی دفعہ ۸ میں ہے:
No school to be established without obtaining certificate of recognition.
(یعنی منظوری کا سرٹیفکیٹ حاصل کئے بغیر کوئی بھی اسکول قائم نہیں کیا جاسکتا!)
اسی دفعہ کی پانچ ذیلی دفعات ہیں۔ جن میں اوپر لکھے قانون کی مزید صراحت، وضاحت کے ساتھ قانون شکنی کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ میں واضح کیا گیا ہے:
No school, other than school established, owned or controlled by the appropriate Government or the local authority, shall, after the commencement of this Act, be established or function, without obtaining a certificate of recognition from such authority, by making an application in such form and manner, as may be prescribed.
(متعلقہ حکومت یالوکل اتھارٹی کے قائم کردہ یا زیرِ انتظام اسکولوں کے سوا کوئی اسکول، اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد، نہ قائم کیا جاسکتا ہے نہ کام کرسکتا ہے، جب تک کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ طریقہ پر اور فارم کے ذریعہ درخواست دے کر متعلقہ اتھارٹی سے ’منظوری‘ کی سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرلے)
قانون کے یہ الفاظ وضاحت کررہے ہیں، کہ چھ سے چودہ سال کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی بھی ادارہ نہ قائم کیا جاسکتا ہے اور نہ چلایا جاسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ حکومت کے طریقہ کے مطابق کام نہ کرے، اور ایسے ادارہ کے چلانے کی باقاعدہ منظوری حاصل نہ کرلے۔ ظاہر ہے کہ اس قانون کے تحت مدارس کے چلانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بات صرف مدارس کی ہی نہیں، جو لوگ اسکول چلارہے ہیں، اور حکومت کے پسندیدہ نصاب پڑھا رہے ہیں، اگر تعلیمی اور تعمیری اصول اور ضابطے پورا نہیں کرتے، تو انھیں بھی تین برسوں میں سارے ضابطوں کو اپنانا ہوگا، ورنہ وہ تیار ہوجائیں ایک لاکھ جرمانہ دینے کے لیے! اور جرمانہ کی ادائیگی کے بعد بھی اسکول بند کرنا ہوگا، اگر ایسے اسکول نارمس (Norms) کو پورا نہیں کرتے!
لازمی حق تعلیم ایکٹ اور دستور ہند کی بنیادی دفعہ ۰۳
دستور ہند کی دفعہ ۰۳ ملک میں آباد اقلیتوں کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے بنائیں اور چلائیں۔ ”یہ بنیادی حق“ دستورِ ہند نے اس لیے دیا کہ وطن عزیز کی مذہبی، تہذیبی اور لسانی اقلیتیں اپنے مذہبی، تہذیبی، لسانی تحفظات کے ساتھ ہندوستان کا ’مطمئن حصّہ‘ بنی رہیں۔ اس ”بنیادی حق“ کے موجود ہوتے ہوئے، اقلیتی اداروں کے بنانے اور چلانے میں اقلیتوں کو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے تھی، مگر حکومتوں نے آزادی کے بعد ادارہ قائم کرنا مشکل ترین کام بنا دیا اور پوری آدھی صدی یہ صورتحال قائم رہی، اور دستورِ ہند کی بنیادی حق کی دفعہ بے چارگی کے ساتھ حاشیہ پر کھڑی رہی۔ حکومتوں نے اسکول قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ NOC کی شرط لگادی، پھر یہ شرط بھی بڑھا دی کہ ’اقلیتی ادارہ‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ حکومت دے گی، یہ دونوں حکومتی احکام دستورِ ہند کی بنیادی حق کی دفعہ ۰۳ سے ٹکرا رہی تھیں، مگر پچپن سال سے زیادہ عرصہ تک اقلیتوں کے ادارہ قائم کرنے میں رکاوٹیں آتی رہیں۔
