مضامین

عروج واقبال کے لیےچار اہم کام

بقلم: محمد اشرف قاسمی حضرت مفتی عبدالرشید صاحب قاسمی مدظلہ کےساتھ گفتگو کا خلاصہ

مورخہ27ستمبر2020ءکو شہرمہد پورکے رفقاء کی معیت میں حضرت مفتی عبدالرشید صاحب قاسمی متعنا اللہ بطول حیاتھم
(خلیفہ:محی السنۃ حضرت اقدس مولانا ابرارالحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ) مدرسہ ضیاء العلوم، سیو،ودیشہ (ایم پی)
کی خدمت میں حاضر ہوکرحضرت سے کئی ایک موضوعات پرقیمتی باتیں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ساتھ ہی حضرت کی فرمائش پرمجھے بھی اپنا پرانا سبق دہرانے کا موقع ملا۔ ان میں دوباتیں قابل ذکرہیں۔
پہلی بات :موجودہ نکبت وپستی سے مسلمانوں کے نکلنےکاراستہ.
دوسری بات: اردواوردگر زبانوں کی تعلیم.
بروقت پہلے موضوع پر سنایاگیااپنا سبق ضبط کررہا ہوں۔
حضرت نے سوال فرمایا کہ موجودہ حالات اوراین آر سی کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب۔(مختلف تحریکات پر بات کرنے کےبعد)
ایسے حالات سے نکلنے کے لیے قران وسنت میں عملی نمونے اور ہدایات موجودہیں۔قرآن وسنت سے ہٹ کر ہم کچھ بھی کر لیں۔حالات نہیں سدھریں گے۔
این ار سی یا ڈِٹنشن کیمپ مسلمانوں کے لیے کوئی غیر مانوس چیز نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مقاطعہ ہوا۔ اور شعب ابی طالب میں حضرت رسول اللہﷺ مع رفقاء و جانثاروں قید کیے گیے۔
اورمکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں تین طرح کے دشمنوں کا سامنا تھا، مشترکہ طور پر تینوں دشمن حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم اور مہاجرین کو مدینہ سے نکالنے یاقتل کرنے کا منصوبہ بناتے رہتے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کسی قسم کے پردرشن، ریلی اور مظاہرہ کے بجائے بنیادی طور پرچار کو کام کیے۔
1۔تعلیم۔
2.دعوت وتبلیغ۔
3.مخلتف قوموں کے ساتھ سیاسی مرافقت۔
4.رفاہی کام۔ سوشل ورکس۔
تعلیم کے سلسلے میں یہ کیا کہ :مسجد نبوی میں باہری مہاجر طلباءکے لیے اقامتی مدرسہ قائم فرمایا۔ اورمقامی لوگوں کے لیے مدینہ کی آٹھ مسجدوں میں غیر اقامتی مدرسہ قائم فرمایا۔ نیز گھروں میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا۔
اسی طرح قبیلہ اشعر کے لوگوں کو سخت ہدایت دی کہ :جولوگ پڑھے ہوۓ ہیں وہ انپڑھ لوگوں کو پڑھائیں۔ اورجو نہیں پڑھے ہوئے ہیں وہ اپنے یہاں پڑھے لکھے لوگوں سے پڑھنا لکھنا سیکھیں۔ اگر کوئی پڑھا ہوا پڑھانے ،سکھانےمیں یا ان پڑھ پڑھنا لکھنا سیکھنے میں کوتاہی کرے گا تو ہم انھیں سزادیں گے۔
غزوبدر کے قیدیوں میں ہر قیدی کا فدیہ چارہزار درہم طے ہوا تھا۔لیکن ان میں پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ یہ طے کیاگیا کہ جو قیدی ہمارے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا اورجوڑنا گھٹانا سکھا دے، اس کا فدیہ یہی تعلیم ہے۔ اُس وقت چار ہزار درہم چاندی کی قیمت دس لاکھ روپے ہوتی ہے۔
یعنی فاقہ کشی کے عالم میں ایک بچے کو اول درجہ کے دومضامین (لانگویج اور میتھ میٹکس)کی تعلیم پر ایک لاکھ روپیہ فیس ادا کی۔ لانگویج میں بنادی طور سے پانچ چیزیں لازم ہوتی ہیں۔ لِزنِگ، اسپیکنگ، ریڈنگ، رائٹنگ اورگرامر۔
لیکن یہاں لانگویج کی تعلیم میں صرف دو کام کرنا ہے۔ لکھنا پڑھنا ( ریڈنگ اور رائٹنگ).
آج ہمارے پاس نیٹ پیک ، جوتا، لباس، گاڑی، ہوم ڈیکوریشن، ٹیلی ویزن وغیرہ کے لیے پیسے ہیں، لیکن تعلیم (خواہ عصری ہو یا دینی) پر خرچ کے لیے روپیے نہیں ہیں۔
تیسری بات مختلف قوموں سے سیاسی مرافقت میں بھی مسلمان سراسر سنت کے خلاف کام کررہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مختلف قوموں سے الگ الگ معاہدہ اور مرافقت فرمائی۔جس سے تمام قوموں کی کلید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں آگئی۔
ہم نے مختلف قوموں کو ایک قوم اور مسلمانوں کو دوسری قوم کی حیثیت سے پیش کیا۔ اوردو قومی نظریہ میں اکثر غیرمسلموں کو ہندو کہہ دیا۔
