مضامین

غامدی فکر کی بنیادی گمراہی

از: مولانا یحییٰ نعمانی، لکھنؤ

گزشتہ تقریباً بیس سال سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار کا ذرائع ابلاغ میں چرچا خاصا سرگرمی سے جاری ہے۔ یہ عاجز ان کی چیزیں اس وقت سے پڑھتا اور دیکھتا آیا ہے، جب غالباً ہندوستان میں ان کو معدودے چند لوگ جانتے تھے۔ ان کا رسالہ ’’اشراق‘‘، ’’الفرقان‘‘ میں آتا تھا اور کم از کم ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۸ء تک نظر سے گزرتا رہا۔ وہ اپنی نسبت محترم مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی طرف کرتے ہیں ، میں ان کی چیزیں پڑھ کر محسوس کرتاتھا کہ مولانا مرحوم نے حد رجم کے سلسلے میں جس خطرناک جرأت اور شذوذ پر انتہا کی ہے،غامدی صاحب نے وہاں سے اپنا آغاز کیاہے۔

پھر انٹرنیٹ نے ان کے افکار کی تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع کردیا۔ ادھر کچھ عرصے سے ملک کے مختلف علاقوں میں لوگ ان کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ان کے لیکچرز سے کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی متاثر ہونے لگے ہیں ۔

مغربی تہذیب کے بین الاقوامی غلبے اور پھیلاؤ کی وجہ سے مسلمانوں میں ہرجگہ ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا ہے، جس کو اپنے مسلمان ہونے کے باوجود، اپنے خاص ماحول کے زیراثر علماء اور اہل دین سے ایک نفسیاتی الجھن اور ذہنی دوری ہے۔ ایسے لوگ ہر گمراہ کن تحریک ودعوت کے سب سے جلد شکار ہوجاتے ہیں ۔ تجربہ ہورہا ہے کہ یہی طبقہ غامدی صاحب سے متاثر ہورہا ہے۔

میں سوچتاتھا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر متعدی مرض وبا کی طرح پھیلتا ہے، یہ بھی اسی طرح پھیل رہا ہے؛ لیکن ابھی مورخہ ۱۳؍اپریل ۲۰۱۹ء کو معلوم ہوا کہ ان کے ادارے ’’المورد‘‘ کی بھارتی شاخ قائم ہوچکی ہے۔ جہاں سے ان کی کتابیں ، رسائل اور ویڈیو لیکچرز وغیرہ کی نشرواشاعت کاکام ہورہا ہے۔

اب مجھے اپنی دینی ذمے داری محسوس ہوئی کہ ان کے فکر کی بنیادی گمراہی کو واضح طور پر پیش کیا جائے؛ تاکہ ان کی چیزیں سننے اور پڑھنے والا واقف ہو کہ اُن کے افکار کی اصل بنیاد کس غلط فکری پر ہے اور ان کی آراء کیوں دین کی صحیح بنیادوں سے ہٹی ہوئی ہیں ۔

================

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گمراہی اور اہل سنت واہل حق سے ان کا اصل انحراف کوئی معمولی قسم کا نہیں ہے۔ افسوس کہ وہ مقام رسالت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک بنیادی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اہل ہی نہیں کہ اُن کے ذریعے (قرآن کے علاوہ) دین کا کوئی عقیدہ یا عمل انسانوں کو دیا جائے۔ وہ منصب رسالت کا یہ مقام تسلیم نہیں کرتے کہ وہ دین کا کوئی حکم قرآن کے علاوہ جاری کرے۔ ہاں مشرکین مکہ اور یہود ونصاریٰ میں جو دینی روایت جاری چلی آرہی تھی غامدی صاحب کے نزدیک رسول اس کو اصلاح وتجدید کے ساتھ جاری کرسکتا تھا؛ لیکن اللہ اپنے رسول کو اپنے بندوں کے لیے کوئی نیا اور مستقل حکم دے اور وہ دین اسلام کا کسی درجے کا بھی حصہ قرار پائے یہ نبی ورسول کا منصب ومقام نہیں ہے۔

ان کا نظریہ ہے کہ حدیث کے ذریعے دین کا کوئی نیا حکم ثابت نہیں ہوتا وہ واضح طور پر منکر حدیث ہیں ؛ البتہ ان کے انکار حدیث کی نوعیت مشہور عام منکرین حدیث سے قدرے مختلف اور نسبتاً کم درجے کی ہے۔ ان کے فکر کی شاید سب سے بنیادی کتاب ’’میزان‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی صراحت کے ساتھ اور کسی اشتباہ کے بغیر صاف واضح کیا ہے کہ حدیث دین کا ماخذ ہے ہی نہیں ۔ غامدی صاحب تحریر فرماتے ہیں :