صرف NOC حاصل کرنے کے لیے اقلیتی اداروں کو کیا دشواری پیش آتی رہی، اس کی مثالیں ملک کے اکثر صوبہ میں موجود رہی ہیں، میرے علم میں ایسے ادارے ہیں، جو تیس سال تک NOC حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے، اور ہمیشہ ناکامی سے واسطہ پڑتا رہا، بعض اداروں کو NOC اسی وقت ملا، جب بہار لجسلیٹو کانسل کے ڈپٹی چیئرمین نے تعلیمی شعبہ کے ذمہ داروں کو پھٹکارلگائی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ’اقلیتی ادارہ‘ ڈکلیئر کرنے کا ہے، سیدھی بات ہے کہ حکومت قانون بنا دیتی یا سرکلر جاری کردیتی کہ اقلیتی ادارہ کی یہ شرطیں یا یہ خصوصیات ہوں گی، مگر حکومت (خواہ وہ صوبوں کی ہو یا مرکز کی) نے ایسا نہیں کیا، آزاد ہندوستان کے تعلیمی نظام کا درد ناک رُخ یہ بھی رہا ہے کہ اقلیتی ادارہ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے اقلیتی اداروں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے برسوں چکر لگانے پڑے ہیں۔
حکومت کی اس طرح کی شرارتوں سے برسہا برس اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو واسطہ رہا ہے۔ ادارہ مسلمان بنائیں، مگر یہ ہے ”اقلیتی ادارہ“ اس کا سرٹیفکیٹ حکومت جاری کرے، یہ عجیب سی بات! یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے حکومت یہ قانون بنادے کہ بچہ کا نسب اسی وقت ثابت ہوگا جب ہاسپیٹل سپرینٹنڈنٹ ڈکلیئر کردے کہ یہ فلاں کا بچہ ہے۔ آج تک پارلیمنٹ یا قانون ساز اداروں نے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جس کے ذریعہ NOC اور اقلیتی ادارہ کی شرطیں متعین ہوں، مسلمانوں اور اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو پریشان کرنے کا کام پچپن سال تک کسی رخنہ اندازی کے بغیر جاری رہا، اب مائینوریٹی ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن کمیشن کی وجہ سے اقلیتوں نے ذرا اطمینان کی سانس لی ہے، تو یہ تازہ ایکٹ آگیا۔ اس ایکٹ میں یہ شرط لگادی گئی ہے کہ کوئی بھی اسکول منظوری (Recognition) کے بغیر نہیں کھولا جاسکتا۔ ایکٹ میں ہے:
18. (1) No school, other than a school established, owned or controlled by the appropriate Government or the local authority, shall, after the comencement of this Act, be established or function, without obtaining a certificate or recognition from such authority, by making on application in such form and manner, as may be prescribed.
اس دفعہ اور اس ایکٹ سے حوصلہ پاکر صوبائی حکومتیں پہلے تو ریکوگنیشن کی شرطیں متعین کرنے میں برسوں برس لگادیں گی اور جب شرطیں طے پائیں گی، تو وہ کچھ اس طرح ہوں گی۔
For obtaining recognition, every school must have……. acre of land…… required Pucca building with……. SFT carpet area and full streignth of students, teachers and staff.
اس طرز کی چیزیں Recognition کے لیے ضروری ہوں گی، بظاہر یہ قابلِ اعتراض چیزیں نہیں ہیں مگر ذرا سوچیں اسکول کی آٹھویں جماعت تک کی منظوری (Recognition) اگر حکومت سے حاصل کرنا ہے تو آٹھویں تک کے معیار کی زمین، عمارت، اساتذہ، اسٹاف اور طلبہ جمع کیے جائیں گے، تب ہی انسپکٹر یا سپرینٹنڈنٹ آف ایجوکیشن OK رپورٹ آگے بڑھائیں گے، پھر دفتری ”آداب و شرائط“ کے مطابق منظوری کا پروانہ جاری ہوگا، لیکن انسپکشن کے وقت ذمہ دار افسر نے اگر پوچھ لیا، کہ ان طلبہ کو آپ نے جمع کیوں کر رکھا ہے، اور اسکول والے نے کہہ دیا کہ ”تعلیم کے لیے“ تو یقین مانئے اس ایکٹ کی دفعات کے تحت اس غیر منظور شدہ اسکول کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ سرکاری عملہ کی بدنیتی سے اقلیتی اداروں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے!
