مضامین

وزارتی مشن پلان اور جمعیت علمائے ہند قسط 6

محمد یاسین جہازی 9891737350

وزارتی مشن پلان اور جمعیت علمائے ہند قسط 6
محمد یاسین جہازی 9891737350
مشن سے گفتگو کی دعوت
24/ اپریل 1946کو وزارتی مشن شملہ سے دہلی آیا اور اسی دن ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ
”بڑی پارٹیوں کے درمیان باہمی رضا مندی سے معاہدہ کرنے کے لیے گفتگو کرنا مناسب ہوگا، اس لیے مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے صدور کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کی ورکنگ کمیٹی کے نمائندے شملہ میں مشن سے مل کر گفتگو کرنے کے لیے نامزد کریں۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/230۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/127)
مشن کا منصوبہ اور لیگ،کانگریس کے نمائندوں کا انتخاب
”27/ اپریل 1946: لارڈ پیتھک لارنس نے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مسٹر جناح سے درخواست کی کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کے چار چار نمائندے نامزد کریں، جن سے مشن کے منصوبے پر گفتگو کی جاسکے۔ مشن کا منصوبہ یہ ہے:
۱۔ پورا ہندستان ایک یونین گورنمنٹ کے ماتحت ہوگا، جس کے پاس صرف امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوں گے۔
(۲) صوبوں کے دو وگروہ ہوں گے:
(الف) وہ صوبے، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
(ب) وہ صوبے، جن میں ہندووں کی اکثریت ہے۔
(۳) حکومت کے تمام شعبے صوبوں کی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ غیر متعنہ شعبے بھی صوبوں ہی کے ماتحت ہوں گے۔
(۴) ملک کے دستوری ڈھانچے میں دیسی ریاستیں بھی مفاہمت کے بعد اپنی جگہ پائیں گی۔
(۵) مرکز کے پاس تین محکمے ہوں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے شعبوں میں سے کوئی شعبے مرکزی حکومت کے حوالے کرنا چاہے، تو یہ اسے اختیار ہوگا۔
لارڈ پیتھک لارنس کے کے خط کے جواب میں کانگریس نے نمائندوں کی فہرست بھیج دی ہے، جو یہ ہے:
۱۔ مولانا ابوالکلام آزاد صدر آل انڈیا کانگریس کمیٹی
۲۔ پنڈت جواہر لال نہرو رکن مجلس عاملہ کانگریس
۳۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل رکن مجلس عاملہ کانگریس
۴۔ خان عبد الغفار خان رکن مجلس عاملہ کانگریس
اگر چہ مسلم لیگ نے لارڈ موصوف کے خط کے جواب میں کئی سوالات اٹھائے؛ لیکن اس نے ذیل کے نمائندے نامزد کردیے:
۱۔ مسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ
۲۔ نواب زیادہ لیاقت علی خان سکریٹری مسلم لیگ
۳۔ نواب محمد اسماعیل خاں رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ
۴۔ سردار عبد الرب نشتر رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/136)
چنانچہ ۵/ مئی 1946کو شملہ میں دوسری شملہ کانفرنس کا آغاز ہوا اور مختلف مسائل پر گرما گرمی بحث و گفتگو ہوئی۔ گاندھی جی نے یہ تجویز پیش کی کہ مشن اپنا مجوزہ منصوبہ تحریر طور پر کانگریس اور مسلم لیگ کو دے دے، تاکہ اس پر غوروفکر کیا جاسکے۔ چنانچہ مشن نے اپنا وہ منصوبہ کانگریس اور لیگ کے صدور کوحوالے کرتے ہوئے کانفرنس کو ۸/ مئی 1946پر ملتوی کردیا۔
مشن کا مجوزہ منصوبہ
”(۱) کل ہند یونین کی ایک حکومت اور قانون ساز ادارہ ہوگا، جس کی تحویل میں امور خارجہ،دفاع، مواصلات، بنیادی حقوق کے شعبے ہوں گے اور ان شعبوں کے لیے درکار ذرائع آمدن کے لازمی اختیارات حاصل ہوں گے۔