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی جو روایتیں زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘

کیا اس جملے میں کسی ایسی تاویل وتوجیہ کی کوئی گنجائش ہے جس کے ذریعہ یہ کہا جاسکے کہ غامدی صاحب منکرحدیث نہیں ہیں ؟ اور پڑھیے اس جملے کے معاً بعد تحریر کرتے ہیں :

اس مضمون کی تمہید میں ہم نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔‘‘ (میزان، ص:۶۱، ایڈیشن ۲۰۱۴ء)

کیا اب بھی کوئی اشتباہ باقی رہ جاتا ہے؟

ہاں یہاں ایک چیز غور کرنے لائق ضرور ہے۔ مندرجہ بالا عبارت میں غامدی صاحب نے حدیث کے بارے میں یہ بات کہہ کر کہ حدیث کے ذخیرے کی زیادہ تر روایات اخبار آحاد ہیں ، غالباً یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ حدیث کو دین میں حجت نہیں مانتے اس کا سبب ان کا خبر واحد ہونا ہے۔ اس طرح ان کے موقف کا شذوذ واجنبیت اور عام مسلمانوں کے لیے اس سے وحشت کم ہوجائے گی؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عبارت میں اخبار آحاد کا لاحقہ بس ایک ’’شیئِ زائد‘‘ ہے۔ غامدی صاحب کے یہاں متواتر حدیث سے بھی دین کا کوئی نیا عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ اوپر مذکور ان کی عبارت میں غور کیجیے:

’’یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘

یہاں غامدی نظریے کی ایک خاص بنیاد اور جان لیجیے۔ جس سے اوپر کی عبارتوں میں حدیث کے بارے میں ان کے الفاظ کہ اس سے ’’عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘‘ اور یہ بات کہ حدیث ’’دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی‘‘ کا پورا مفہوم سمجھ میں آسکے۔

جناب غامدی صاحب نے اپنی اس کتاب میں ، جو اُن کے فکر کی بنیاد ہے، بتایا ہے کہ، دین ہم تک دو صورتوں سے پہنچا ہے:

۱- قرآن مجید ۲- سنت

دھوکہ نہ کھاجائیے گا! صحابہ سے لے کر آج تک مسلمان سنت سے جس حقیقت کو مراد لیتے ہیں اور جس کا نام لیتے ہیں ذہن وتصور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ملنے والی احادیث واعمال کا خیال آتا ہے، غامدی صاحب کے یہاں سنت اس معنی میں نہیں ہے؛ بلکہ یہ کچھ اور ہی تصور ہے۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں :

’’سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے‘‘ (جو عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ میں چلی آرہی تھی)، ’’جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں جاری کیا‘‘(۱) (میزان، ص:۱۴)

اسی مقام پر غامدی صاحب کہتے ہیں کہ دین کے ماخذ بس یہی دو ہیں اور کچھ نہیں ۔ فرماتے ہیں :

دین لاریب، انہی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیاجاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا؛ بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو انھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں (۲)، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ (ص:۱۵)

غامدی صاحب کی بنیادی گمراہی انکار حدیث ہے۔ وہ ایک نئے طرز کے منکر حدیث ہیں ۔ مجھے بڑا قلبی قلق رہا کہ جس وضاحت کے ساتھ اور متعین ودوٹوک (Pin Point) نشان دہی کے ساتھ ان کی یہ گمراہی عوام کے سامنے آنی چاہیے تھی، نہیں آئی۔ پاکستان میں ان کے افکار مختلف رسائل اور حلقوں میں زیربحث آتے رہے، حیرت ہوتی تھی کہ ان کے افکار کے تجزیے میں ، اہل حق کی نمائندگی کرنے والوں نے نہ جانے کیوں ان کی تردید میں بڑی لمبی چوڑی بحثیں کیں ؟ جب کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔

غامدی صاحب صرف انکار حدیث کے اس نظریے کا اظہار ہی نہیں کرتے؛ بلکہ اس کی عملی تطبیق بھی اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے وہ تمام حقائق و واقعات اور وہ تمام احکام جو قرآن میں نہیں ہیں اور جن کو وہ ملت ابراہیمی کی پچھلی روایت میں بھی نہیں پاتے ان کو صاف دین وشریعت کا حصہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ غامدی صاحب کے اس تصور دین کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض ایسے عقائد کا بھی انکار کیاگیا جو متواتر احادیث سے ثابت ہیں اور جن کے انکار پر یقینی طور پر لازم آتا ہے کہ آدمی نے ایسی بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جو محمد رسول اللہ نے یقینی اور قطعی طور پر بتلائی تھیں ۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کہہ چکے ہیں کہ ملت ابراہیمی کی جو روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمائی اس کا نام ’’سنت‘‘ ہے اوراس کا دائرہ صرف اور صرف اعمال کی حد تک ہے۔ عقیدہ کی کوئی قسم اس سے ثابت نہیں ہوسکتی (میزان، ص:۵۸)۔ ان کے نزدیک حدیث اِس سنت کے علاوہ ہے اور جیساکہ اوپر گزرچکا ان کے نزدیک حدیث سے دین میں کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوسکتا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو باتیں آخرت، جنت جہنم اور دیگر عقائد کے سلسلے میں ارشاد فرمائیں اور عالم غیب کے جن بے شمار واقعات وحقائق کی خبر دی، چاہے ان کی روایت متواتر ومشہور اور صحیح ہی کیوں نہ ہوں ، ان سے دین اور اس کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین کے کسی عقیدے یا حکم کا ماخذ بن سکے۔

ناظرین کرام غور فرمائیں کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی اپنی مجلسوں میں جو گفتگو فرماتے رہے اور عالم غیب کی جو تفصیلی خبریں دیتے رہے اگر ان کا دین سے کوئی تعلق (بقول غامدی صاحب) نہیں ہے، تو کیاوہ سب فضول اور بے مطلب باتیں تھیں ؟۔

مجھے پاکستان کے بعض ان جلیل القدر علماء پر شدید حیرت ہے، جنھوں نے اس جیسی گمراہی اور کج فکری کی تردید میں بڑی لمبی چوڑی علمی گفتگو کرکے غامدی صاحب کو کسی سنجیدہ علمی گفتگو کا مستحق سمجھا؟ اور ان کے ان نامعقول افکار پر فلسفیانہ گفتگوئیں کیں ۔

اب غور فرمائیے وہ تمام احادیث جن میں مثلاً پل صراط اور حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول وغیرہ کی خبردی ہے، غامدی اصول دین میں ان میں سے کسی پر دینی عقیدہ اور یقین رکھنا غلط ہے، اس لیے کہ حدیث کی یہ ’’مجال‘‘ ہی نہیں کہ وہ ہمیں کوئی عقیدہ دے سکے۔ واضح رہے کہ یہ وہ حقائق اور اخبار ہیں جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔

ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں بدیہی یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

علماء امت کا اجماع واتفاق ہے کہ ان ’’ضروریات دین‘‘ میں سے کسی ایک بات کا انکار کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ علم کلام واصول اور دیگراسلامی علوم کی کتابوں میں اس مسئلے کو پوری وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔ آخر دور میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’اکفار الملحدین‘‘ میں اس سلسلے میں عقل صریح کی روشنی میں اور علماء امت کی بے شمار تصریحات جمع کرکے ہر صاحب فہم کے لیے مسئلے کو بے غبار کردیا ہے۔

یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات، جن کو ہر نسل میں اور ہر دور میں اتنے بہت سے لوگ نقل کرتے آئے ہوں ، جن کے جھوٹ پرمتفق ہونے اور سازش کرنے کی بھی گنجائش نہ ہو اور نہ یہ ممکن ہو کہ اتنے بہت سے لوگوں نے بات سمجھنے اورنقل کرنے میں غلطی کی ہو، تو پھر ایسے ارشادات کو تسلیم نہ کرنا اور ان کے خلاف عقیدہ وفکر رکھنا سوائے اس کے کچھ نہیں کہ خدا کے رسول کی تکذیب وتغلیط کی گئی ہے۔ ’’ربنا آمنا بما انزلت واتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاہدین‘‘۔

اپنے اسی اصول کی وجہ سے غامدی صاحب حضرت عیسیٰ کی حیات اور نزول ثانی کے منکر ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہوچکی۔ اب نہ وہ زندہ ہیں نہ قیامت سے قبل دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (میزان ۱۷۸)

حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حیات اور قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے بارے میں یقینا خبر دی ہے اور پوری صراحت کے ساتھ دی ہے اور آپ سے اس کی روایات متواتر ہیں یعنی اتنے بہت سے راویوں نے ہر دور میں بیان کی ہیں جن کے غلطی کرنے کا امکان بھی نہیں ہے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی کتاب التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں ان روایات کو جمع کردیاگیا ہے، جس کے بعداس میں شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ ﷺ نے یقینا حضرت مسیح کے قبلِ قیامت دنیا میں تشریف لانے اور عظیم کارنامے انجام دینے کی خبر دی تھی؛ مگر غامدی صاحب کے یہاں اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہوچکی ہے اور ان کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کا عقیدہ بے حقیقت ہے۔ (میزان:۱۷۸-۱۸۰) اگرچہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے؛ مگر ان کے نزدیک یہ چیز تو حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدے یا عمل کا اضافہ ہوسکے۔

عقائد ہی کی طرح غامدی صاحب کے دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے ان احکام وقوانین کا کوئی درجہ نہیں ہے جن کی اصل قرآن میں نہیں ہے اور جو ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ میں انھیں نہیں ملتے۔ ہم زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتے؛ اس لیے کہ انھوں نے اپنے فکر وتصور دین کا جو اصول پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ بیان کردیا ہے، اس سے خود بخود وہ تمام واجبات ومحرمات اور سنن ومستحبات دین کی فہرست سے خارج ہوجاتے ہیں جن کی اصل قرآن میں نہ ہو اور جو دین ابراہیمی کی روایت کی حیثیت سے رائج نہ رہی ہوں ۔ مثلاً بے شمار احکام ایسے ہیں جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے اور نہ ان کا کوئی سراغ ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ میں اس طور پر ملتا ہے کہ عرب یا یہود ونصاریٰ ان پرکاربند تھے۔ مثلاً سونے کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے،مردوں کے لیے سونا اور ریشم کے لباس حرام ہیں ، عورتیں ماہواری ایام میں نماز نہیں پڑھیں گی اور بعد میں ان کی قضا بھی نہیں کریں گی۔ داڑھی رکھنا اور بڑھانا واجب ہے۔ بات کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ وغیرہ نہ جانے کتنے حلال وحرام کے احکام ہیں جو غامدی صاحب کے اصول کے ذریعے دین کا حصہ نہیں رہیں گے اور ’’خارج از اسلام‘‘ قرار پائیں گے۔ ان کے تصور دین اور فکری اصول کالازمی تقاضہ یہی ہے۔

غامدی صاحب کا حلقہ یہاں ایسے مقامات پر احادیث کی کچھ تاویل وتوجیہ، یا تضعیف، یا قرآنی آیات سے ان کے خلاف استدلال کی کچھ کوششیں کرتا ہے؛ مگر ان کو اس تکلف کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ وہ مختصر یہ ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمارے عقیدے میں حدیث سے دین میں کسی عقیدے یا عمل کا اضافہ نہیں ہوسکتا؛ اس لیے ہم ان باتوں کو نہیں مانتے؛ مگر عموماً وہ اور ان کے متبعین اپنا عقیدہ صاف کہنے کے بجائے پردہ داری سے کام لیتے ہیں ؛ اسی پردہ داری کی وجہ سے ہم کو ان کے فکرکی اس بنیادی گمراہی کو کھولنا پڑرہا ہے۔

چہ بے خبرز مقام محمد عربیست

غامدی تصور دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منصب نہیں ہے کہ ان کے ذریعے، قرآن کے علاوہ اور یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب میں چلی آرہی دین ابراہیمی کی روایت کے علاوہ کو نیا دینی حکم قرار دیا جائے۔ وہ اگر حدیث میں دیے گئے کسی حکم کو قبول کرتے ہیں یا رسول اللہ کے حرام قراردیے گئے کسی فعل کو حرام مانتے ہیں تو بس اسی وقت جب مشرکین عرب اور یہود ونصاریٰ کی دینی روایت میں اس کی سند مل جائے؛ اسی لیے ’’میزان‘‘ میں جوان کے فہم دین کا مکمل صحیفہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بھی احکام قبول کیے گئے ہیں ، ان کی سند بھی ذکر کی گئی ہے کہ بائبل میں اس کی اصل ملتی ہے یا عربوں کی جاہلیت میں اس پر عمل تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر سے ثابت ہے کہ آپ نے مسواک کو دینی عمل قرار دیا اور اس کا اجر وثواب بیان فرمایا۔ غامدی صاحب اس کو قبول کرتے ہیں مگر کیوں ؟ اس لیے کہ جواد علی نے اپنی کتاب المفصل فی تاریخ العرب قبول الاسلام میں المحبر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عرب مسواک کیاکرتے تھے (میزان:۶۴۱)۔

لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ محمد رسول اللہ کے قول کو دین قرار پانے کے لیے ابولہب،ابوجہل اور پولَس کی سند کی ضرورت ہے!!