اگر کوئی ادارہ پانچویں جماعت تک اسکول کھولنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ ۰۳ کے تحت اسکول کھولے، تو Appropriate Government کے نمائندے اس کی اجازت نہیں دیں گے، کہ وہ ’اسکول‘ قائم کریں، وجہ یہ ہوگی، کہ بچوں کے مفت حق تعلیم کے قانون کے تحت وہ الیمنٹری ایجوکیشن کی ہی اجازت دے سکتے ہیں، یعنی جب منظوری دی جائے گی، تو پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک کی! عملاً اس طرح کی شکلیں پیدا ہوتی رہیں گی، اور خاص طور پر اقلیتیں شکار ہوتی رہیں گی، قانون سازوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف NOC لینا ہی جب اقلیتی اداروں کے لیے لمبے عرصہ تک نہایت مشکل مرحلہ رہا ہے، تو Recognition تو زیادہ ہی مشکل ثابت ہوگی۔
تازہ ایکٹ اور اقلیتی ادارے
اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام کی اجازت آئین ہند نے دی ہے، جس کا مقصد ’اپنی پسند کے ادارے کھولنا اور چلانا ہے۔‘ یہ تازہ ایکٹ اقلیتی تعلیمی اداروں کو پابند بناتا ہے کہ: دفعہ ۳ (۱) ”چھ سال سے لے کر چودہ سال تک کی عمر کے بچہ کو اپنے قریبی اسکول میں مفت اور لازمی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ الیمنٹری ایجوکیشن مکمل کرلے۔“اس دفعہ کے نتائج یہ ہوں گے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں میں ”قریب کے پچیس فیصد طلبہ“ اپنے قانونی حق کے تحت داخل ہوں گے، اور آئین ہند کی دفعہ ۰۳ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
تازہ ایکٹ میں دفعہ ۲۱ (سی) موجود ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کمزور طبقات کے پچیس فیصد بچے اسکول میں داخل ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی دفعہ میں یہ بھی صراحت ہے کہ پہلی جماعت سے قبل پری اسکول میں بھی پچیس فیصد بچے اسی طبقہ کے ہوں گے۔ ایکٹ کی دفعہ ۲۱ عام ہے جس میں ایسے اقلیتی تعلیمی ادارے بھی شامل ہوں گے، جو الیمنٹری ایجوکیشن دیتے ہیں، اور ان پر بھی یہ پابندی رہے گی، وہ کمزور طبقات کے پچیس فیصد بچوں کو داخل کریں۔ یہ دفعہ بھی آئین ہند کی بنیادی حق کی دفعہ کو نظر انداز کرکے بنائی گئی ہے!
قومی نصاب تعلیم
تازہ ایکٹ میں قومی ’نصابِ تعلیم‘ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، (باب ۳ دفعہ ۷ ذیلی دفعہ ۶ (اے) یہ دفعہ آئین ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات ۶۲-۹۲-۰۳ کو نظر انداز کرکے بنائی گئی ہے، اس طرح مذہبی تعلیمی ادارے، لسانی تعلیمی ادارے، اور اقلیتی تعلیمی ادارے کی راہ میں مذکورہ بالا دفعہ رکاوٹ بنے گی، آئین ہند کی دفعات ۶۲-۹۲-۰۳ (بنیادی حقوق) کو اسی لیے رکھا گیا ہے، تاکہ اقلیتیں ’اپنا نصابِ تعلیم‘ پڑھا سکیں یا حکومت کے متعین کردہ نصابِ تعلیم میں مناسب تبدیلی کے ساتھ تعلیم دے سکیں، مگر قومی نصابِ تعلیم کے نفاذ کے بعد اقلیتی اداروں کی یہ خصوصیت پورے طور پر ختم ہوجائے گی، یہ بھی واقعہ ہے کہ ہر ایک صوبہ، صوبائی ضرورتوں اور صوبہ کی تاریخی، جغرافیائی اور سماجی حالات کے پیشِ نظر نصابِ تعلیم کی کتابیں مرتب کراتا ہے، اور طالب علم اپنے صوبہ کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرتا ہے، یہ ہر صوبہ کی فطری طلب ہے۔ قومی نصابِ تعلیم آگے چل کر صوبائی تشدد کو بڑھانے والا ثابت ہوگا۔
