زبان و ادب

ابو الاسرار رمزؔی اٹاوی کا شعری نگار خانہ

شاعری الفاظ کی صنّاعی اور موزوں فقرات کی پُر کیف صورت گری کا نام ہے ۔ شاعری کا ذریعۂ اظہار الفاظ ہیں ۔ اسی میڈیم کو ہنر مندانہ طور پر برت کر ہی شاعر اپنے جذباتِ شعری کو پیکرِ وجود و حیات عطا کرتا ہے ۔ اظہارِ فن کی کامیابی ” میڈیم ” کے ہنر مندانہ استعمال پر منحصر ہے ۔ تجربۂ فن اور پیکرِ فن میں مکمل ہم آہنگی ضروری ہے ۔ شاعری کے روپ کی سُندرتا ( حسن ) یہ ہے کہ وہ اندرونی سندرتا کا درپن ہو ۔ شاعری کا ظاہری اور صوری پہلو الفاظ ہیں اور اس کا معنوی و باطنی پہلو معانی و خیالات ہیں ۔ بغیر جامِ الفاظ کے ، بغیر مینائے ترکیب کے ، صہبائے شاعری نشہ آور نہیں ہو سکتی ۔ مختصر یہ کہ انتخابِ الفاظ ، ترکیبِ الفاظ ، فقروں کی حسین بندش ، جملوں کی مناسب تراش خراش ، ان کا رکھ رکھاؤ ، سلاست و فصاحت ، بلاغت و تغزل ٬ ترنم و آہنگ ، لب و لہجہ ، دلکش اسلوبِ بیان ٬ اوزان و بحور ، قوافی و ردائف ، مصرعوں اور شعروں کی گڑھت ، بندوں کی تشکیل ، ان سارے اجزا کی کلی تجسیم شعر و سخن کے لیے ضروری اور فن کے حسنِ تکمیل کے لیے لازمی ہے ۔ فن کی نوعیت چاہے جو بھی ہو ٬ اس کی ساری قسمیں تجرباتِ زندگی سے خام مواد حاصل کرتی ہیں اور ترتیبِ فن کی اندرونی شخصیت سے نئی ترتیب ، تازگی ، زندگی ، روح ، سوز و ساز اور تعمیر و معنویت اخذ کرتی ہیں اور پھر پیشکش کی منزل میں فنکار کی ہنر مندی سے ترتیب و تناسب ، ربط و ہم آہنگی ، تراش خراش ، وضع قطع ، اسلوب و ادا ، تنظیم و تعمیر پاتی ہیں ۔ غرض کہ فن فطرت ٬ معاشرہ ، زندگی اور حیات و کائنات کی محض ترجمانی کا نام نہیں ، بلکہ اس کی تخلیقِ جدید کا نام ہے ۔

مناظرِ فطرت اور معاشرتی اقدار کو اپنے فن میں سمو کر زندگی کی ترجمانی کرنے والے شاعرِ با کمال ( جن کو مصورِ مناظر و نقاشِ فطرت بھی کہا جاتا ہے ) جناب ابو الاسرار رمزؔی اٹاوی شعر و سخن کے رموز و اسرار سے بخوبی واقف تھے ۔ ان کے کلامِ بلاغت نظام میں معنویت ٬ اسلامیت ٬ صالحیت اور شعریت ساری چیزیں موجود ہیں ۔ وہ اپنی ہنر مندانہ شعری تخلیقات سے ایک انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا انقلاب جس میں طہارتِ فکر و نظر کا سامان اور نفاستِ فن کا امکان موجود ہو ۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز بھی ہے اور روح کے تار کو جھنجھوڑنے والی صدائے دل نواز بھی ۔ ” تذکرہ معاصر شعرائے جودھپور ” میں آپ کا تعارف ان الفاظ میں مذکور ہے : نام ظہور احمد ، رمزؔی تخلص ۔ علم وادب کی دنیا میں رمزؔی اٹاوی کے نام سے مشہور ہیں ۔ رمزؔی صاحب ۱ /دسمبر ۱۹۱۲ ء میں اٹاوہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام منشی مولیٰ بخش رحمانی ہے ۔ اٹاوہ کے اسلامیہ انٹر کالج سے ۱۹۲۹ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ انجمن ہدایت اسلام میں انگریزی کے مدرس رہے ۔ اسی زمانے میں شاعری کا شوق ہوا ۔ ۱۹۳۲ء میں جودھپور آئے اور محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے ۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رہا ۔ منشی ٬ کامل الہٰ آباد یونیورسٹی سے اور ایم ۔ اے ۔ انگریزی کی ڈگری علی گڑھ یونیورسٹی سے لی ۔ ادیب کامل جامعہ اردو علی گڑھ سے اور ایڈوانس ہندی کا امتحان الہٰ آباد یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ ۱۹۴۲ء میں آپ کو جودھپور ریڈیو پر شعبۂ اردو کا انچارج بنایا گیا ۔ ۱۹۷۷ء میں راجستھان اردو اکادمی کے ممبر نامزد ہوئے ۔ علامہ سیماب اکبر آبادی کے فارغ الاصلاح شاگرد رمزؔی اٹاوی مشاعروں میں تحت اللفظ میں پڑھتے تھے اور پڑھے لکھے طبقے میں پسند بھی کیے جاتے تھے ۔ رمزؔی صاحب کی نیچرل نظموں سے متاثر ہو کر حضرت بیدل بدایونی نے ان کو ” مصور مناظر ” لکھنا شروع کر دیا تھا ……… آپ کی نظمیں جماعت اسلامی کے اسکولی نصاب میں شامل ہیں ۔ آپ نے انگریزی میں بھی مضامین لکھے ہیں ………. رمزؔی صاحب کا کلام ہند و پاک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے ۔ ان کی کوشش یہی رہتی ہے کہ سب فرقوں میں اتحاد اور سب افراد میں میل ملاپ ہو ۔