میزان میں غامدی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو دین تسلیم کیا ہے کہ جس کسی کا قربانی کا ارادہ ہو وہ ذی الحجہ کے شروع سے قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے نہ ناخُن (صحیح مسلم)۔ اس پر کسی نے سوال کیاکہ آپ نے اس حکم نبوی کو دین کیسے مان لیا؟ یہ تو آپ کے اصول کے خلاف ہے کہ کسی ایسی چیز کو دین مانا جائے جس کی اصل یہود ونصاریٰ یا مشرکین عرب میں چلی آرہی ملت ابراہیمی کی دینی روایت میں نہ ملتی ہو۔ اس کے جواب میں غامدی صاحب کے رسالے (شمارہ نومبر۲۰۱۸ء ) میں بڑی تفصیلی تحریر شائع کی گئی، جس میں دکھایا گیا کہ یہ چیز ملت ابراہیمی کی روایت میں موجود تھی اور اس میں بائبل کے بھی بہت سے حوالے دیے گئے کہ اس لیے حدیث کے اس حکم کو دین کا حصہ مانا گیا ہے۔

عجب بات یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے ہم کو ایسے بہت سے احکام ملے ہیں جن کا کوئی سراغ ملت ابراہیمی کی قدیم و موروث دینی روایت میں نہیں ملتا اور قرآن نے بھی ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے؛ مگر غامدی صاحب ان کو تسلیم کرتے ہیں ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عیدین دین کا حصہ ہیں ۔ کوئی ان سے پوچھے کیا عیدالفطر اور عیدالاضحی کا رواج عہد نبوی میں ملت ابراہیمی کی روایت میں کہیں تھا؟ عرب کے مشرکانہ تہوار اور میلوں ٹھیلوں کو ختم کرکے حدیث نے ہم کو عیدین کے دینی تہوار دیے۔ یہ سب حدیث ہی سے ہم کو ملا ہے۔ پھر وہ عید کی نماز کو بھی لازم قرار دیتے ہیں ۔ کیا عیدین کا کوئی تذکرہ قرآن میں ہے؟ کیا مشرکین مکہ بیت اللہ میں یاعیسائی ایلیاء میں اس کو قائم کرتے تھے؟ کیا یہود مدینے میں عیدین کی نماز پڑھتے تھے؟

غامدی حلقے کو نماز جنازہ کا بھی قائل نہیں ہونا چاہیے؛ اس لیے کہ انھوں نے اپنے نزدیک دین کے جو دو اور صرف دو مآخذ قرار دیے ہیں یعنی قرآن اور ’’ملت ابراہیمی کی وہ روایت جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا اور جاری فرمایا‘‘ اس روایت میں ہم کونماز جنازہ نہیں ملتی ہے؛ مگر غامدی صاحب اس کو دین کا حصہ مان رہے ہیں ۔ یہ کسی طرح خدا کی عبادت والی وہ نماز نہیں ہے، جس کا حکم ’’اقیمو الصلوٰۃ‘‘ کہہ کرد یاگیا ہے۔ یہ اصل میں میت کے لیے دعا کی ایک واجب رسم ہے اورکوئی شک نہیں کہ خدا کی عبادت والی نماز سے بالکل الگ ایک مستقل حکم اور دین کا مستقل حصہ ہے۔ یہ تمام وہ احکام ہیں جن کو اللہ کی وحی غیرمتلو کے زیرحکم منصب رسالت سے دین قرار دیاگیا۔

بوالعجبی کی انتہا:

غامدی صاحب کے لیے ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ ان کے بقول، قرآن نے جانوروں میں سے صرف چار چیزوں یعنی مردار جانور، خون (دم مسفوح) غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور اور سور کے گوشت کی حرمت بتائی ہے۔ باقی بہت سی اشیاء کے اللہ کی طرف سے حرام ہونے کی خبر ہمیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے۔ مثلاً تمام درندے جیسے شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا، جانوروں میں ہاتھی گدھا، نیز پرندوں میں چیل، عقاب، گدھ، وغیرہ تمام امت ان کو صرف ارشاد رسول ہی کی وجہ سے حرام مانتی آئی ہے۔

تو غامدی صاحب کیا کریں ؟

اگر یہ کہیں کہ یہ سب چیزیں حرام نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک حدیث سے تو شریعت ثابت ہی نہیں ہوتی، تو بڑی گھناونی بات ہوگی۔

اور اگر ان چیزوں کو حرام کہیں تو اپنی فکرکی ساری عمارت زمین بوس ہوئی جاتی ہے۔ اس مخمصے کا انھوں نے ایک حل نکالا اور کیا ’’خوب‘‘ حل نکالا!!