ذریعہئ تعلیم
ایکٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بچوں کو مادری زبان میں پڑھایا جائے گا، یہ خوش آئندہ بات ہے ماہرین تعلیم کا بڑی حد تک اتفاق ہے، کہ مادری زبان میں بچوں کی تعلیم ہونی چاہیے۔ ایکٹ کے الفاظ ہیں:
2. (f) Medium of instruction shall, as for as practicable, be in childs mothertongue
(یعنی جہاں تک قابلِ عمل ہو پڑھائی بچوں کی مادری زبان میں ہی ہوگی)
ایکٹ میں یہ وضاحت اچھی بات ہے سہ لسانی فارمولہ کے نام اُردو کو یوپی سے ختم کردیا گیا ہے، دوسرے صوبے جہاں اُردو بولی اور جاتی تھی اس کا حال خراب ہوگیا ہے، مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام پورے ملک میں چلنے والے سنٹرل اسکول، سینک اسکول میں اُردو میں تعلیم کا نظم نہیں ہے، مرکزی حکومت کے قائم کردہ رہائشی اسکول نوودے ودیالیہ کا بھی کم و بیش یہی حال ہے اس لیے بچوں کو علم حاصل کرنے کا حق دینے کے ساتھ ”مادری زبان میں علم حاصل کرنے کا حق“ بھی قانون میں ہوتا، اُردو اور دوسری حاشیہ سے لگی زبانوں کو وطن عریز میں زندہ رہنے کا موقعہ مل جاتا۔
فاشزم کی شروعات
اس قومی نصابِ تعلیم کا نفاذ جتنا اچھا سمجھا جائے، حقیقت ہے کہ یہ طریقہ کار فاشزم کی پہلی اینٹ ہے۔ مشہور فلسفی Karl Papper نے Opensociety and its enemies اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، ہر شریف جمہوریت میں والدین کا یہ حق ہے کہ وہ بچوں کو اپنے طرز کی تعلیم دیں، چھ سے چودہ سال کے بچوں کو ایک نصاب کا پابند بنا دیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ”بچوں کی مٹّی“ جیسی بھی ہو، وہ ایک سانچہ میں ڈھل کر نکلیں گے، اس طرح نہ صرف بچوں سے بچپن چھین جائے گا۔ بلکہ ان کے مزاج، احساسات، رجحانات ان کی تہذیب اور طور طریقوں کے خلاف بھی تعلیم ہوسکتی ہے، یہ بچوں کے حق میں بُرا ہوگا، اور ان کے والدین کی بھی حق تلفی ہوگی۔
قومی نصابِ تعلیم یا یکساں نظام تعلیم کا مطلب بچوں کو ایک خاص ڈھانچہ میں باندھ دینا ہے۔ اور ان سے اور ان کے والدین سے متبادل سسٹم Ulternative System اور پسند کے ادارے میں پڑھانے کا حق ختم کرنا ہے، یہ سوچ کسی پرانے کمیونسٹ کی ہوسکتی ہے، یا پھر آر ایس ایس کے نمائندوں کی، نہ معلوم یہ اندازِ فکر وزارت فروغ انسانی وسائل نے کیوں اپنالیا۔ وطن عزیز کے نونہالوں کے لیے ’پسند کے ادارے‘ ہونے چاہئیں، تاکہ وہ یا ان کے سرپرست ضرورت محسوس کریں، تو متبادل ان کے لیے موجودہ ہو۔
معیارِ تعلیم
اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد ”چھ سے چودہ سال کے ہر بچہ کو اپنے پڑوسی اسکول میں مفت اور لازمی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، یہاں تک کہ وہ الیمنٹری ایجوکیشن مکمل کرے“ اسکول میں داخل کسی بھی بچہ کو (کلاس کی ترقی سے) روکا نہیں جاسکتا اور نہ اسے اسکول سے نکالا جاسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ الیمنٹری ایجوکیشن مکمل نہیں کرلیتا۔ ان دونوں دفعات پر غور کیجیے اور مزید وضاحت کیلئے ایکٹ کی دفعہ ۰۳ بھی پڑھ لیجیے:
No child shall be required to pass any Board examination till completion of elementary education.