جب کہ اس ملک میں چھ ہزارسات سو تینتالیس (6743) قومیں رہتی ہیں۔
(گیارہ کروڑ لنگایت ہندو نہیں ہیں، انھیں ہندو کے نام سے رجسٹرڈ کیاگیا، اسی طرح دس کروڑ آدواسی کو بھی زبردستی ہندو کہاجاتاہے۔ انھوں نے اپنے ہندو نہ ہونے کے لیے کئی باراحتجاجات کیے ہیں۔)
ہم نے اپنے مقابل سب کو ایک قوم بنادیا۔
ہم نے پسماندہ قوموں سے مرافقت تو اختیار کی ہے۔ لیکن اس مرافقت میں ہم نے پوری طرح سے سنت کو نظر انداز کردیا ۔ کیونکہ پسماندہ قوموں کا تعاون کرتے وقت ہمیں ان کی قائدانہ کلید اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہیے تھی۔ لیکن ہم جیوتی باپھو لے، ساوتری بائی پھولے، ان کے عزیز شاگردڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اورپھر کاشی رام اورمایاوتی، رام اٹھاولے کی مدد کرتے وقت کہیں کلیدی منصب (کی پوسٹ) پر بیٹھنے کی کوشش نہیں کی۔
سیاسی مرافقت میں خلاف سنت اس قسم کی غلطیوں کے ساتھ ہی ہم نے ان قوموں کواسلام کی دعوت بھی پیش کرنے میں کافی کوتاہی کی ہے۔
دوسری طرف کچھ مسلم قیادتوں نے سیاسی لحاظ سے اپنےوجود کو منوایا، لیکن انھوں نے بھی اپنی سیاسی تحریک کو سنت کے خلاف منہج پرڈال رکھاہے۔اس وقت کی سیاست میں الحرب خدعۃ کے مطابق ہمیں آگے انا چاہئے۔ لیکن اسلام، شریعت اور مسلمانوں کے حق میں جتنا ہم کام نہیں کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اسلام، شریعت اورمسلمان نام کا ٹائٹل لگا کر دشمن کو بیدار کرنے میں ہمیں مزہ آتا ہے۔ جب تک ہماری تحریکات میں اسلام، شریعت اور مسلمان الفاظ نہیں ہوتے ہیں، ہمیں چین ہی نہیں آتا ہے۔اس طرح اٹھ کر کھڑے کی ہونے کوشش کرتے وقت کھڑا ہونے سے قبل جھکے ہونے کی پوزیشن میں ہی دشمن ہم پر حملہ آور ہوکر ہمیں چت کردیتا ہے۔
اس سلسلے میں اویسی کانام لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ (قانون کے ماہر) لائیر ہیں۔ اور انھوں نے اپنی قیادت کھڑی کی ہے۔ یہ قابل مبارک اور مستحسن کوشش ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی پارٹی کا نام ایسا رکھا ہے جو الحرب خدعۃ کے خلاف یعنی مقابلہ کے لیے ان کی پارٹی کا تسمیہ سنت کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے میں کم ہمتی کا شکارنہیں ہونا چاہیے ، کیوں کہ ملک میں مسلمانوں سے زیادہ sc st obc زیادہ مظلوم ہیں۔ اور مظلوموں کو انصاف پسند حکمراں کا انتظار ہے۔ شرط یہ ہے کہ سنت کے مطابق مسلمان سیاسی میدان میں آئیں اور سنت ہی کے مطابق مختلف قوموں سے الگ الگ مرافقت اختیار کریں۔ اورمرافقت کے ساتھ انھیں اسلام کی دعوت بھی دیتے رہیں۔
چوتھی چیزاپنےتشخص وامتیازات کے ساتھ رفاہی کاموں میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاف، ہسپتال میں جاکر دیکھ لیں دوسری قوم کے لوگ مسافروں ومریضوں کو پانی پلا تے، پھل فروٹ وغیرہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ یہ مسلمانوں کے کرنے کےکام ہیں۔
(لاک ڈاون کے موقع پر مسلمانوں نے اس میدان میں اخلاقی فتح حاصل کی ہے۔ جس کی وجہ سے کرونا اور میڈیاجیسےدوخطرناک وائرس کی فتنہ سامانیوں اورہلاکت خیزی کی شدت کے باوجود نصرت الہی مسلمانوں کے شاملِ حال رہی۔اور مسلم لباس میں مسافروں پر پتھراو اور آگ زنی کرنے والوں کی پہچان بتانے والے ظالموں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے مسلمانوں نے ثابت کردیا کہ اسلامی لباس میں مسافر وں کے معاون ومددگارہوتے ہیں۔ )
آج بھی فتح ہمارے استقبال کے لیے کھڑی ہے لیکن بنیادی طور یہ چارکام ہرحال میں ہمیں کرنے ہوں گے۔
سیاست میں مذہبی ناموں اوراپنے بڑے عزائم و منصوبوں کا اخفاء سنت ہے۔
اوررفاہی کاموں میں اپنے امتیازات وتشخصات کا مظاہرہ کرنا مفید وبہترہے۔

گفتگو کا دوسرا حصہ پھر کبھی۔۔۔۔ ان شاء اللہ

کتبہ:محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء: شہر مہدپور، ضلع: اجین ایم پی۔

27ستمبر2020ء

بوقت واپسی4بجے شام۔ بیرسیاروڈ، ضلع بھوپال،
ایم پی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close