مضامین

بدلتے حالات اور موجودہ بھارت کے تقاضے

عبدالحمید نعمانی

زمانے کا تغیر، اصل میں ثبات ہے، اس کی طرف اقبال نے بھی اشارہ کیا ہے، اگر تغیر پذیر زمانے کا لحاظ کرتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے پر توجہ نہیں دی جائے گی تو زمانے کے بھاگتے لمحات راہ میں آنے والوں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے، اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر کام نہیں کیا جائے گا تو خلاف توقع و طبع نتائج و اثرات کا سامنا کرنا ہوگا ،یہ ، اس کا مشاہدہ موجودہ بھارت میں خاص طور سے اور عالمی سطح پر عمومی طور پر کھلی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے، مشرق وسطی میں ابتداء میں اسرائیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو نتیجہ سب کے سامنے ہے، بھارت میں فرقہ پرستی پر مبنی جارحانہ و منفی راشٹر واد کے نام پر ہندوتو اور ہندو راشٹر کے نظریہ و تحریک کو بھی سیاسی، غیر سیاسی پارٹیوں، جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اس کے باوجود کہ یہ ہندوتو وادی عناصر تہذیبی راشٹر واد کے تحت، برٹش سامراج سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جاری تحریکوں سے الگ رہے، سیاسی پارٹیوں اور سماجی تہذیبی تنظیموں نے مختلف سطحوں پر جاری ہندوتو کی سرگرمیوں/تحریکوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے، آنے والے دنوں میں مرتب ہونے والے بد اثرات پر قدغن لگانے پر مطلوبہ توجہ دے کر موثر کام نہیں کیا اور نہ ہندستانی عوام کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بہتر کوششیں کیں، کانگریس، کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی جڑ میں جا کر بدلتے حالات اور بھارت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، یہی کچھ حالت مذہبی، نیم مذہبی و سماجی تنظیموں کی رہی ہے،انھوں نے فرقہ پرست عناصر طرف سے مذہبی علائم و شخصیات کے بنیادی کردار کو بدل کر ان کے غلط سیاسی استعمال کے وسیع ہوتے دائرے کو روکنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، زبانی و تحریری طور سے تاریخ سازی اور من مانے متضاد تعبیرات کے خلاف متحدہ مزاحمت نہیں کی، اس میں مسلم، غیر مسلم نام والی دونوں قسم کی پارٹیاں جماعتیں اور تنظیمیں شامل ہیں، بدلتے حالات اور فرقہ پرستی کے بڑھتے اثرات پر توجہ مبذول کرانے کو غیر ضروری حساسیت قرار دے کر توجہ دلانے والوں کے کام اور بات کو غیر اہم بنانے کا کام کیا گیا، جب کہ ملک میں کیے کرائے جانے والے بھیانک فرقہ وارانہ فسادات اور بابری مسجد کی جگہ، رام مندر ہونے اور بنانے کے نام پر، مختلف عنوانات سے جاری تحریکوں اور سرگرمیوں کا ایک تسلسل رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح مفروضات اور من گھڑت اور غیر متعلق کہانیوں کو تاریخ اور حقیقت کی شکل دے کر پورے ہندستانی سماج کو اس کے زیر اثر لانے کی کوششیں اور زور زبردستی کی جاری ہے، اس کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ اتحاد پسند، محب وطن ہندستانی خصوصا محنت کش طبقات، اقلیتیں، آدی واسی، دلت، جمہوری سیکولر بھارت کو بچانے اور اس کے اصل کردار کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، اس کی طرف ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے بیانات اور تحریروں میں متوجہ کیا ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ دلت، محنت کش اور کھلے ذہن کے سیکولر اہل فکر و علم ،غلط طور سے بھارت کو بدل کر ایک مخصوص سمت میں لے جانے کی کوششوں کے خلاف، اپنی استطاعت کے مطابق زبردست علمی و تصنیفی مزاحمت کرتےرہےہیں، گرچہ انھیں کئی طرح کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے تاہم وہ مختلف سطحوں پر مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کا اندازہ دہلی میں منعقد حالیہ عالمی کتاب میلے سے بھی ہوتا ہے، دائیں بازو کے مصنفین اور اہل قلم و صحافت با وسائل ہونے کے سبب، حالات کو اپنے حق میں کرنے کے جذبے کے تحت اپنے رنگ میں رنگنے میں بہ ظاہر زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں، ان کو پرچار کے مواقع اور مین اسٹریم میڈیا میں