مضامین

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے

بھارت میں اردو کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے گھر کو اردو گھر بنائیے،اردو بولیے پڑھیے اور لکھیے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
9897334419
میں دیکھتا ہوں کہ آزادی کے بعد اردو زبان زوال کا شکار ہوئی۔وہ زبان جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا آہستہ آہستہ اس کا استعمال کم ہوتا چلا گیا۔وہ اردو جس نے جنگ آزادی میں ایک اہم رول ادا کیا تھا,وہ اردو جو انسان کے لب و لہجے کو اس کے تلفظ کو عمدگی تاثیر بخشتی ہے وہ اردو زبان جس نے تہذیب وثقافت اور تمدن کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا وہ اردو زبان جس نے ہندوستانی ثقافت کا تعارف پوری دنیا میں کرایا۔وہی اردو آہستہ آہستہ بے اثر بے وزن ہوتی چلی گئی،اس کے قائین کم ہوئے تو اخبارات و رسائل کی تعداد بھی کم ہوگئی۔کتنے ہی اخبارات و رسائل کا بستر سمٹ گیا۔وہی اردو جس کی تعریف میں قصیدے لکھے جاتے ہیں،جس کی عظمت پرسیمنار و سمپوزیم ہوتے ہیں،نظمیں اور ترانے گائے جاتے ہیں، جس کے خادموں کو ہر سال اعزازات سے نوازا جاتا ہے ،جس کے فروغ کے لیے بیشتر ریاستوں میں سرکاری اکیڈمیز قائم ہیں،جس پرایک بڑا سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔جس کی بقا و تحفظ اور فروغ کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔لیکن ان سب کاوشوں کے نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف زبانی جمع خرچ ہے،زمین پر اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
ضروری ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ہمارے بچے اردو پڑھیں،اردو لکھیں اور اردو بولیں۔آج کل سوشل میڈیا پر اردو کو ہم رومن میں لکھ رہے ہیں۔یہ بھی اردو کے مٹنے کا سبب ہے۔اس لیے کہ زبان اپنے رسم الخط سے زندہ رہتی ہے۔دنیا میں کوئی زبان اپنے رسم الخط کے بغیر زندہ نہیں رہی ہے۔جو لوگ اردو بولتے ہیں،انھیں اس کو لکھنا سیکھنا چاہئے،کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ اور موبائل پر ’ٹائپ‘کرنا قلم سے لکھنے کے مقابلے بہت آسان ہے۔انگریزی کی بورڈ سے بھی اردو کواس کے اپنے رسم الخط میں لکھا جاسکتا ہے۔چاہے ہم لکھنے میں غلطیاں کریں۔لیکن اردو رسم الخط کا ہی استعمال کریں،ہمیں بھی اپنے دوستوں کی غلطیوں کی خیر خواہانہ انداز میں اصلاح کرنا چاہئے یا نظر انداز کرنا چاہئے۔کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اردو لکھتا ہے،اس سے بعض الفاظ کا املا غلط ہوجاتا ہے تو کچھ احباب جن کا مزاج ہی دوسروں کی تنقیص ہوتا ہے وہ ان کو اس بھونڈے انداز میں ٹوکتے ہیں کہ وہ اردو رسم الخط سے توبہ کرلیتا ہے۔
اردو کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنے گھر کو ’اردو گھر‘ بنانا چاہئے۔ہم ا یک دو درجے انگلش پڑھ کرانگریزی الفاظ بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں،جب کہ اس طرح ہماری زبان چوں چوں کا مربہ بن جاتی ہے۔ہم نے اپنے ایک دوست کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے سے کہہ رہے تھے۔”بیٹا ونڈو بند کردو“۔ظاہر ہے اس جملہ کو آپ انگریزی نہیں کہہ سکتے اور یہ اردو میں بھی پیوند کاری ہے۔جب کہ اردو میں ونڈو کا متبادل لفظ کھڑکی موجود ہے۔وہ انگریزی الفاظ جن کو من و عن اردو میں استعمال کیا جاتا ہے ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔جیسے لالٹین،کاپی،بس وغیرہ۔زبان جو بھی بولیے اسے اس کے آداب کے ساتھ بولئے۔جب انگریزی بولنا ہو تو خالص انگریزی بولیے،جب اردو بولیں تو فصیح و بلیغ الفاظ کا استعمال کریں۔اردو زبان میں ہمارا دینی و علمی سرمایہ موجود ہے اس لیے اپنی نسلوں کو اردو ضرور سکھائیے تاکہ وہ آپ کی علمی وراثت کی حفاظت کرسکیں۔
