اہم خبریں

عدلیہ کا فیصلہ سرآنکھوں پر !،مگر”ہم نے تووہاں بابری مسجد دیکھی تھی

جاویدجمال الدین

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے فریقین کو ثالثی کے کئی مواقع دیئے اور ہدایت دی کہ سبھی لوگ اس بات کی کوشش کریں کہ اجودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر مقدمہ کے بارے میں بیرون عدالت سمجھوتہ کرلیا جائے ،لیکن مذکورہ پینل میں ایسے افراد کو بھی شامل کرلیا گیا جوکہ مندر کے لیے تحریک بھی چلاچکے تھے اور اکثریت کے حق میں فیصلہ نہ ہونے کے نتیجے میں خانہ جنگی کی دھمکی بھی دے چکے تھے۔خیرآپسی فیصلہ نہیں ہوا،اور عدالت نے ہرروزمقدمہ کی سماعت کا اعلان کرتے ہوئے سبھی فریقین کی دلیلیں سنیں اور فیصلہ محفوظ کرلیا ،پھرکیا تھا ،بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا یعنی قومی ،علاقائی اور گلی محلے کا رہنماءسپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے اور امن وامان کی پُرزور اپیلیں کرنے لگا ،ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ ہرکوئی سہم کررہ گیا۔ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی مسلمان تو گزشتہ چھ سال سے ہی نہیں بلکہ 70برس سے خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرتے ہیں ،پہلے کم ڈرتے تھے ،لیکن اب زیادہ ڈرنے لگے ہیں،کیونکہ دوسری مرتبہ این ڈی اے کی کامیابی کے بعد وزیراعظم نریندرمودی نے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں آئین ہند کے سامنے جھکنے کے بعد اس بات کا حیرت انگیز طورپر اظہار کیا تھا کہ ملک کی اقلیت کو اعتماد میں لینا ہوگا ،اور انہوںنے ”سب کا ساتھ ،سب کا وکاس “ کے ساتھ ساتھ ”سب کا وشواس “ کا نعرہ جوڑدیا،یہ محسوس ہوا کہ اچھے دن آنے والے ہیں یا ایک بہتر دورکا تصورذہن میں پنپنے لگا ،لیکن حکومت کی باگ ڈورسنبھالنے کے بعد اس کے برعکس اقدامات کیے گئے ہیں، جس سے اقلیتی فرقہ سہم کررہ گیا ہے۔پہلے مسلم خواتین کے حقوق کے نام پرتین طلاق قانون ،پھر این آرسی کی تلوار اور 9نومبر 2019کو بابری مسجد کے مقدمہ کے فیصلہ نے توجیسے اس کی کمر توڑکررکھ دی ہو۔
سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے ،اور اس متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیرکا حکم صادر فرما دیا ،مسلمانوں کو الگ سے پانچ ایکٹر زمین دےنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔حیرت انگیز طورپر عدالت عالیہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہاں جو مسجد تعمیر کی گئی تھی ،اس کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ کسی عمارت کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیر ہوئی تھی ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہیں مندر کی تعمیر کا حکم کیوں دیا جارہا ہے ،جہاں 1992کو اُسے مسمار کردیا گیا تھا اور کروڑوں آنکھوں نے مسجد کو دیکھا ہے۔ان میں مسجد کے حامی ہی نہیں بلکہ مندر وہیں بنائیں گے ،جیسا نعرہ لگانے والے بھی شامل ہیں۔وہ بھی اس نعرہ کے ذریعہ تسلیم کرتے ہیں ،مطلب 6دسمبر 1992کو وہاں مسجد پائی جاتی تھی،لیکن عدلیہ کا حکم سرآنکھوں پر رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے ،تاکہ امن وامان اور بھائی چارگی برقراررہے ۔