( تذکرہ معاصر شعرائے جودھپور ٬ ص : ۱۰۷ ٬ مطبوعہ : راجستھان اردو اکادمی ٬ جے پور )

ہر بڑے شاعر کا اپنا ایک نجی ادبی اور فنی آئیڈیا لوجی ( نظریہ ) ہوا کرتی ہے ٬ جس کی روشنی میں وہ اپنا شعری و ادبی سفر جاری رکھتا ہے ۔ مفکرِ قوم و ملت ٬ شاعرِ مشرق جناب ڈاکٹر اقبالؔ نے اپنے ادبی نظریے کی ترجمانی اس تحریر میں کی ہے جس کا عنوان ہے : جناب رسالت مآب کا ہم عصر عربی شاعری پر تبصرہ ” ۔ اس مضمون میں اقبالؔ قرآن مجید کی سورۃ الشعراء کی آخری آیات کی وضاحت حضور علیہ السلام کی احادیث کی روشنی میں کرتے ہیں کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں ہونی چاہیے ۔ سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ دنیا دار شاعروں کے بارے میں کہتا ہے : شاعروں کے پیچھے تو بے راہ لوگ ہی چلتے ہیں ۔ کیا تم انہیں ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے نہیں دیکھتے اور وہ جو کچھ کہتے ہیں ، کرتے نہیں ۔ ماسوا ان کے جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور اللہ کو خوب خوب یاد کیا ۔ قرآن مجید کی انہیں آیات کی روشنی میں ایک مرتبہ دورِ جاہلیت کے معروف عربی شاعر امرأ القیس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رائے ظاہر کی کہ وہ شاعروں کا سرتاج ہے لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سردار ہے ۔ اقبالؔ کہتے ہیں حضور علیہ السلام نے یہ کیوں ارشادفرمایا ؟ امرأ القیس کی شاعری میں ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے ؟ شرابِ ارغوانی کے دور ، عشق و حسن کی ہوش ربا داستانیں ، آندھیوں سے اڑی ہوئی لٹی پٹی بستیوں کے کھنڈر اور ریتیلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے مناظر ۔ امرأ القیس اپنے سامعین پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بیداری کی بجائے نیند کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔ یعنی حقیقت سے فرار کی راہ دکھا تا ہے ۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ آرٹ میں جو کچھ خوب ( اچھا ) ہے ، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں بھی خوب سے مشابہت رکھتا ہو …………… شاعری در اصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعری پر جو زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے فرسودگی اور انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھائے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے ۔ ایک اور موقع پر حضور علیہ السلام کے سامنے قبیلۂ بنو عبس کے معروف شاعر عنترہ کا ایک شعر پڑھا گیا جس کا مفہوم تھا کہ میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں ، تاکہ میں اکلِ حلال کے قابل ہوسکوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شعر سے بڑے متاثر ہوئے اور شاعر سے ملاقات کے شوق کا اظہار کیا ۔ عنترہ کی یہ عزت افزائی کیوں کی گئی ؟ ڈاکٹر اقبالؔ کہتے ہیں : اس لیے کہ عنترہؔ کا شعر صحت بخش حیات کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے ۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جوسختیاں اٹھانا پڑتی ہیں ، اس کا نقش پردۂ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی سے کھینچا ہے ۔ ظاہر ہے آرٹ ( ادب ) حیات انسانی کے تابع ہے ۔ اس کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے ۔

