مضامین

خبر دار اب مسلم شہروں میں بلدیاتی سیٹوں پر بھی بی جے پی اپنی فتح کی منصوبہ سازی کررہی ہے

ملک تیزی سے ہندو راشٹر کی جانب گامزن ہے مسلمان خواب خرگوش میں مست ہیں

عبدالغفار صدیقی
9897565066
بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں کا آئین ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق جینے کا حق دیتا ہے بشرط یہ کہ یہ آزادی دوسروں کی آزادی کو متاثر نہ کرتی ہو۔آئین کے مطابق سیاسی آزادی بھی ہر شخص کو حاصل ہے۔لیکن سیاسی آزادی کا استعمال بھی آئین کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ہمارا ملک نے آزادی کے بعد سے جس سیاسی ڈگر پر چلنا شروع کیا تھا وہ سیکولر زم کی راہ تھی،اس میں ملک کے ہر شہری کو ترقی کے مواقع حاصل تھے،پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔لیکن اب اس کی سمت سفر بدل رہی ہے۔اس وقت ہمارا ملک بہت تیزی سے ہندو راشٹر کی جانب گامزن ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم امت کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کرے۔وہ خواب خرگوش میں مست ہے۔ہر طرف ہندو ازم کی دھوم ہے۔ترنگے کی جگہ کیسریا رنگ لہرانے کی تیاری ہے۔تمام حکومتیں ایسے ایشوز اٹھارہی ہیں جن سے فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی کو ہوا مل رہی ہے۔اس ضمن میں نام نہاد سیکولر سٹ بھی پیش پیش ہیں۔ خبر آئی ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی کرنسی پر گاندھی جی کی جگہ لکشمی اور گنیش کی تصویریں ہونا چاہئے۔اس سے قبل وہ اپنے دفاتر سے گاندھی جی کو باہر کرہی چکے ہیں۔دہلی کے وزیر اعلیٰ خود کو جمہوریت کا علمبرادار بتاتے ہیں۔گجرات حکومت نے یونیفارم سول کوڈ کے لیے کمیٹی بنانے کو منظوری دے کر ہندتوا کی جانب ایک قدم مزید بڑھادیا ہے۔وہیں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کے مطابق مغلوں کے ورثے کے نام تبدیل کیے جائیں۔اب انھیں کون بتائے نام بدلنے سے ماہیت،کیفیت اور حقیقت نہیں بدلتی۔
ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا آر ایس ایس کا مشن کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔اس کے قیام کا مقصد ہی ملک کے جمہوری سیاسی نظام کوہندو ازم سے بدلنا ہے۔بھارت کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے نظریہ،مسلک،دین اور عقائد کی تبلغ کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے۔البتہ اس عمل میں شفافیت اور دیانت داری سے کام لینا چاہئے۔اپنے اس مشن کے لیے سنگھ نے بہت محنت کی ہے۔اس کے ذمہ داروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔قربانی کا مطلب صرف جان کی قربانی نہیں ہوتا۔اس وقت سب سے بڑی قربانی خواہشات کی قربانی ہے۔اپنے قیام سے لے کر آج تک تقریباً 98سال ہونے کو آرہے ہیں سنگھ کبھی منقسم نہیں ہوا۔چند افراد سے شروع ہونے والا سنگٹھن اس وقت عالمی سطح پر سب سے بڑا سنگٹھن ہے۔ظاہر ہے دارالاسباب میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو قربانیاں دیتے اور اسباب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔میں جب ان کی لگن اوران کا آپسی بھائی چارہ دیکھتا ہوں تو رشک ہوتا ہے کہ کاش انماالمومنون اخوۃ کی تلاوت کرنے والوں میں بھی یہ صفات پیدا ہوجاتیں،وہ تو آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے میں لگے رہے ہیں۔کافروں کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنے کی دعا کرنے والوں کی جمعتیں اتنے خانوں میں تقسیم ہوگئی ہیں کہ اب نئے فرقوں کو نام بھی نہیں مل رہے ہیں۔
سنگھ نے اپنی سیاسی بساط بہت سوچ سمجھ کر بچھائی ہے۔اس نے آزادی کے بعد سے ہی اپنی سیاسی ونگ شروع کی۔ایک طویل مدت تک وہ دو سے زیادہ نہیں ہوسکے۔اس کے بعد اس نے اپنی سیاسی منصوبہ بندی میں تبدیلی کی اور کانگریس کو نہ صرف کمزور کرنے بلکہ بالکل ختم کرنے کا پلان تیار کیا۔اس نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ،اسی اورنوے کی دہائی میں لگایا تھا اور آج پورا ملک لگ بھگ کانگریس مکت ہوگیا ہے۔اس نے اپنے لوگوں کو کانگریس کی صفوں میں شامل کرکے کانگریس سے غلط فیصلے کرائے۔اس کے بعد علاقائی جماعتوں کی پشت پناہی کرکے سیکولر ووٹوں کے سامنے کانگریس کا متبادل پیش کیا۔تیسرے مرحلے میں اپنی بی ٹیمیں میدان میں اتار دیں۔جنھوں نے ان ریاستوں سے بھی کانگریس کو باہر کردیا جہاں براہ راست بی جے پی نہیں جیت سکتی تھی،دہلی اور پنجاب اس کی تازہ مثالیں ہیں،اب گجرات کی باری ہے،اس وقت گجرات میں بی جے پی کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔اس لیے وہاں عام آدمی پارٹی کو اتارا جارہا ہے اس کی حاضری سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرکے کانگریس کو باہر ہی رکھے گی۔