ورنہ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کی شام 6 بجے ”بھارت ورش کے مانیہ پردھان منتری پی وی نرسمہا راﺅنے ملک کی تاریخ کے سانحہ عظیم کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیاتھا کہ بابری مسجد کو شہید کردیا گیا ہے اورانہوں نے یہ بھی یقین دلایا تھا،بلکہ زوردے کر وعدہ کیا کہ مسجدکوہرحال میںو ہیں اسی مقام پر تعمیر کیا جائے گا، خیر وعدہ وفا نہیں ہوا،نہ ہی نرسہماراﺅ مرتے دم تک اس بات کو بتانے میں ناکام رہے کہ 6دسمبر 1992کو صبح ساڑھے گیارہ بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک ایسے کس کام میں مصروف رہے تھے کہ اجودھیا میں بھاری سلامتی دستوں کی موجودگی کے باوجود ایک تاریخی مسجد کو بچانے میں حکومت اور انتظامیہ ناکام رہے ،انہوںنے 6دسمبر 1992کی شام قوم سے جو وعدہ کیا تھا ،اس کے بارے میں نرسمہا راﺅ کی کابینی رفقاءکیے گئے وعدے سے مکرگئے ۔ حالانکہ پی وی نرسہماراﺅ نے ڈاکٹرمن موہن سنگھ کی مدد سے ملک میں کھلی اقتصادی پالیسی نافذ کی اور ملک ایک نئے دورکی جانب رواں دواں ہوا ،مگر اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت پر پراسرار خاموشی اور مشتبہ رویہ کی وجہ سے کافی ذلیل و خوار ہوئے، جس کے سبب کھلی اقتصادی پالیسی کے بجائے بابری مسجدکی مسماری کا تمغہ ان کے سینے پر لگ گیا،یہ ان کی کھلی کتاب ہے اور پھر ان کا جوحشر ہوا تھا ،وہ دنیا نے دیکھا ہے۔
بابری مسجد ایک حقیقت تھی ،6دسمبر 1992 کو اس کی مسماری کا لاکھوں کروڑوں انسانوںنے آنکھوں دیکھا حال دیکھا تھا،اس دردناک واقعہ کے بعد 7 دسمبر 1992 کی صبح جب آنکھ کھلی توبے اطمینانی اور عدم اعتماد کی فضاءچاروں سمت نظرآرہی تھی،کیونکہ ہزاروں سلامتی دستوں اور نیم فوجی جوانوں کی موجودگی اور کروڑوں ہندوستانیوں کی آنکھوں کے سامنے مسجد شہید کر دی گئی تھی اورکوئی بھی اخبار ایسا نہیں تھا، جس نے بابری مسجد کی شہادت کو ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن نہ قرار دیاہو۔اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا،مرکز میں کانگریس کی پی وی نرسمہا راو حکومت خاموش تماشائی بنی رہی اور انتظامیہ اور پولیس کا محکمہ ناکام ثابت ہوا تھا،بلکہ مسلح اہلکار بھی ایک طرف کھڑے رہ گئے۔مسلمان اس موقع پر بے یارومددگار نظرآئے اورانہیں اس ملک میں دوسرے درجے کا شہری بن جانے کا احساس ہونے لگا۔وہ یہ محسوس کرنے لگا کہ وہ اپنی حیثیت کھوچکا ہے ،1947کے بعد سے اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش جاری رہی ،لیکن پہلے بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات ،پھر گجرات کی خونریزی سے وہ ٹوٹ سا گیا ،لیکن گزشتہ چھ برس میں مرکز کی مودی حکومت کے متعدد فیصلوں اور قانون نے اسے کمزور وناتواں کردیا ہے۔ممبئی میں بابری مسجد کے بعد جن فسادات کو ہندومسلمان قراردیا جانے لگا ،وہ دراصل مسلمانوں کا حکومت ،انتظامیہ اور محکمہ پولیس کے خلاف غم وغصہ تھا،جس نے تشدد وخون خرابے کی شکل اختیار کرلی تھی۔