انھوں نے ارشاد فرمایاکہ یہ دراصل انسان اپنی فطرت سے ہی جانتا ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں اور کھانے پینے کے لیے نہیں بنی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو جو حرام قرار دیا ہے وہ کوئی شریعت کا بیان اور حکم نہیں ہے۔ محض فطرت انسانی کا بیان ہے۔ ان کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں (یعنی پوری امت کے تمام علماء) سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ان باتوں کو شریعت کا بیان سمجھ لیا حالاں کہ وہ صرف فطرت کا بیان ہیں ؛ حالاں کہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن نے بیان کی ہیں ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

غامدی صاحب کہتے ہیں :

’’جانوروں کی حلّت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں ‘‘۔ یعنی مردار جانور، خون (دم مسفوح) غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور اور سور کا گوشت؛ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’’قل لا أجد فی ما اوحی إليّ‘‘ اور بعض جگہ ’’اِنما‘‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ۔۔۔۔ (میزان، ص:۳۶)

باقی وہ چیزیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا جیسے تمام درندے جیسے شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا، جانوروں میں ہاتھی، گدھا، نیز پرندوں میں چیل، عقاب، گدھ وغیرہ۔ ان کے بارے میں جنابِ موصوف فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں کو شریعت کا بیان نہیں سمجھتے، محض فطرت انسانی کا بیان سمجھتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :

انسان کی فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ،بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ان جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔

آگے فرماتے ہیں :

بعض روایتوں میں (یہ جو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے، اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اُسی فطرت کا بیان ہے، جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیاگیا ہے۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، درآں حالے کہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

یعنی کتا، بلی، گدھا، سانپ، بچھو، چیل اور گدھ کھانا محض فطرت انسانی کے خلاف ہے، کوئی کھائے تو یہ دینی طور پر حرام نہیں ہے۔

غرض ابوالعجبیوں اور تضادات کی ایک دنیا ہے۔ غامدی صاحب نے ایک غلط تصور دین قائم کرلیا پھر خود ان کو اس کے نتائج کا یارانہ رہا۔ یہاں غامدی صاحب کا اصول ان سے تقاضہ کرتا تھا کہ وہ کہیں کہ حدیث سے دین میں چوں کہ کوئی نیا حکم ثابت ہی نہیں ہوسکتا اور ’’یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘ (میزان، ص:۶۱، ایڈیشن ۲۰۱۴ء)۔ اس لیے ان کی حرمت کا خیال شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ انھوں نے کتے، بلی، گدھے، شیر چیتے، چیل، باز اور سانپ بچھو کو حرام سمجھ رکھا ہے۔

جب غامدی صاحب کا اصول یہ ہے کہ ’’یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘ اوراس سے ’’دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا‘‘۔ (میزان، ص:۱۵) تو پھر یقینا وہ کتے، بلی، چیتے، شیر، گدھے اور سانپ بچھو کو دین میں حرام نہیں کہہ سکتے۔

غامدی صاحب کے انکار حدیث کا یہی منطقی تقاضہ اور لازمی نتیجہ ہے؛ مگر وہ بہت ذہین آدمی ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ تو ان کے عقیدے ومسلک سے لوگوں کو متنفر کردے گا اور پھر کون مسلمان ان کے لیکچرز سنے گا اور ان کو ’’اسلامی اسکالر‘‘ مانے گا؟ اور کون ان کے حقیقی فکر کے نتائج کو سن کر کان نہ پکڑے گا کہ ایسی گمراہی سے خدا کی پناہ!!