( افکارِ اقبال ، ص : ۴۷ )

رمزؔی کے ذہن و دماغ پر شروع سے سرسید ٬ حالؔی اور اقبالؔ کے افکار حاوی رہے اور آپ آغازِ سخن سے ہی ” مقصدی و افادی ادب ” کے حامی و مؤید رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں مقصدی ادب کی صدائے باز گشت صاف سنائی دیتی ہے ۔ اپنی ایک کتابچہ ” حریمِ نیاز ” میں لکھتے ہیں کہ ” میں صالح ادب کا حامی ہوں ۔ اس مقصد کے لیے میں نے جلد ہی غزل کہنا چھوڑ دیا اور نظم کہنے کی طرف مائل ہو گیا ” ۔ مقصدی ادب نغمہ و بلبل ٬ گل و لالہ اور خیالی حسیناؤں کی پُر پیچ زلفوں میں کا اسیر ہونے کے بجائے زندگی و بندگی کے بلند ترین مقاصد کو پیش نظر رکھتا ہے اور حیات و کائنات کے ان گنت مسائل و موضوعات کو ایک خاص زاویے سے دیکھتا ہے اور ایسا ادب تخلیق کرتا ہے جو ملک اور معاشرے کی مردہ رگوں میں صورِ اسرافیل پھونک سکے اور بنی نوعِ انساں کو مقصدِ حیات سے قریب تر کرے ۔ رمزؔی احترامِ آمیت اور تکریمِ انسانیت کا درس دیتے ہوئے مظالم کے خلاف نبرد آزما اسی جذبے کے تحت ہوتے ہیں اور ببانگِ دہل کہتے ہیں :

آدمیّت تم سے جب جاتی رہی پھر کیا رہا
اک یہی جیبِ شرافت میں تھا لعلِ بے بہا

اشرف المخلوق ہو تم خوبیِ اخلاق سے
ورنہ بر تر ہو جہاں میں ہر نہنگ آفاق سے

کون کہتا ہے بشر زادے ہو تم انسان ہو
بربریّت کے گرجتے گونجتے طوفان ہو

بھوت کی صورت لپک کے گھر میں گھس آتے ہو تم
موت کے کالے فرشتے بن کے چھا جاتے ہو تم

مادرِ غم خوار سے آنکھیں ملاؤ تو ذرا
بے حیاؤ اس طرف آؤ بتاؤ تو ذرا

کون سا مذہب ہے جس میں قتل و غارت ہے روا ؟
یہ تباہی ٬ امن سوزی ٬ یہ شرارت ہے روا ؟

رشوت و اغوا کی بے ہودہ تجارت ہے روا ؟
بے گناہوں پر ستم ٬ ہدمِ عمارت ہے روا ؟

کر دیے تم نے فنا اُف کیسے کیسے دل دماغ
صبح سے پہلے بجھا کر رکھ دیے روشن چراغ

ابو الاسرار رمزؔی کے شعری نگار خانے میں نوع بہ نوع مناظر اور قسم قسم کے جلوے آباد ہیں ۔ عشق و سرمستی ٬ حسن و وارفتگی ٬ ہجر و وصال ٬ جمال و کمال ٬ ترنم و تغزل ٬ جذبۂ خیر سگالی ٬ درسِ حیات ٬ تعلیمِ انسانیت ٬ پیام امن و محبت ٬ اخوت و بھائی چارگی ٬ صلاح و فلاح ٬ اخلاقی تعلیمات اور پاکیزہ افکار و خیالات کی عکس ریزیاں رمزؔی کے نگار خانۂ سخن کے چند نمایاں پہلو ہیں ۔ ان کی شاعری میں مذہب و اخلاق اور حیات بخش تعلیمات کا عنصر غالب ہے ۔ وہ امن و محبت کے سفیر اور معلمِ اخلاق بن کر بردارانِ وطن کو آواز دیتے ہیں ۔ اسی لیے تو اتنے اچھے اور معنیٰ خیز اشعار ان کی نوکِ خامہ سے صفحۂ قرطاس پر ٹپک پڑے ہیں :