ممبئی سمیت ملک کے متعدد شہروں میں یہی حال رہا ،عروس البلاد دو ماہ تک آگ میں جلتا رہا اور سیاستدان اپنے ہاتھ سیکتے رہے۔حالانکہ دسمبر 1992اور جنوری 1993 کے دوران رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کے بعد ممبئی ہائی کورٹ کے اسٹنگ جج جسٹس بی این سری کرشنا نے ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹ پیش کی تھی،جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آگیا ۔ حالانکہ کمیشن نے دشواریوں کا سامنا کیا ۔ایک بار منوہر جوشی حکومت نے اسے تحلیل بھی کردیا تھا۔اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی لوگوں کو انصاف نہیں ملا ہے۔البتہ 12مارچ 1993کو ہوئے بم دھماکوں کے معاملہ کوبھی نمٹ جانا چاہئیے تھا۔ اس کے بعد کا دورایک آزمائشی دوررہا ، انسان انسان سے دور ہوا، نفرت اور غلط فہمی کی دیوار کھڑی ہوئی اور جانب داری کا احساس ہرروزہونے لگا اور عارضی طورپر اس میں کمی واقع ہوئی ہے ،لیکن کب کیا ہوجائے اس کا یقین نہیں ہے ۔ گجرات کا قتل عام،موب لانچنگ نے عام مسلمان کو اندرسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔احساس کمتری ، عدم اعتماد اور خوف وڈر کا اثرنفسیاتی طورپر ملک کی آزادی اور تقسیم سے پیدا شدہ حالات سے زیادہ پایا جانے لگا ہے ، 1947میںہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے سب سے ،زیادہ مسلمانوں کونقصان اٹھانا پڑا اور وقتاً فوقتاً ہونے والے فسادات نے 70سال کے عشرے میںانہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔حالانکہ سری کرشنا کمیشن رپورٹ جیسی غیر جانبدارانہ رپورٹ نے اس کے تن مردہ میں روح پھونک دی ،لیکن گجرات ،مظفرنگر اور حال کی ہجمومی تشدد نے اس کے حوصلہ پست کردیئے ہیں۔ رہی سہی کسر سچر کمیٹی کی رپورٹ نے نہیں نکال دی تھی اور مسلمانوں کی عام حالت کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا اور واضح علامت پیش کی کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے ساتھ کسی حد تک امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ۔2006 میں پیش کی جانے والی سچر کمیٹی رپورٹ کے حوالے سے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنا نے کی سمت میں ایک مثبت پہل کی جائے ۔کیونکہ جہاں تک جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان ملک میں انتہائی پسماندہ دکھائے گئے ہیں ، معاشی اور سماجی طور پر مضبوط نہیں ہیں ۔
مسلمان آج بھی سماجی سیاسی اور معاشی طورپر پسماندگی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ۔حالانکہ برسراقتدار لوگوں کو یہ یاد رکھنا ہوگاکہ انہیں نظرانداز کرکے ملکی ترقی کے لیے سوچنا حماقت ہے، سچر کمیٹی رپورٹڈ کے مطابق مسلمانوں کی حالت ہندوستان میں دلتوں سے بھی زیادہ بدتر ہوچکی ہے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اس کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ اقلیتوںکے لیے مخصوص فلاحی اسکیمیں مسلمانوں تک پہنچائی جائیں ،تاکہ اس کا فائدہ پہنچے۔ موجودہ حکومت ظاہری طورپر سب کی ترقی کا نعرہ لگارہی ، اسے چاہیئیے کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے پوری ایمانداری کے ساتھ سچرکمیٹی کی سفارشات کے تحت اسے نافذ کرنے کے لیے قرارداد منظورکرائی جائے۔
جہاں تک بابری مسجدلا سوال ہے کہ محترم اور معزز سپریم کورٹ سے معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ 9نومبر 2019کو وہاں مندر کی تعمیر کے اُس کے حکم نے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے ، کیونکہ ”آپ مانے یا نہ مانے 6دسمبر1992 تک اجودھیا میں ہم نے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا نے پانچ سوسال قدیم بابری مسجد دیکھی تھی۔“
javedjamaluddin@gmail.com
9867647741

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close