اس سال جہاں کچھ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہیں وہیں اترپردیش اور دہلی سمیت کچھ ریاستوں میں بلدیاتی الیکشن بھی ہیں۔ماضی میں بلدیاتی انتخاب پارٹی کے نشان پر نہیں ہوتا تھا۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ انتخابات بھی پارٹی کی بنیادوں پر لڑے جانے لگے ہیں۔اس لیے ان انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔جن شہروں میں بلدیاتی سیٹوں پر جس پارٹی کو فتح ملے گی آئندہ اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں اسے فائدہ ہوگا۔ مہانگروں کے میئر،شہروں کے چیرمین،دیہات کے پردھان عوام سے براہ راست جڑے ہوئے ہوتے ہیں،عوام کی اکثریت ان کے فیصلوں کا دفاع کرتی ہے۔ابھی تک بلدیاتی الیکشن میں وہ شہر اور دیہات جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بی جے پی کے لیے فتح حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔لیکن اس نے تجرباتی طور پریوپی کے گزشتہ بلدیاتی انتخاب میں اپنے نشان پر کچھ مسلم امیدوار اتار ے ایک دو سیٹوں پر اسے کامیابی ملی۔اس سے بی جے پی نے نتیجہ اخذ کیاکہ وہ ان لوکل باڈیز پر جہاں مسلمان ووٹرس اتنے زیادہ ہیں کہ غیر مسلم امیدوا ر کا جیت پانا ناممکن ہے۔وہاں مسلم امیدواروں پر داؤں لگائے۔اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی قواعد شروع ہوچکی ہیں۔مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب بی جے پی کا ٹکٹ لینے والوں میں مسلم امیدوار ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔امت مسلمہ پر کتنا برا وقت آگیا ہے کہ بی جے پی کو مسلم امیدوار نہ صرف آسانی سے میسر آرہے ہیں بلکہ وہ پیسہ دے کر ٹکٹ لینے کی فراق میں بھی ہیں۔اس طرح بھارتی جنتا پارٹی نگر پالیکاؤں اور گرام پنچایتوں پر قبضہ کرے گی۔اسے ایک طرف دنیا کو یہ دکھانے کا موقع ملے گا کہ مسلمان اس کے ساتھ ہیں۔دوسری طرف وہ ان کے ذریعے اپنی پالیسیاں نافذ کرے گی۔جو امیدوار جس پارٹی سے کامیاب ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور طبقے سے ہو وہ اس پارٹی کی پالیسیوں کا پابند ہوتا ہے۔اس ضمن میں میری یہ گزارش توبے سود ثابت ہوگی کہ مسلمان امیدوار بی جے پی کے نشان پر الیکشن نہ لڑیں۔لیکن اپنے مسلم اور سیکولررائے دہندگان سے یہ گزارش ضرور کروں گا وہ ایسے ایمان فروشوں کو سبق ضرور سکھادیں جو اپنے مفاد کی خاطر آئین مخالف عناصر کے ساتھ کھڑے ہورہے ہیں۔کیا برسر اقتدار پارٹی کے آٹھ سالہ دور حکومت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا ہرا قدام ملک میں مذہبی منافرت اور طبقاتی کشمکش کو بڑھاوا دینے والا ہے۔اس کے باوجود بھی مسلمانوں اور جمہوریت پسندوں کا اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا کیابھارتی آئین اور جمہوری روح سے بغاوت کے مترادف نہیں ہے۔؟
اس موقع پر مسلم جماعتوں کو جن کو مسلم امت اپنے خون پسینے کی کمائی سے سینچ رہی ہے کیا کوئی منصوبہ بندی نہیں کرنا چاہئے۔کیا مسلم تنظیمیں اپنا وفاق بنا کر اپنے نمائندے نہیں اتار سکتیں۔کیا ان کی نظر میں لوکل باڈیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے،مسلم نام کی سیاسی جماعتیں اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں تو بہت شور مچاتی ہیں،لیکن بلدیاتی الیکشن میں خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔اگر وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہیں اور اپنی بنیادیں مضبوط کرنا چاہتی ہیں تو انھیں سب سے زیادہ بلدیاتی انتخابات پر توجہ دینا چاہئے۔لیکن یہ توجہ جذباتی نعروں کی نہ ہو بلکہ ملک کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے،خیر خواہانہ جذبے کے ساتھ،بلا تفریق مذہب و ملت ہونی چاہئے۔لیکن معاف کیجیے گا مسلم سیاسی و ملی جماعتیں اپنے اپنے محور میں گھومنے کی عادی ہیں وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتیں۔یاد رکھیے گا اگر لوکل باڈیز پر فرقہ پرست عناصر نے قبضہ کرلیا توآئندہ ایک طویل عرصے تک اسے ملک کے اقتدار سے دور رکھنے کی آرزو صرف خواب بن کر رہ جائے گی۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم کوئی لائحہ عمل بنائیں اور لوکل باڈیز کو فرقہ پرستوں کے قبضہ میں جانے سے بچائیں تاکہ ملک میں جمہوری اقدار اور سیکولر آئین برقرار رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close