اس کی درگاہِ کرم میں اشک افشانی کرو
گڑ گڑا کر روؤ ٬ اظہارِ پشیمانی کرو

جامِ صہبائے بقا پیتے رہو ٬ پینے بھی دو
اس خدا کے ملک میں خود بھی جیو جینے بھی دو

پھر وہی جاری کرو مہر و محبت کا چلن
پھر صدا دے کر بلاؤ اپنا وہ عہدِ کہن

اپنے روٹھوں کو مناؤ ٬ ہم بغل ہو ٬ ایک ہو
رسمِ الفت دیکھ کر دنیا کہے تم نیک ہو

موصوف کی شاعری فکر و بصیرت اور شعور و دانائی کی شاعری ہے ۔ وہ دلداگانِ سخن اور وابستگانِ ادب کو ” شاعرِ فطرت ” بننے کی تعلیم دیتے ہیں اور مذاقِ کور میں انجم کا نور پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ان کی بلاغت آشنا فکر ” ضمیرِ شعر ” میں روحِ گداز ” پھونکنے پر آمادہ ہے ۔ وہ پیغمبرانہ بصیرت اور مدبرانہ سیاست کے قائل ہیں ۔ ان کی خود دار طبیعت کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے منع کرتی ہے اور یہ ساری چیزیں ان کے بلند آہنگ فکر و فن اور ان کی بیش بہا اخلاقی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہیں ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں :

اگر ہے شاعرِ فطرت شعور پیدا کر
مذاقِ کور میں انجم کا نور پیدا کر

نیا مذاق نیا سوز و ساز پیدا کر
ضمیرِ شعر میں روحِ گداز پیدا کر

کسی کے سامنے ہرگز جھکا نہ سر اپنا
مقامِ فکر و نظر کر بلند تر اپنا

تجھے شعور و فراست سے کام لینا ہے
پیمبرانہ بصیرت سے کام لینا ہے

‘ مدبرانہ سیاست ‘ سے کام لینا ہے
جو گر رہے ہیں تجھے ان کو تھام لینا ہے

رمزؔی کے لہجے میں وقار اور شائستگی کے ساتھ عالمانہ کرّ و فر پایا ہے ۔ انہوں نے اپنے محسوسات اور تصورات کے مختلف رنگوں سے جس خوبصورت اور زندگی سے بھرپور شعری کائنات کی تخلیق کی ہے اس کا مرکزی کردار ” انسانیت کی فلاح و بہبود ” ہے ۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٬ انسانیت کی خیر خواہی کے پیش نظر کہتے ہیں اور اپنے زورِ فکر و خامہ سے ایک ایسا شفاف معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں انسانی ہمدردی ٬ بہی خواہی ٬ شرافت و مروت اور باہمی روا داری ہو ۔ ان کی مشہور نظم بہ عنوان ” خطابِ خاص ” کا یہ انداز ملاحظہ کریں ٬ جس میں مسلمانوں اور سکھوں کو ظلم و بربریت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بڑے مخلصانہ لہجے میں ان کو ظلم کا بازار گرم کرنے سے روکا گیا ہے :

