اسلامیات

حضور ؐ گستاخی معاف گستاخ ہم بھی ہیں

اہانت رسول ؐ کے کہیں ہم بھی تو مرتکب نہیں ہورہے ہیں؟ عبدالغفار صدیقی

9897565066
حضور ؐ میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان آج کل بھارت میں آپ کی توہین کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ابھی یتی نرسنگھ آنند کو سزا بھی نہیں ملی تھی کہ نوپور شرما نے آپ کے خلاف زبان کھول دی۔آپ کے چاہنے والے اس کے خلاف کھڑے ہوئے تو نوین جندل بدتمیزی پر اتر آیا۔ان سب کا تعلق اس پارٹی سے ہے جس کو آپ کی کوئی ادا اچھی نہیں لگتی۔وہ آپ سے بھی نفرت کرتی ہے اورآپ کے دین سے بھی۔آ پ کے غلاموں کو ہر طرح کا نقصان پہنچاتی ہے۔یہ اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔وہ چاہتی ہے کہ بھارت سے اسلام اور مسلمان چلے جائیں۔اس لیے کبھی طلاق اورحلالہ کا مسئلہ اٹھاتی ہے،کبھی این آرسی کا خوف دلاتی ہے۔کبھی مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر اترواتی ہے کبھی وہاں بھگوان کی مورتیاں تلاش کرتی ہے۔مگر حضور یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے کہ ایک اللہ کو ماننے والوں کو لوگ تنگ کرتے رہے ہیں۔لیکن بھارت میں آپ کے نام لیواؤں پر یہ مصیبتیں اس لیے نہیں آرہی ہیں کہ وہ آپ کے لائے ہوئے دین پر عمل کررہے ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو شکایت ہی کیا تھی۔یہ توان کے لیے بڑے نصیب کی بات تھی۔مگر یہاں یہ سب کچھ سیاست کے نام پر ہورہا ہے۔میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بھارت کے مسلمان آپ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو کب کا چھوڑ چکے ہیں۔ان کے پاس آپ کے نام کے لاحقے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔آپ کی شان میں گستاخی آپ کو نہ ماننے والا تو کبھی کبھار کرتا ہے وہ بھی کروڑوں میں ایک دو ہی اس کی جسارت کرتے ہیں۔نوپور شرما اور نوین جندل سو کروڑ کی آبادی میں تنہا ہیں جنھوں نے یہ گستاخی کی ہے۔چند سو لوگ اپنے سیاسی فائدے کی خاطر ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔لیکن معاف کیجیے آپ کے نام لیوا تو آپ ؐ کو آئے دن رسوا کرتے رہتے ہیں۔وہ آپ کے لائے ہوئے دین کی ایسی تصویر پیش کررہے ہیں کہ غیروں نے اس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔آپ کی شریعت کا مذاق بنا کر رکھدیا ہے۔حضور ؐ کیا جان بوجھ کرآپ کی مسلسل نافرمانی کرنا آپ ؐ کی توہین نہیں ہے؟
توحید کو ہی دیکھ لیجیے۔ ہم نے اس کی صورت کیا کردی ہے۔ہماری اکثریت کے گلے یا بازو میں آپ کو ایک کالا دھاگا نظر آئے گا۔یہ اسے آفتوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ ساری مصیبتیں اسی کی وجہ سے آرہی ہیں۔ہر قبرستان میں ایک نہ ایک مزار ہم نے بنا لیا ہے۔کچھ تو بہت مشہور ہیں۔آپ ؐ کو سب معلوم ہے کیوں کہ فرشتے آپ کو ساری رپورٹ دیتے ہیں۔ان مزاروں پر ہم سجدے کرتے ہیں،چراغاں کرتے ہیں،صاحب مزار سے کہتے ہیں کہ وہ خدا سے ہماری بگڑی بنوادے،کچھ لوگ ٖبراہ راست انھیں ہی اپنادکھڑا سنانے لگتے ہیں،ہر سال ہم عرس لگاتے ہیں۔ان کی بارات تک نکالتے ہیں۔کئی قطب اور ابدال شریک خدائی ٹھہرالیے گئے ہیں۔یہ سب عبادت کے نام پر ہوتا ہے حضورؐ۔اس میں کیا عالم کیا جاہل سب شریک ہوتے ہیں۔غرض آپ کی لائی ہوئی توحید شرک کے حسین پردے چھپ گئی ہے۔
حضور ؐ آپ حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔لیکن ہم نے بداخلاقی کی تکمیل میں عمر گذار دی ہے۔آپ نے فرمایاتھا کہ مومن کو گالی دینا فسق ہے مگر ہمارے مسلم سماج میں عام مسلمانوں کا جملہ بغیر گالی کے پرا ہی نہیں ہوتا۔ ماں باپ کو گالیاں دی جارہی ہیں،ان پر ہاتھ اٹھایا جارہا ہے،ان کی نافرمانی کا فیصد تو بہت زیادہ ہے،ان کی تمناؤں کا خون کرنا آج کل نوجوانوں کا شیوہ بن گیا ہے۔اس کے علاوہ جھوٹ،بے ایمانی،وعدہ خلافی،الزام تراشی،غیبت،چغل خوری،دھوکے بازی،بدنگاہی،تو عام بات ہے۔ حضور ہماری اکثریت سودمیں ملوث ہے،زکاۃ میں بھی کمیشن لیتے ہیں،خواتین،جن پر آپ نے رحم کرنے اور حسن سلوک کی تلقین کی تھی انھیں تو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں،انھیں وراثت سے بے دخل کردیا گیاہے۔حضور آپ کی محبت میں کوئی حجاب اتارنے کو تیار نہیں تو کوئی حجاب پہننے کو راضی نہیں۔