ہمارے بچے جن اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان اسکولوں کی انتظامیہ سے مطالبہ کریں کہ وہاں اردو کا مضمون شروع کریں۔اگر ایسا نہ ہوسکے تو اپنی بستیوں میں اردو کی تعلیم کا نظم کریں۔مساجد کو مرکز تعلیم بنائیں۔گھر پر اردو کا معلم بلائیں۔اگر ہم اردو کاتحفظ ضروری سمجھتے ہیں تو اس کو سیکھنے اور سکھانے کے لیے محنت کریں،ورنہ ہر اردو خواں اور اردو داں کے جنازے کے ساتھ اردو کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا جیسا کہ اس وقت ہورہا ہے۔
مردم شماری کے وقت مادری زبان کے خانہ میں اردو لکھوائیں۔تعلیم نہ ہونے کے سبب ہم دیکھ نہیں پاتے کہ سرکاری اہلکاروں نے کیا لکھا ہے۔محلہ کے پڑھے لکھے افراد کو چاہئے کہ وہ اس کا اہتمام کریں کہ جب مردم شماری والے آئیں تو ان کے ساتھ رہیں اور ہر مسلمان کی مادری زبان اردو لکھوائیں۔اس سے سرکاروں پر اردو کی تعلیم کے لیے دباؤبنانے میں سہولت ہوگی۔
جن ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے،وہاں تمام دفاتر میں اردو میں درخواستیں دیں،آفیسران سے اردو کے فارم کا مطالبہ کریں۔یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ یہاں اردو میں فارم موجودنہیں ہے اردو کا فارم طلب کریں تاکہ وہ آفیسر اپنے ذمہ داران کو اردو کی ضرورت بتا سکے۔اس معاملہ میں کسی تأمل،ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں،یہ ہماری اپنی زبان ہے،اردو میں فارم کی دستیابی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح ہم روزانہ ایک خط اردو میں لکھیں اور اس پر پتابھی اردو میں ہی لکھیں چاہے وہ خط برائے خط ہو۔اگر روزانہ ایک ہزار لوگ ایک مہینے تک ایسا کریں گے تو محکمہ ڈاک کو اردو دانوں کی ضرورت کا احساس ہوگا کیوں کہ وہ بہت دنوں تک اسے نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔حکومت یا تو اردو والوں کو بھرتی کرے گی یا اپنے ملازمین کو اردو سکھائے گی۔ہمارے ایک دوست تسلیم احمد تھے وہ ریلوے کا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) اردو میں خرید کر لوگوں کو دیتے تھے،وہ روزانہ آٹھ دس نظام الاوقات خریدتے،جس کے لیے انھیں بار بار قطار میں لگنا پڑتا تھا،جب ان سے معلوم کیا گیا کہ وہ اتنے نظام الاوقات کا کیا کرتے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ میں اس لیے خریدتا ہوں کہ حکومت کو اس کی ضروت کا احساس رہے اور اس کی طباعت بند نہ ہو۔
ہر محب اردو اردو کا اخبار یا رسالہ ضرور خریدے۔اگر کسی بستی یا شہر میں ایجنسی نہیں ہے تو پانچ پرچوں کی ایجنسی لے۔خود نہیں پڑھ سکتا تو کسی اردو پڑھنے والے کو دے دے یا کم سے کم جب گھر میں اردو کا اخبار آئے گا تو بچے دیکھیں گے کہ یہ اردو زبان ہے۔ ہوسکتا ہے روز روز دیکھ کر ان میں اردو سیکھنے کی رغبت پیدا ہو۔
اپنے گھروں پر اپنے نام کی تختی اردو میں لگائیں،اپنے دفاتر،اسکولوں، دوکانوں اور کارخانوں کے بورڈ اردو میں بھی لگائیں۔دیواروں اور چوراہوں پر اردو کے سائن بورڈ آویزاں کیے جائیں،اردو میں اشعار،اقوال زریں،قرآن و احادیث کے تراجم لکھے جائیں۔اشعار کو لوگ پسند بھی کرتے ہیں۔ہم اپنے گھروں کی بیرونی دیواروں پر میرؔ وغالب ؔوغیرہ کے اشعار لکھیں۔