(۲) بقایا تمام اختیارات صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔
(۳) صوبوں کی گروپ بندی کی جاسکے گی اور انھیں اختیارات حاصل ہوگا کہ وہ صوبائی شعبوں میں اپنی حسب پسند شعبے مشترک رکھیں۔
(۴) گروپس اپنی ایگزیکیٹو اور قانون ساز ادارے قائم کرسکیں گے۔
(۵) یونین قانون ساز ادارے مسلمانوں کے اکثریتی اور ہندووں کے اکثریتی صوبوں سے مساوی تعداد میں نمائندگان کی تعداد سے تشکیل پائیں گے۔ خواہ یہ صوبے باہم مل کر گروپ بنائیں یا نہ بنائیں۔ علاوہ بریں ریاستوں کے نمائندے بھی اس میں شام ہوں گے۔
(۶) یونین کی حکومت بھی اسی تناسب سے تشکیل پائے گی، جس طرح کہ قانون ساز ادارہ۔
(۷) یونین اور گروپوں کے دستوروں میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ کوئی صوبہ اپنے قانون ساز ادارے کی اکثریت کی رائے سے ابتدائی دس برس کے بعد دستور کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کرسکتا ہے اور اسے ایسا ہر دس سال کے وقفے کے بعد کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ نظر ثانی کے مقصد کے لیے ابتدائی بنیاد کے مطابق ادارہ تشکیل دیا جائے گا اور اس میں رائے دہی کا وہی طریق کار ہوگا اور اسے دستور میں ہر طریقے سے ترمیم کرنے کا اختیار ہوگا۔
(۸) متذکرہ بالا بنیادوں پر دستور واضح کرنے کے لیے دستور سازی کا نظام مندرجہ ذیل طریقے پر کیا جائے گا:
(الف) ہر صوبائی اسمبلی میں موجود مختلف پارٹیوں کی قوت کے تناسب سے نمائندے منتخب کیے جائیں گے، وہ اپنی تعداد کا دسواں حصہ ہوں گے۔
(ب) ریاستوں کے نمائندگان ان کی آبادی کی بنیاد پر اور اسی تناسب سے لیے جائیں گے، جس اصول پر برطانوی ہند سے لیے جائیں گے۔
(ج) اس طریقے سے معرض وجود میں آنے والی دستور ساز اسمبلی کا نئی دہلی میں ممکن حد تک جلد از جلد اجلاس منعقد ہوگا۔
(د) اپنے ابتدائی اجلاس میں عمومی نوعیت کے معاملات طے کرنے کے بعد یہ تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گی: ایک حصہ ہندو اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا۔ ایک حصہ مسلم اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا اور ایک حصہ ریاستوں کا نمائندہ ہوگا۔
(ھ) پہلے دو حصوں کا الگ الگ اجلاس منعقد ہوگا، جس میں وہ اپنے گروپ میں شامل صوبوں کے دستور وضع کریں گے اور اس کے بعد اگر وہ چاہیں، تو گروپ کا دستور بھی بناسکتے ہیں۔
(و) جب یہ طے پاجائے گا، تب ہر صوبے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ چاہے تو اپنے ابتدائی گروپ سے نکل کر دوسرے گروپ میں شامل ہوجائے، یا گروپوں سے باہر رہے۔
(ز) اس کے بعد تینوں اداروں کا پھر مشترکہ اجلاس ہوگا، جس میں متذکرہ بالا نمبر ایک تا سات پیراگرافوں کے خطوط پر یونین کا دستور تشکیل دیں گے۔
(ح) یونین کے دستور میں کوئی اہم نکتہ، جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو، اسمبلی اس وقت تک منظور نہیں کرے گی، جب تک دونوں بڑے فرقوں کی اکثریت اس کے حق میں رائے ظاہر نہ کردے۔“ (مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/350-351 بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/141-142)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close