(یعنی الیمنٹری ایجوکیشن کی تکمیل تک بچوں کو کسی بورڈ امتحان کو پاس کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی) یعنی بچے پڑھیں یا نہ پڑھیں، صلاحیت جیسی بھی ہو، طور طریقے جیسے کچھ ہوں، بچوں کو اسکول میں داخلہ لینا ہے۔ وہ درجوں میں حاضر ہورہے ہیں یا نہیں؟ اسے دیکھنا صوبائی حکومت اور لوکل اتھارٹی کی ذمہ داری ہے۔ ”بچوں کا پڑھنا“ استاد کی ذمہ داری ہے، طالب علم کا کام بغیر امتحان دیئے عمر مکمل کرکے آٹھویں کلاس کی ڈگری لے لینا ہے۔ بیشک یہ بڑی ’انقلابی سوچ‘ ہے۔ اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ ملک کے سامنے ڈراپ آؤٹس (درمیان میں تعلیم چھوڑدینے والے) بہت بڑا مسئلہ ہیں اور اسی وجہ سے عام لوگوں تک تعلیم نہیں پہنچ رہی ہے۔ اگر حکومت جان توڑ کوشش کرتی بھی ہے تو بچے اسکول سے ناراض ہوجاتے ہیں اور ’ڈراپ آؤٹ‘ ہوجاتے ہیں۔ ان کی، ان کے والدین اور اُن کے سرپرستوں کی سوچ یہ ہے کہ جب حکومت نوکری نہیں دیتی تو پڑھنے کا فائدہ کیا؟ اس سے بہتر ہے جاہل رہنا، آزادی رہے گی، کوئی بھی کام کرلیں گے۔ حکومت نے اس تازہ حق تعلیم ایکٹ کے ذریعہ یہ حل نکالا کہ بچے پڑھیں نہ پڑھیں اُنھیں آٹھویں پاس کی ڈگری دے کر چھوڑیں گے۔ حکومت کی اس شفقت مادری سے کیسے ذی صلاحیت پڑھے لکھے آٹھویں پاس بچے تیار ہوں گے، اس پر اظہارِ رائے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
اسے یاد دلانا بھی مناسب ہے کہ اب آٹھویں جماعت تک ہی امتحان ختم نہیں کیا گیا، بلکہ گیارہویں کلاس تک بورڈ امتحان کا معاملہ ختم ہورہا ہے، یا ہوچکا ہے۔ جب بغیر امتحان دیئے طلبہ گیارہویں پاس ہوکر بارہویں میں پہنچیں گے تو انھیں زندگی میں پہلی بار باقاعدہ امتحان سے واسطہ پڑے گا اور امتحان ہال کا سماں انھیں نظر آئے گا، کتنے امتحان کے نتیجہ میں کامیاب ہوں گے اور کتنے اعلیٰ تعلیم کے اہلِ قرار پائیں گے آسانی کے ساتھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے! امتحان اور بار بار امتحان کے ذریعہ طلبہ میں مقابلہ اور محنت کا جو جذبہ اُبھرتا ہے اور امتحان کے نتائج کے سہارے اپنی صلاحیت کو ناپنے کا جو موقعہ ہاتھ آتا ہے اس جدید ترین نظام تعلیم کے نفاذ کے بعد وہ سارے مواقع ختم ہوجائیں گے اور انگوٹھا چھاپ ڈگری ہولڈر کی بھرمار ہوگی نئے ہندوستان کی تعمیر کے علم سے ناواقف، آنے والے برسوں کے جوان، ملک کے لیے بوجھ بن جائیں گے اور مقابلہ کے عالمی میدان میں یہ دو کوڑی کے نہیں ہوں گے۔
طالب علموں کو ہراساں نہیں کرسکتے
اس ایکٹ میں یہ صراحت بھی دفعہ ۷۱ میں کردی گئی ہے کہ بچہ کچھ کرے، استاد یا پرنسپل سزا نہیں دے سکتا اور نہ انھیں ذہنی اذیت پہنچا سکتا ہے۔
No child shall be subjected to physical punishment or mental harasment.