اس لیے انھوں نے ایک مضحکہ خیز تاویل اختیار فرمائی اورایسا عجیب وغریب جوڑ بٹھایا کہ یہ کسی طرح ذہن قبول نہیں کرتا کہ غامدی صاحب جیسا ذہین وزیرک انسان ایسی لچر باتوں پر کبھی اپنے دل کو مطمئن کرسکا ہوگا۔

کل کو غامدی صاحب کا کوئی خوشہ چیں ان کے اسی اصول کو لے کر یہ کہہ سکتا ہے :

’’استاذ امام‘‘ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ کتا، بلی، لکڑبگھا، چیتا، ہاتھی، گدھا اور گدھ، چیل وغیرہ انسانی فطرت کی رو سے کھانے پینے کی چیز نہیں ۔ نہ جانے کتنی اقوام کی مرغوب غذا میں کتا اور بندر شامل ہے۔ چینیوں کے یہاں سانپ نہایت لذیذ وپسندیدہ کھانا ہے۔ جن اقوام نے یہ چیزیں نہیں کھائیں یہ ان کے ’’کلچر‘‘ کی روایت ہے۔ یہ مزعومہ کہ ان چیزوں سے ابا فطرت انسانی میں ودیعت ہے اس کی کوئی دلیل سوائے ’’استاذ امام‘‘ کے ذوق کے نہیں ۔

رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے؟ تو وہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے موقف میں جس کو ہم نے ’’پوری قطعیت کے ساتھ واضح‘‘ کردیا ہے، ’’یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘۔ لہٰذا کتے، چیتے، بلی، ہاتھی، بندر، سانپ، بچھو کو لوگوں نے غلط حرام قرار دے دیاہے۔ نہ فطرت انسانی کی رو سے یہ چیزیں کھانے کے قابل ہیں اور نہ خدا کی شریعت کے محرّمات میں سے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ اس شاگرد رشید کا موقف بڑا کریہہ اور وحشت انگیز ہے؛ لیکن ہے سو فیصد غامدی صاحب کے اصول ومنطق اور ان کے دینی عقیدہ پر قائم۔ دین کے اگر غامدی اصول قبول کرلیے جائیں تو شریعت کے تین چوتھائی حصے کو دریا برد کرنا بس اسی جیسی چند تقریرہائے دل پذیر کا محتاج رہ جائے گا۔

سارے انحراف کی بنیاد

سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ورسالت کے ۱۴صدیوں بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ دین کا ماخذ کیا ہے، یہ مسلمانوں کے اگلوں نے سمجھا نہ پچھلوں نے۔ میں وہ فرد فرید ہوں جو یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوا ہے کہ دین کا ماخذ کیا ہے۔

حیرت سے دماغ ششدر رہ جاتا ہے کہ غامدی صاحب جیسا ایک اچھا خاصا سمجھدار آدمی کیسی باتیں کررہا ہے! وہ کہتا ہے کہ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ ہزار ہا ہزار کی تعداد میں ہوئے، یہ بھی مانتا ہے کہ وہ چمن انسانیت کے گل سرسبد اور شجر اسلام کے بہترین ثمرتھے اور یہ بھی کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی تبلیغ وتفہیم میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ رسول، اپنے ان صحابہ کے لیے جو خلاصۂ انسانیت تھے، یہ تک واضح نہ کرسکا کہ اسلام کے ماخذ کیاہیں ؟ صحابہ کے بعد امت کی جو ساری علمی تاریخ ہے جس کے تسلسل میں تابعین عطام،ائمہ اسلام، اور بے شمار علماء کی قطاریں کھڑی ہیں وہ سب دین کے معاملے میں (معاذاللہ) ایسے جاہل وکم مایہ ہوئے کہ ان کو یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ دین ان کو کہاں سے لینا ہے؟

آج غامدی صاحب نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح فرمائی کہ ’’دین کے لاریب صرف دو ماخذ ہیں : ایک قرآن اور دوسرے ملت ابراہیمی کی وہ روایت جو یہود ونصاریٰ میں اور عرب کے مشرکین میں چلی آرہی تھی، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تائید وتصویب کے ساتھ امت میں دین کی حیثیت سے جاری کیا۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی چیز نہ دین ہوسکتی ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔

پھر طرفہ دیکھیے! غامدی صاحب اس قدر بڑا دعویٰ فرماتے ہیں اور دین کا ماخذ واصل (Ssource) ایسا نیا بیان کرتے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتایا اور ماشاء اللہ پوری کتاب ’’میزان‘‘ اپنے اس دعوے کی دلیل سے خالی!! یعنی دلیل کے نام پر کوئی معمولی سی چیز بھی اس کی جناب پیش نہیں فرماتے کہ محمد رسول اللہ کا کوئی حکم یا تحلیل وتحریم کا کوئی ارشاد صرف اسی وقت دین اور شریعت قرار پائے گا جب وہ ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہو۔ اتنا بڑا دعویٰ اور حجت بس یہ کہ میں یہ سمجھتا ہوں !!