مسلمان جو بھی تعلیمی ادارے چلاتے ہیں ان میں اردو کا مضمون ضرور پڑھائیں۔اس میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہ ہوں۔اردو کا حق یہ کہہ کر بھی مارا گیا ہے کہ اسے مسلم اقلیت کی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا بلکہ یہ کہہ کر مسلمانوں کو خوش کردیا گیا کہ یہ سارے ملک کی زبان ہے۔ہمارا مطالبہ ہوناچاہئے کہ اردو کو مسلم اقلیت کی زبان کا درجہ دیا جائے تاکہ اقلیتوں کی زبان کے تحفظ کے نام پر حکومت بجٹ مختص کرے اور اس کے فروغ کی کوششیں کرے۔
اپنے بچوں کو اردو میں نظمیں اور ترانے یاد کرائیں،اردو میں ویڈیو کلپ بنائیں،سوشل میڈیا پر اردو کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔جدید ذرائع کو اردو کی ترسیل اور اشاعت کے لیے استعمال کریں۔یہ دور میڈیا کا دور ہے۔ہم میڈیا کو اردو سے جوڑیں۔تب ہم اردو کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگرہم مندرجہ بالا چند کام کرلیں تو اردو کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔صرف اردو کی عظمت رفتہ کی کہانیاں سنانے پر اکتفا نہ کریں یا موجودہ حالات کی کربنا کیوں کا تذکرہ کرکے مایوسی کا شکارنہ ہوں بلکہ حوصلہ مندی کے ساتھ اردو کوہم روز مرہ کی زبان بنائیں۔ایک بار مولانا ابوالکلام آزاد سے وائے سرائے ملنے آیاتو مولانا نے ایک مترجم رکھا جو وائسرائے کی گفتگو کو اردو میں ترجمہ کرتا اور ابوالکلام آزاد ؒ کی بات کو انگریزی میں پیش کرتا۔ایک جگہ اس نے غلطی کی تو مولانا نے اسے انگریزی میں ٹوکا اور کہا کہ میری بات کا انگریزی ترجمہ وہ نہیں ہے جو تم نے پیش کیا ہے اور خود اسے صحیح ترجمہ بتایا۔گفتگو ختم ہونے کے بعد وائسرائے نے کہا کہ جب آپ خوداس قدر اچھی انگریزی جاتے ہیں تو مترجم کی کیا ضرورت تھی۔ابواکلام آزاد ؒ نے جو جواب دیا وہ دلوں پر نقش کرنے کے لائق ہے۔مولانا نے فرمایا:”تم ایک ہزار میل دور آکر بھی اپنی زبان میں بولواور میں اپنے وطن میں رہ کر ہی اپنی زبان بھول جاؤں“۔اس لیے ہم اپنی زبان بولیں۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے۔مجھے کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں اردو بولنے والے کثرت سے ملے۔خلیجی ممالک میں اردو اسی طرح بولی اورسمجھی جاتی جیسے دہلی اور لکھنو میں بولی سمجھی جاتی ہے،بعض عرب نہ صرف اردو بولتے ہیں بلکہ اردو میں شاعری کرتے ہیں۔دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اردو کے فروغ کی انجمنیں قائم ہیں،وہاں ادبی پروگرام ہوتے ہیں،مغربی ممالک میں بھی اردو کے سیمنار اور مشاعرے ہوتے ہیں اور وہاں پر اردو کے فروغ کے لیے انجمنیں زبردست کام کررہی ہیں۔اس لیے یہ سمجھنا کہ اردو ختم ہوجائے گی خام خیالی ہے۔البتہ ہم اگر اردو نہیں بولیں گے تو ہمارے گھر سے اردو ختم ہوجائے گی۔
یہ بات صد فی صد درست ہے کہ اردو کے بغیر تلفظ درست نہیں ہوسکتا۔میں بڑی بڑی علمی شخصیات سے ملا۔میں نے محسوس کیا کہ اگر وہ اردو نہیں جانتے تو ان کے تلفظ درست نہیں ہوتے۔وہ کب ’جلیل‘ کو’ذلیل‘کردیں اور کب کس کی ’اجّت‘(عزت)کا جنازہ نکال دیں کچھ نہیں معلوم۔ہمارے ایک دوست ماسٹر بھوپیندر سنگھ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ”سراج صاحب میں نے انگریزی میں ایم اے کیا ہے لیکن انگریزی میں آپ کا تلفظ مجھ سے اچھا ہے،آپ کی گفتگو میں انگریزی الفاظ کا تلفظ بھی پر کشش ہے،ان کا کہنا ہے کہ اگر تلفظ درست کرنا ہے اور لہجے میں شیرینی و چاشنی پیدا کرنا ہے تو اردو ضرور سیکھیں۔“۔بلاشبہ اردو زبان انسان کو شائستگی،شگفتگی اور اثر انگیزی عطا کرتی ہے۔بقول شاعر:
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close