سچ بتاؤ اے مسلمانو ! تمہیں حق کی قسم
کیا سکھاتا ہے تمھیں قرآن یہ جو ر و ستم

تم تو دنیا کے لیے اک امن کا پیغام تھے
باپ دادا کب تمھارے اس طرح بد نام تھے

مذہبِ اسلام رسوا ہے تمہاری ذات سے
دن تمہارے جرم کے تاریک تر ہیں رات سے

سچ بتاؤ اے سکھو ! تعلیمِ نانکؔ کی قسم
پوچھتی ہے مادرِ خستہ جگر مرہونِ غم

کیا گرنتھؔ میں یہ لکھّا ہے کہ خوں ریزی کرو
شانتی کی سر زمیں پر فتنہ انگیزی کرو

کس لیے کرتے ہو رسوا تم گُروؔ کے نام کو
کب رکھو گے میان میں اس تیغِ خوں آشام کو

رمزؔی کی با کمال شاعری کا راز اور ان کے ہر دل عزیز فنکار ہونے کی ایک بڑی اور معقول وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کو ان کی شاعری میں اپنے خوابوں کی تعبیر اور اپنا مستقبل نظر آتا ہے ۔ ان کی نظموں کا خمیر عام انسانی زندگی سے تیار ہوا ہے ۔ ان کی شاعری عوامی اقدار و روایات میں گتھی ہوئی ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سماج کے ان سلگتے چیختے مسائل کو جگہ دی ہے ٬ جن کا اظہار عوام براہ راست نہیں کر پاتے ہیں ۔ انہوں نے عام انسانی دکھوں ، پیچیدگیوں اور جذبات و احساسات کو اتنی نزاکت سے بیان کیا ہے کہ ہر حساس انسان کو ان کی شاعری میں اپنے دل کی چھپی یوئی بات نظر آتی ہے ۔ رمزؔی نے عام انسانوں کی عام فہم اور سادہ زبان میں ان کی بات اس طرح پیش کی ہے گویا : ” میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ” ۔ انھوں ‌نے اپنی شاعری کے ذریعے عام انسانوں کے جذبات و احساسات اور عوامی اقدار و روایات کی موثر عکاسی کی ہے ۔ ان کی شاعری انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہے ٬ جو ہمیں سماجی مسائل کا شعور و ادراک سکھاتی ہے ۔ ان کی وقیع نظموں کا ہر بند اور ہر مصرع انسانی ذہن و فکر کو جھنجھوڑتا ہے اور روح میں ارتعاش پیدا کرتا ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں :

ارتکابِ جرم کرتے ہو خدا کے نام پر
پردۂ مذہب میں گولے پھینکتے ہو بام پر

قصرِ آزادی کو ڈھانے کے لیے تیار ہو
تم اگر معمار ہو تخریب کے معمار ہو

تم نہ بندے ہو خدا کے اور نہ تابع دین کے
تم ہو نقاش و مصنّف صرف خونی سین کے

ہوش میں آؤ ذرا دیوانے لوگو ہوش میں
اپنے ہم جنسوں کو کھائے جارہے ہو جوش میں

آدمی ہم جنس ہے اور ہم وطن ہم سایہ ہے
آدمیّت آدمی کی روح کا سرمایہ ہے

ذرا اہلِ نظر دیکھیں یہ عبرت ناک منظر ہے
خوشی کے سائے میں اک نقشۂ میدانِ محشر ہے

یہی کیا اک سفر ہے اور سفر در پیش ہونا ہے
اسی کے واسطے تیار بیش از پیش ہونا ہے

کسی دن اس طرح دنیا سے اپنا بھی سفر ہوگا
دمِ رخصت بایں صورت ہجومِ نوحہ گر ہوگا

یہ محفل کس لیے برپا ہے اس کا مدعا سمجھو
اسے سوگندِ الفت اور پیمانِ وفا سمجھو

نکلتی ہے دعا رمزؔی یہ میرے قلبِ مضطر سے
خدا محفوظ رکھے ہر بشر کو فتنہ و شر سے

رمزؔی کو شاعرِ فطرت اور مصورِ فطرت بھی کہا گیا ہے ۔ وہ مناظرِ فطرت کو شعری پیرائے میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ ادا کرنے پر قادر تھے ۔ ان کے شعری نگار خانے میں ” مناظرِ قدرت اور مظاہرِ فطرت ” کی دوشیزائیں بھی جھانکتی اور مسکراتی نظر آتی ہیں ۔ رمزؔی کو منظر نگاری میں کمال حاصل ہے ۔ یہ نمونہ دیکھیں :

معمورِ تجلّی ابھی دامانِ سحر ہے
دھندلا سا ابھی عارضِ سیمین قمر ہے

ظلمات کے جنگل سے شفق جھانک رہی ہے
یا گلّۂ انجم کو پری ہانک رہی ہے

سرسبز درختوں پہ پرندوں کی قطاریں
سائے میں خراماں ہے چرندوں کی قطاریں

مینار انوکھے ہیں نئے طور کے زینے
سونے کے مکانات ہیں بلّور کے زینے

فردوس کے ماحول کی دو شیزہ بہاریں
دیکھی نہ سنی ہم نے وہ پاکیزہ بہاریں

یہ مجھ سے نہ پوچھو کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں
تا حدِّ نظر شانِ خدا دیکھ رہا ہوں