سبحانَ مظہرالعجائب! خدایا! رحم فرما۔

اس تحریر کا مقصد غامدی صاحب کی تردید اور ان کے افکار کا علمی جائزہ لینا نہیں ہے۔ بس مطمح نظر یہ ہے کہ یہ واضح کردیا جائے کہ وہ بنیادی طور پر ایک خاص طرح کے منکر حدیث ہیں اور یہ کھول کر سامنے رکھ دیا جائے کہ ان کے فکر ومسلک کے کیالازمی نتائج ہیں ۔

انھوں نے اپنے نزدیک جو دین طے کیا اور اپنی کتاب میزان کے دیباچہ میں اس اظہار اوعلان کے ساتھ پیش کیا ہے:

’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ کم وبیش ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھا ہے، وہ اپنی اس کتاب میں پیش کردیا ہے۔‘‘

اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ قرار پاسکے۔ ہاں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم وارشاد کی تائید ’’ملت ابراہیمی کی روایت‘‘ سے ہوجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دین میں جگہ پاجائے گا۔ ورنہ چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو حرام کہیں ، یا اس کے مرتکب پر لعنت بھیجیں ، یا اس پر اللہ کے عذاب کی وعید سنائیں ، یا کسی چیز کو من جملہ واجبات فرمائیں اور حکم دیں ، وہ چیزیں ضروری یا دینی حکم کا درجہ نہیں پاسکیں گی۔ ایسے موقعے پر کسی خوبصورت سی عبارت کے ذریعے ان احکامِ رسول کو غامدی دین میں ’’لغو‘‘ قرار دے دیا جائے گا؛ اس لیے کہ ان کے یہاں تو ’’یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘۔

غامدی صاحب اپنی ان واضح عبارتوں کے باوجود اگریہ اصرار فرماتے ہیں کہ حدیث وسنت کے بارے میں ان کا اور عام علماء سلف کا موقف حقیقت میں ایک ہی ہے، اختلاف صرف اصطلاح کا یا علمی ترتیب کا ہے، جیساکہ انھوں نے بھی کہا ہے اور ان کے کارپردازان وکلاء صفائی گھما پھرا کر کہتے رہتے ہیں (اور ہماری بھی دلی دعا ہے کہ ایساہوجائے) تو ان کو واضح طور پر اپنی اِن مذکورہ عبارتوں سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہ عبارتیں انھوں نے اپنی سب سے مرکزی کتاب میں لکھی ہیں ۔ ان کا مطلب بالکل واضح ہے اور خود ان کے رسالے نے اسی مفہوم کے مطابق ان کی آراء کی توجیہ کی ہے اور یہ دکھایا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم یا عمل اسی وقت دین قرار پاتا ہے جب اس کی اصل ملت ابراہیمی کی قدیم روایت میں پائی جاتی ہو۔

اس بنیادی مسئلے کی وضاحت کے بعد ان کی تاویلات وتوجیہات اور اختراعات کے تفصیلی جائزے کی ضرورت شاید نہیں رہتی۔ ان کی بعض آراء صحیح ہوسکتی ہیں ؛ لیکن ایسی بنیادی گمراہی کا حامل شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ قطعاً نہیں رہتا۔ ایسے حضرات سے دین سیکھنا بڑی غلطی کی بات ہے۔

جس کو نہ ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ؟

ہم اللہ سے جہاں اپنے لیے بھی ہدایت واستقامت اور توفیق ارزانی کی دعا کرتے ہیں ، اُن کے لیے بھی کرتے ہیں کہ اللہ ان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین حق کی سمجھ اورامت کی بہترین نسل صحابۂ کرام کے طرز پر دین کے فہم کی توفیق عطا فرمائے۔

================

(۱) ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ کے الفاظ سے یہی مفہوم واضح ہے کہ یہ وہ چیزیں تھیں جو عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ میں چلی آرہی تھیں اور غامدی صاحب نے میزان میں بھی اور اپنے بعض لیکچرز میں بھی اپنا یہی مدعا واضح کیا ہے۔

(۲) یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تبلیغ وحفاظت کے لیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا؛ بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو انھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں ، بالکل واقعے کے خلاف بات ہے۔ تاریخ علم حدیث کے موضوع پر لکھی ہر کتاب حدیث کی حفاظت و اتباع اور اس کی تعلیم و تلقین نیز ابلاغ کے اہتمام کے ناقابل تردید شواہد سے بھری ہوئی ہے۔

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 8، جلد:103‏، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close