حضور ؐ آپ نے بہت ساری رسمیں ختم کردی تھیں،مگر ہم نے انھیں دوبارہ زندہ کرلیا ہے بلکہ مزید کا اضافہ بھی کرلیا ہے،پیدائش، شادی اور موت پر ایسی ایسی رسمیں ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔آپ ؐ نے بی بی فاطمہ ؓ کی شادی کا خرچ حضرت علیؓ پر ڈالا تھا۔ہم نے سارا خرچ آج کی فاطمہ کے ولی پر ڈال دیا ہے۔بی بی جیؓ کے نام کا تو صرف حق مہر باقی ہے۔آپ نے زنا کو مشکل اور نکاح کو آسان کیا تھا ہم نے الٹا کردیا ہے۔شادی کے ہر مرحلے پر آپ کا وہ مذاق اڑایا جاتا ہے کہ آپ سے سچی محبت کرنے والے کا دل بے چین ہوجاتا ہے۔ہر وہ کام ہوتا ہے جو آپ کو نہ ماننے والے کرتے ہیں بس نکاح کے دو بول ضرور ہیں جو آپ کی سنت مطابق ادا ہوتے ہیں،اس میں بھی کہیں کہیں ڈنڈی ماردی جاتی ہے۔شادی کا دستر خوان حشر کا منظر پیش کرتا ہے۔ہمارے لباس،ہماری بود و باش،ہمارے باہمی تعلقات،ہماری صلہ رحمی،ہماری گفتگو سب کچھ وہی ہے جو علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
مرے حضور ؐ کیا عرض کروں جدھر دیکھتا ہوں آپ کا مذاق بنتے دیکھتا ہوں،نماز میں چوری عام بات ہے۔مسجدوں میں قرآن کی جگہ قصے کہانیاں پڑھی جارہی ہیں،مدرسے دین کی جگہ مسلک کی تعلیم دے رہے ہیں،جماعتیں اپنے خود ساختہ حصار میں قید ہیں،سیاست ابلیس کے حوالے کردی گئی ہے وہاں تو آپ کا نام لینا آپ کے نام لیوؤاں کو بھی پسند نہیں آتا،معیشت میں حرام کی آمیزش ہے،دین مسجد اور قبرستان تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔آپ ؐ کے قول اختلاف امتی رحمۃ(میری امت کا اختلاف رحمت ہے)کو ہم نے گرہ میں باندھ لیا ہے اسی لیے ہم نے مخالفت اور انتشار کو شیوہ بنالیا ہے۔آپ نے ایمان والوں کو بھائی بھائی بنایا تھا ہم نے اپنے سگے بھائیوں کو بھی بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ نے کہا تھا جو دھوکا دے گا وہ ہم میں سے نہیں ہم نے کہہ دیا جو ایمان داری برتے گا وہ ہم میں سے نہیں،آ پ نے فرمایا تھا جو بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت نہ کرے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں مگر ہم نے ایسے لوگوں کو اپنا رہبربنالیا ہے۔ہر شعبہ ئ حیات سے آپؐ کو اور آپ کے قانون کو بے دخل کردیا گیا ہے،اس کے باوجود بھی ہم عزت اور غلبے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔حضور ہماری حماقت اور جہالت کا حال یہ ہے کہ ہمارا امام خود اپنے لیے بددعا کرتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا۔وہ ہر جمعے کو برسر منبرکہتا ہے ”واخذل من خذل دین محمد ولاتجعلنا منھم“(اے اللہ انھیں رسوا کردے جو محمد ؐ کے دین کو رسوا کرتے ہیں اور ہمیں ان میں شامل مت فرمانا) شاید اسی کا اثر ہے کہ ہماری رسوائیوں میں ہر ہفتے اضافہ ہورہا ہے۔
حضور ایسا نہیں ہے کہ ہم سب سب کے خراب ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری نوے فیصد سے زیادہ تعداد برائے نام آپ سے وابستہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ ؐ کی شان اقدس میں زبان سے گستاخی کرنا بہت بڑا جرم ہے۔اس کے مجرم کا سخت ترین سزا کا مستحق ہے لیکن اسے سے کہیں بڑا جرم اور ظلم آپؐ کی نافرمانی کرکے عملاًآپ کی توہین کرنا ہے۔اگر آپ کے نام لیوا آپ کا ادب سے نام لینے کے ساتھ ساتھ آپ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتے تو کسی کی ہمت نہیں تھی کہ آپ کی شان میں کوئی بے ادبی کرتا۔جب ہم اپنے باپ کو باپ کہنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرتے ہیں تو دنیا بھی ان کی عزت کرنا چھوڑ دیتی ہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود تو اپنے باپ کی ایک بات نہ مانیں اور مخالفین سے کہیں کہ وہ ہمارے باپ کی عزت کریں۔حضور ؐ آپ سے التجا ہے کہ بارگاہ ایزدی میں سفارش فرمادیجیے کہ بھارتی مسلمانوں کا خاص خیال رکھا جائے،انھیں شعورو آگہی کی دولت عطا کی جائے۔آپ سے زبانی محبت بھی ہمارے لیے بیش قیمتی اثاثہ ہے،اسی کے بل پر تو ہم آپؐ پر جان دینے کے لیے گھر سے باہرآجاتے ہیں۔حضور ہم بے عمل بھی ہیں اور بد عمل بھی مگر یہ کیا کم ہے کہ ہم آپ کے نام لیواہیں۔
تمہارا نام ہے تسکین روح و جاں اب بھی
تمہارے نام سے ہوتا ہے فل جواں اب بھی

نوٹ:مضمون نگارعالم دین،سماجی کارکن،آزاد صحافی اورراشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ کے چیرمین ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close