زیادہ جگہیں بھی مل رہی ہیں، اقلیتوں، مسلم، سکھ، عیسائی، دلت، آدی واسی نمائندوں کو عملا تقریبا آؤٹ کر دیا گیا ہے، تھوڑے بہت شریک نمائندوں کو صحیح سے بات رکھنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے، آدی واسی نمائندے تو پوری طرح آؤٹ کر دیے گئے ہیں، لیکن دائیں بازو والوں کے تہذیبی و نظریاتی رویے اور بنیادیں زیادہ مستحکم و معقول نہیں ہیں، دلت اہل علم و تصنیف نے برہمن واد اور کہانیوں کے ذریعے تاریخ سازی کے خلاف خاصا بڑا لٹریچر تیار کر دیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جس میں سماجی برابری، انصاف اور معاشرتی اونچ نیچ کے فکر و عمل پر خاصا مواد ہے، اس نے دائیں بازو کے مصنفین اور نمائندوں کو ماضی کی روایات اور بنیادی متون اور ترجمے و تشریحات میں ترامیم و تحریفات سے کام لینے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن انسانی سماج کی فطرت و ضرورت، خالق و رب کائنات اور دھرم کے وسیع تر تصورات جو دنیا و آخرت کا احاطہ کرلیں کے سلسلے میں بڑا خلا۶ ہے اس خلا۶ کو پر کرنے اور عظمت الہہ اور توقیر انسانیت کے اعلی ترین تصورات، پیش کرنے کی صلاحیت ، صرف اسلام اور اس کی داعی و حامل ،امت میں ہے، محفوظ و مکمل قرآن اور اسوہ پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دیگر اقوام کے پاس نہیں ہے، اسلام اور پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماقبل کے تمام داعیان حق کے ثابت فکر و کردار اور حقائق و شواہد کی تردید و تغلیط کے بجائے ان کی حفاظت و نگرانی کا فریضہ انجام دیا ہے، صرف مختلف ادوار میں در آئیں تحریفات اور مسخ کردہ تعلیمات میں اصلاح کر کے اصل باتوں کو انسانی سماج کے سامنے رکھنے کا کام کیا ہے، اس کی رہنمائی و روشنی میں اصل یہودیت، عیسائیت اور ہندستانی روایات و افکار کو بہتر طور سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، اس حوالے سے بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کا رول ناقابل فراموش ہے، رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی معروف کتاب، سنسکرتی کے چار ادھیائے میں ملک کی تہذیب و روایات کی کتاب کا ایک نمایاں باب کے کے طور پر اسلام مسلمانوں کو پیش کیا ہے، دیگر رہ گئیں باتوں اور پہلوؤں کو مہا پنڈت راہل سنسکرتیان اور ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب، درشن دگ درشن اور اسلام کا ہندستانی تہذیب پر اثر میں پیش کر کے بڑی حد تک پوری اور بہتر تصویر ملک کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے، اس سے دائیں بازو کے عناصر بڑی دقت محسوس کرتے رہے ہیں، 2014 سے اس میں حد سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، یہ دقت گزرتے دنوں کے ساتھ نفرت و تنگ نظری میں بدل چکی ہے، بھارت کی اصل روایات میں تمام تر طریق بندگی کو قبول کیا گیا ہے، اس کے برخلاف گزشتہ چند برسوں میں صورت حال بڑی حد تک بدل چکی ہے، اصل ہندستانی روایات و تہذیب کے برعکس، نماز، اذان وغیرہ کو لے کر ایک بڑے طبقے میں نفرت و تنگ نظری بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، اسی کا نمونہ نمازیوں پر حملے اور پولیس انتظامیہ کی طرف سے بربریت و زیادتی ہے، اور اسی کا حصہ اسلامی اور مسلم شناخت والے معابد و ماثر کے خلاف سرگرمیاں ہیں، ان کے توڑ کے لیے کچھ موثر طریقے اختیار کرنے ہوں گے، اس سلسلے میں رجال کار کی تیاری کے ساتھ میڈیا میں موثر نمائندگی ، تاریخی حقائق کو سامنے لانے اور بنیادی ماخذ کی اشاعت و جمع کرنے کے کام، ترجیحات کی بنیاد پر کرنے ہوں گے، کانفرنسوں، اجلاسوں میں ایک دو کم کر کے اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو مذکورہ کاموں پر صرف کرنے سے آنے والے دنوں میں بہتر نتائج و اثرات برآمد و مرتب ہوں گے، بدلتے حالات اور موجودہ بھارت کے تقاضوں کے پیش نظر، ماضی اور سابقہ روایات میں تھوڑی بہتر اور حالات کے موافق تبدیلی و عمل کی ضرورت، شدت سے محسوس ہوتی ہے، ہمارے یہاں اہل افراد کی کمی نہیں ہے، بس ان کو تیار کرکے میدان کار میں لانے کی ضرورت ہے، ایسا بہتر طور سے باوسائل تنظیمیں اور ادارے کر سکتے ہیں،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close