مضامین

ڈاک کا دم توڑتا نظام

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پیغام رسانی کا کام تو زمانۂ قدیم سے جاری ہے اور یہ انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے ، البتہ اس کے نظام اور طریقۂ کار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، پہلے یہ کام ہر کاروں سے لیا جاتا تھا، شیر شاہ سوری نے 1541ء میں بنگال اور سندھ کے بیچ پیغام رسانی کے لیے گھوڑوں کا استعمال کیا ، ڈاک کا موجودہ نظام ہندوستان میں 1766ء میں رابرٹ کلائیو نے رائج کیا ، 1774ء میں برطانوی حکومت کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگس نے اسے منظم کیا اور 31مارچ 1774ء میں کلکتہ میں جنرل پوسٹ آفس (GPO) کھولا گیا۔ اس سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے 1786ء میں مدراس جنرل پوسٹ آفس اور 1793ء میں ممبئی جنرل پوسٹ آفس کا قیام عمل میں آیا۔ان تینوں جنرل پوسٹ آفس کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے ضوابط بنائے گئے ۔ اور کل ہند ڈاک خدمات کا آغاز ہوا۔1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا، اس وقت پورے ہندوستان میں کل تئیس ہزار تین سو چوالیس(23344) ڈاکخانے تھے ۔ان میں سے انیس ہزار ایک سو چوراسی(19184)دیہی اور چار ہزار ایک سو ساٹھ(4160) شہری حلقوں میں کام کر رہے تھے ۔اب بھی دیہی علاقوں میں ہی ڈاک کا نظام کسی درجہ میں قائم ہے ، ورنہ سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کے اس دور میں اس کا مصرف صرف دفتری خطوط کی ترسیل اور اخبارات و رسائل کو مقامات تک پہونچانے کا رہ گیا ہے ۔ اس میں بھی صارفین کی طرف سے تاخیر اور گمشدگی کی شکایت عام ہے ۔ اس کے با وجود اب بھی پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دیہی علاقوں میں ان دنوں ڈاک گھروں کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزار سڑسٹھ(139067) ہے جو اوسطاً21.56کیلو میٹر کی دوری پر ہے ۔
ڈاک کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف سالوں میں اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، 1972ء میں پوسٹل انڈکس نمبر یعنی پن کوڈ کی شروعات کی گئی ،1984ء میں ڈاک جیون بیما اور 1986ء میں اسپیڈ پوسٹ نے ڈاک کے نظام کو تیزرفتار بنایا ۔ 1996ء میں تجارتی ڈاک خدمات کو سامنے لایا گیا اور جب انٹرنیٹ کی آمد ہو ئی تو 2001ء میں الیکٹرونک فنڈ منتقلی نے رواج پایا۔ ڈاک کے پرائیوٹ نظام ’’کوریئر‘‘ کو مات دینے کے لیے شعبۂ ڈاک نے اکسپریس پارسل، تجارتی پارسل، وصولی کے وقت قیمت کی ادائیگی ، رقم کی منتقلی وغیرہ خدمات کے ذریعہ مقابلہ کی کوشش کی ۔لیکن سرکاری کارندوں کی خدمات میں کوتاہی کے نتیجے میں سامان اور پیغام رسانی کے نظام میں نجی کمپنیوں پر سرکاری ڈاک سبقت نہ لے جا سکی۔
ڈاک میں استعمال ہونے والے پوسٹ کارڈ، انتر دیشی ، لفاف وغیرہ کی مانگ کم ہوئی اور اب سوشل میڈیا کی تیز رفتاری نے بہت ساری جگہوں پر اس نظام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔اور محاوروں کی زبان میں کہیں تو ’’ڈاک خانوں کے دن لد گئے۔‘‘
کارڈ وغیرہ کے علاوہ ڈاک خانہ کے نظام میں ڈاک ٹکٹوں کی بھی بڑی اہمیت رہی ہے ، یکم مئی 1840ء کو پہلا ڈاک ٹکٹ پینی بلیک( Penny Black)کے نام سے برطانیہ میں جاری ہواتھا، ہندوستان میں پہلا ڈاک ٹکٹ 1852ء میں سوبہ سندھ میں جاری ہوا۔ اسی سال صوبہ سندھ کے گورنر نے ڈاک مہر کا سلسلہ شروع کیا، 1854ء میں ہندوستان میں نصف آنہ، ایک آنہ اور چار آنے کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گیے ۔ان پر مہارانی وکٹوریہ کی تصویر ہوا کرتی تھی ، کیوں کہ ہندوستان غلام تھا اور ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں کی بھی ملکہ تھی۔اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت از دہلی تا پالم ہی رہ گئی تھی ۔ہندوستان میں ڈاک ٹکٹوں کی طباعت کا کام 1926ء میں شروع ہوا ، 21نومبر 1947ء کو آزاد ہندوستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ عوام کی خدمت کے لیے پیش ہوا۔ اور 15اگست 1948ء سے گاندھی جی کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر شائع ہونے لگی۔اس کے بعد ملک کی نامور شخصیات پر ڈاک ٹکٹوں کا سلسلہ شروع ہوا ؛ جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر بھی ڈاک ٹکٹ شامل ہے ۔ ریشمی رومال تحریک کے نام سے بھی ایک ڈاک ٹکٹ محکمہ نے جاری کیا تھا۔
ان تما م کے با وجود ڈاک کا نظام دم توڑتا جا رہا ہے، ڈاک خانہ کے ذریعہ بھیجی جانے والی چیزیںیا تو ملتی نہیں ہیں ، یا ملتی ہیں تو مہینوں لگ جاتے ہیں ، عام ڈاک ہی نہیں اسپیڈ پوسٹ تک کا یہی حال ہے ۔ نقیب کے شمارے قارئین تک نہیں پہونچنے کی شکایتیں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ہر ہفتہ پتہ چیک کر کے نقیب ڈاکخانوں میں ڈالا جا تا ہے ، لیکن ڈاک کی گڑبڑی سے وہ جگہ تک نہیں پہونچتا ظاہر ہے ادارہ اس میں کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ خریداروں کو مقامی ڈاکخانوں سے رجوع کر کے وہاں کے بڑے پوسٹ آفس میں شکایت درج کرانی چاہئے اور اس کی کاپی نقیب کے دفتر کو بھی ارسال کی جائے تاکہ پٹنہ کے صدر ڈاک خانے تک ہم بھی آپ کی شکایت پہونچا سکیں ۔اس سے زیادہ کچھ ادارہ کے بس میں نہیں ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ نہ ملنے کی شکایت ہمیں ملے اور وہ شمارہ ہمارے پاس موجود ہو تو اسے دوبارہ بھیج دیں ۔مشترکہ جد و جہد سے شاید کوئی راہ نکل آئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close