اسلامیات

توبہ آسمانوں کو بھی چیر دیتی ہے

بقلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یوپی

اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشاد باری ہے ”انَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ویُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ“ (بقرہ، آیت ۲۲۲) ”بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔“اسی تناظر میں ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے جو یقیناً ہمارے لئے درس عمل ہے. کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک مرتبہ شدید قحط پڑ گیا مدتوں سے بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے پاس گئے اور عرض کیادعا فرمائیں کہ بارش نازل ہوجائے حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور بستی سے باہر دعا کے لیے آ گئے یہ لوگ ستر ہزار یا اس سے کچھ زائد تھے موسیٰ علیہ السلام نے بڑی عاجزی سے دعا کرنا شروع کیا "میرے پروردگار! ہمیں بارش سے نواز، ہمارے اوپر رحمتوں کی نوازش کر، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، بے زبان جانور اور بیمار سبھی تیری رحمت کے امیدوار ہیں، تو ان پر ترس کھاتے ہوئے ہمیں اپنی دامنِ رحمت میں جگہ دے۔” دعائیں ہوتی رہیں مگر بادلوں کا دور دور تک اتہ پتہ نہیں تھا سورج کی تپش اور تیز ہو گئی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کو بڑا تعجب ہوا۔ اللّٰه تعالیٰ سے دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو وحی نازل ہوئی ” اے موسیٰ تمہارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جو گزشتہ چالیس سالوں سے مسلسل میری نا فرمانی کر رہا ہے اور گناہوں پر مصر ہے۔ اے موسیٰ! آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ وہ نکل جائے کیوں کہ اس آدمی کی وجہ سے بارش رُکی ہوئی ہے اور جب تک وہ باہر نہیں نکلتا بارش نہیں ہوگی۔” حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ! میں کمزور سا بندہ، میری آواز بھی ضعیف ہے یہ لوگ ستر ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہیں میں ان تک اپنی آواز کیسے پہنچاؤں گا؟جواب ملا، "تیرا کام آواز دینا ہے، پہنچانا میرا کام ہے۔” حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو آواز دی اور کہا۔” اے رب کے گنہگار اور نافرمان بندے! جو گزشتہ چالیس سال سے اپنے رب کو ناراض کر رہا ہے اور اس کو دعوتِ مبارزت دے رہا ہے لوگوں میں سے باہر آجا تیرے ہی کالے کرتوتوں کی پاداش میں ہم بارانِ رحمت سے محروم ہیں۔” اس گنہگار بندے نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہی مطلوب ہے۔ سوچا کہ اگر میں تمام لوگوں کے سامنے باہر نکلا تو بے حد شرمندگی ہو گی اور میری جگ ہنسائی ہو گی اور اگر میں باہر نہ نکلا تو محض میری وجہ سے تمام لوگ بارش سے محروم رہیں گے اب اس نے اپنا چہرہ اپنی چادر میں چھپا لیا اپنے گزشتہ افعال و اعمال پر شرمندہ ہوا اور یہ دعا کی ” اے میرے رب ! تو کتنا کریم ہے اور بردبار ہے کہ میں چالیس سال تک تیری نافرمانی کرتا رہا اور تو مجھے مہلت دیتا رہا۔ اور اب تو میں یہاں تیرا فرمانبردار بن کر آیا ہوں میری توبہ قبول فرما اور مجھے معاف فرماکر آج مجھے ذلت و رسوائی سے بچالے۔” ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا اور موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا مولا تو نے بارش کیسے نازل ہونے لگی وہ نافرمان بندہ تو ابھی مجمع سے باہر ہی نہیں آیا؟اللّٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا،
اے موسیٰ! جس کی بدولت میں نے بارش روک رکھی تھی اسی کی بدولت اب میں بارش برسا رہا ہوں اس لئے کہ اس نے توبہ کر لی ہے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یا اللّٰه ! اس آدمی سے مجھے بھی ملا دے تا کہ میں اس کو دیکھ لوں فرمایا ” اے موسیٰ! میں نے اُس کو اُس وقت رسوا نہیں کیا جب وہ میری نافرمانی کرتا تھا اور اب جب کہ وہ میرا فرمانبردار بن چکا ہے تو اسے کیسے رسوا کروں؟” میرے بھائیو! مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور رب کی عظمت کااعتراف کرلیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے موٴمن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے ۔ (صحیح مسلم)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close