”ذہنی اذیت“ کا لفظ مفہوم کے لحاظ سے غیر متعین ہے۔ اگر استاد نے کسی طالب علم سے پوچھ لیا کہ تم نے ہوم ورک کیوں نہیں بنایا۔ یا کل تم کلاس میں کیوں نہیں آئے تو طالب علم اس سوال کو بھی ”ذہنی اذیت“ کہہ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں استاد کے لیے مشکل پیش آسکتی ہے۔ اور وہ قانون کی گرفت میں آسکتا ہے۔
اس قانون کی دوسری شق میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی استاد پرنسپل نے طالب علم کو ٹوک ٹاک کی جسارت کرلی تو ڈسپلیزی ایکشن لیا جائے گا۔
پڑوسی اسکول
اس ایکٹ میں بار بار Neighbourhood school کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اصطلاح USA سے برآمد کی گئی ہے۔ قانون سازی کی ڈکشنری میں یہ لفظ نہیں ملتا۔ اس لفظ کا متبادل ’پڑوسی اسکول‘ ہے۔ پڑوسی اسکول کے دائرہ میں کون کون سے اسکول آئیں گے۔ ایکٹ میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ پڑوسی اسکول وہ بھی ہوسکتا ہے جو دستورِ ہند کی دفعہ ۰۳ کے تحت چل رہا ہو، وہ اسکول بھی ہوسکتا ہے جہاں داخلہ کے لیے پہلے اسکریننگ اور تحریری امتحان کا رواج ہو، وہ اسکول بھی ہوسکتا ہے جہاں داخلہ کے لیے ۰۸ فیصدی نمبرات کی شرط لگی ہوئی ہو، اس ایکٹ کے تحت ایسے اسکول بھی پڑوسی اسکول کے زمرہ میں آسکتے ہیں جس کے نتیجہ ان معیاری تعلیم گاہوں میں بھی ۵۲ فیصد پڑوسیوں کو داخل کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سرکاری اسکول میں تو بے پڑھے لکھے آٹھویں پاس تیار ہوں گے ہی معیاری اسکول کا ایکسلینس بھی مٹّی میں مل جائے گا۔
صحت اور جسمانی تعلیم
اسکول کا معیار اور نارمس کی تفصیل ایکٹ کے شیڈول میں دی گئی ہے۔ جس میں Health and Physical Education بھی شامل ہے۔ اس ایکٹ کی کئی اصطلاح امریکن سسٹم آف ایجوکیشن سے لی گئی ہیں۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں جسمانی تعلیم اور صحت کو جہاں استعمال کیا جاتا ہے اس میں صحت، حفظانِ صحت، چاق و چوبند رہنے کے سارے ذرائع اور وسائل شامل ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان ملکوں میں لڑکے اور لڑکیاں دیر تک تیرتے ہیں۔ پھر بے دروازہ غسل خانوں میں لباس کے بغیر غسل کرتے ہیں۔ اس طریق کار کا طلبہ کے مزاج اور اخلاق پر جو اثر پڑے گا، اور ہندوستان کی تہذیب اور روایات جس طرح متاثر ہوگی اس کا سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
مغربی ممالک میں صحت کے زمرہ میں سیکس ایجوکیشن بھی آتا ہے۔ اور اس کا اہتمام اس طور پر ہے کہ با تصویر کتابیں بچوں کو دی جاتی ہیں جو نصابِ تعلیم کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر ’صحت کی تعلیم‘ میں سیکس ایجوکیشن بھی شامل کیا جانے والا ہے تو اس کے جیسے کچھ اثرات بچوں کے اخلاق، صحت اور سماج پر ہوں گے، وہ واضح ہیں۔ مغربی معاشرہ کی جو اخلاقی حالت ہے۔ وہاں جنسی انارکی کا جیسا کچھ سماج تیار ہوا ہے، اور صحت پر جو خطرناک اثرات پڑے ہیں اس ’تعلیم‘ کے نتیجہ میں وہی چیزیں ہندستان میں بھی ہوں گی۔
اسکول انتظامیہ
ایکٹ میں اسکول کی انتظامیہ کا ڈھانچہ بھی واضح کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ میں تین چوتھائی والدین یا گارجین ہوں گے، جن میں پچاس فیصد عورتیں ہوں گی۔ ملک کے کئی صوبوں میں کچھ اسی طرز پر اسکول کی کمیٹی کام کررہی ہے ان کمیٹیوں کے کارگزار ہونے کے بعد اسکول کی تعلیم کہاں تک بہتر ہوئی ہے۔ اس کا جائزہ اب تک نہیں لیا گیا ہے۔ ایکٹ کا یہ حصہ بہتر جائزہ کا محتاج ہے۔ ایکٹ کا یہ حصہ دستورِ ہند کی دفعہ ۹۲-۰۳ سے ٹکراتا ہے۔ اور لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو دستور میں دیئے گئے بنیادی تحفظات کے خلاف ہے۔
ضرورت ہے کہ ایکٹ میں ایسی ترمیم ہو جس کے ذریعہ مدارس کی تعلیم اور تشخص برقرار رہے۔ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو آئین ہند میں جو تحفظات فراہم کئے گئے ہیں تازہ ایکٹ ان سے ہم آہنگ ہو، تعلیم کا معیار بلند ہوسکے اور یہ ایکٹ ہندستان کی تہذیبی روایات، اخلاق اور کردار کے مطابق ہو۔qq

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close