القصہ مرے خواب سے بھی پیارے نظارے
حیران ہوں میں دیکھ کے یہ سارے نظارے

معنی اور معنویت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ” ہر ادبی متن معنی کا حامل ضرور ہے ٬ مگر ہر ادبی متن ” معنویت ” سے بھی لبریز ہو ٬ یہ کوئی ضروری نہیں ” ۔ قادر الکلام شاعر اور کامیاب فنکار اپنی خدا داد ذہانت و لیاقت سے معنی میں معنویت کا رنگ بکھیرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ ادب کے حریری پیراہن میں ملبوس ‘ معنی ‘ صرف ادبی تاریخ کا حصہ بنتے ہیں ٬ لیکن جو ادبی تخلیقات بیک وقت معنی و معنویت سے لبریز ہوں ٬ وہ قبولیتِ عامہ کی سند حاصل کرتی ہیں اور عوام و خواص ان کے گرویدہ نظر آتے ہیں ۔ رمزؔی کے کلام اور ان کی وقیع نظموں میں معنی اور معنویت دونوں عنصر موجود ہیں ۔ ان کی معنی خیز شاعری ہمیشہ دلوں کو تڑپاتی اور روحوں کو گرماتی رہیں گی ۔ ان کے فکر و فن میں توانائی ٬ پختگی اور پاکیزگی پائی جاتی ہے ۔ ان کی نظموں کا مطالعہ کرنے والا قاری مسحور و متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا ۔ ان کی شاعری ساحری کا نمونہ پیش کرتی ہے ۔ اسی نوعیت کا لا فانی کلام اور بے مثال ادب شہرتِ دوام اور مقبولیتِ انام کا درجہ حاصل کرتا ہے ۔ مندرجہ ذیل نظم کے اشعار میں ” معنی و معنویت ” کا حسین امتزاج بخوبی دیکھا جا سکتا ہے :

مذہبی نسخوں میں ڈھونڈو غم کا روحانی علاج
دور ہو جائے گا قلبِ زندگی کا اختلاج

تم کو مارا ہے کسی نے اور کسی سے انتقام
صرف نا جائز نہیں یہ بلکہ ہے مطلق حرام

مرنے والوں کو تو اب تم زندہ کر سکتے نہیں
ان کی شمعِ زندگی تابندہ کر سکتے نہیں

بدلہ لینا چھوڑ دو اور صبر سے اب کام لو
اپنے مذہب پر چلو مالک کی رسی تھام لو

ور نہ یہ جنگِ مسلسل ختم ہو سکتی نہیں
قوم امن و شانتی کی نیند سو سکتی نہیں

جو بدی کرتا ہے مردِ با صفا ہوتا نہیں
ایسے کاموں سے کبھی راضی خدا ہوتا نہیں

آؤ تم بہِر وطن ایثار و قربانی کرو
خانہ جنگی چھوڑ کر اس کی نگہبانی کرو

ہاتھ سے گرنے نہ دو آئینۂ عزّ و وقار
دورِ حاضر کا ورق ہونے نہ پائے داغ دار

صاف ہاتھوں سے ذرا تاریخ مستقبل لکھّو
آنے والوں کے لیے سرمایۂ عبرت بنو !

” صحرا میں بھٹکتا چاند ” رمزؔی اٹاوی کا وہ خوب صورت شعری مجموعہ ہے ٬ جس میں ان کے فکر و فن کی کہکشا پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے اور صحنِ ادب کے ساتھ قارئین کے دلوں کو بھی روشنی بخشتی ہے ۔ ان کی شاعری پر اسلامی رنگ اور اخلاقی عنصر غالب ہے ٬ بایں ہمہ نظموں کے علاوہ غزلیات کے میدان میں بھی ان کا مقام و مرتبہ کافی بلند ہے ۔ ان کی غزلوں میں والہانہ اندازِ بیان ٬ خیالات کی پاکیزگی ٬ حسنِ تخیل ٬ ترنم اور تغزل کے ساتھ عصری حسّیت اور سماجی نا ہمواریوں کے خلاف صدائے احتجاج بھی پائی جاتی ہے ۔ غرض کہ شعر و سخن کے مینا بازار میں ادب کی جنسِ گراں مایہ لے کر رمزؔی وارد ہوئے ہیں اور اپنے منفرد شعری لب و لہجہ سے قارئینِ ادب کو چونکا ہے ۔ رمزؔی کے فکر و فن پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے اور ان کی شعری تخلیقات کو تحقیق و ریسرچ کا موضوع بنایا جا سکتا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close