مضامین

اقربا نوازی اور خاندان واد یقینا مسئلہ و موضوع، لیکن سب یہی نہیں

مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب

اقربا نوازی اور خاندانی قیادت اور سیاست پر بحث ایک بار پھر شروع ہوگئی ہے، نہرو گاندھی کے حوالے سے اقربا اور خاندان پرستی پر مبنی سیاست کو لے کر کانگریس، برسوں سے بی جے پی کے نشانے پر ہے، ابھی حال ہی میں صدر راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہماری پارٹی میں بھی نوجوانوں اور نئے چہروں کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ غریب، درمیانی طبقے اور خاندانی سیاست کا پس منظر نہ رکھنے والے ہیں، جبکہ کانگریس میں چند خاندانوں سے تعلق رکھنے والے کھاتے پیتے افراد کا بول بالا ہے، یہ صحیح ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس میں شخصیات کو پوجنے کی حد تک اہمیت ہے، البتہ خاندان اور نسل پرستی، بھائی بھتیجہ واد نہیں کے برابر ہے، کنبائی و حاندانی قیادت و سیاست کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سماجی ارتقاء رک جاتا ہے، اور ترقی و توسیع کا عمل محدود ویک رخا ہوجاتا ہے، جس سے سماج کا توازن بگڑ جاتا ہے، اور اس میں اونچ نیچ اور تفریق و امتیاز اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس اعتدال و انصاف کے نہج پر مشکل ترین ہونے کے ساتھ ساتھ، تصادم اور مسلح جنگ میں بدل جاتا ہے، نکسلی تحریک اس کی واضح مثال ہے، زمیندارانہ، جاگیردارانہ استحصال اور اس نظام کے تحت ناانصافی سے سماج کے محروم افراد کو لگاکر اس سے آزاد ہونے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ استحصالی سماج کے خلاف طاقت استعمال کی جائے، اور اس کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، وہ کیا جائے، اس مسلح تصادم کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ نکسل متاثرہ علاقوں میں جہاں عام ترقی کا عمل رُک گیا ہے، وہیں ترقیاتی ڈھانچے اور ادارے کو نکسلی اپنی اپنی تحریک کی کامیابی میں رکاوٹ سمجھ کر انھیں تباہ و برباد کررہے ہیں، اسکول، پل، ریل پڑی، انتظامی ادارے وہ موقع ملتے ہی اڑادیتے ہیں، اس بات کو ٹھنڈے دل اور سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کچھ لوگ کیوں آبادیوں، شہریوں کی زندگی تیاگ کرکے جنگل کی انتہائی تکلیف وہ زندگی گزار رہے ہیں، عام دھارے کی نمائندگی سے وہ الگ کیوں ہیں، ابھی حال ہی میں یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ پولیس اور حکومت کی جدید کاری کو دیکھتے ہوئے نکسلی بھی اپنے طریقہ کار اور نظام کی تجدید میں لگ گئے ہیں، ایسی صورت حال میں سماج میں یہ احساس پیدا کرنا ضروری ہے کہ عام لوگوں کو لگے کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے اور ملک کے وسائل اور ذرائع سے جائز طریقے سے استفادے کے لیے راستے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اور مواقع کو استعمال کرکے باعزت زندگی گزارنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کیا سیاسی اقتصادی اور سماجی میدان میں خاندان اور طبقات کی بنیاد پر ایسی رکاوٹیں ہیں، جن کو دور نہیں کیا جاسکتا ہے، اور ایسے افراد دوسروں کا راستہ بند کررہے ہیں، اس کا تجزیہ اور منتھن وقت کی ضرورت ہے، ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کی شروعات کسی نہ کسی سطح پر ہوگئی ہیں، کانگریس کے جنرل سکریٹری اور نوجوان چہرہ راہل گاندھی نے کچھ ہی دنوں پہلے یہ کہا تھا کہ سیاست ایک بند نظام ہے اور ہم اس کو ختم کرکے ترقی کررہے نوجوانوں کے لیے سیاست کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں، یہ یقینا ایک انقلابی بات ہے، جو ایک خاندانی آدمی کہہ رہا ہے، خاندانی شریف مہذب آدمی کی خوبیوں سے انکار کوئی راست رویہ نہیں ہے، خاندان ماحول اور تعلیم و تربیت کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر خاندانی طور سے کسی میں کوئی خوبی و ہنر ہے، تو یہ کوئی عیب نہیں ہے، جسے تنقید وملامت کا نشانہ بنایا جائے، نسبت کی عظمت ایک حقیقت ہے، لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا اور دیگر ضروری امور اور صلاحیتوں کو نظر کرنا غلط ہے، اگر کسی آدمی میں کسی نظام کو چلانے کی صلاحیت و قابلیت ہے اور کسی کے پاس محض نسبت ہے اس کے باوجود اسے حاکم بنا دیا جائے یا غلط طور سے توڑ جوڑ کرکے نظام پر مسلط ہوجاتا ہے تو اس صورت حال کو بدلنا سماجی ارتقاء اور انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری ہے کچھ قابلیت و صلاحیت والے کو نظام چلانے کے لیے منتخب و مقرر یا نامزد کیا جائے، اور یہی ایمانداری اور انصاف کا تقاضا بھی ہے، اصل سوال سب کے لیے مواقع کھلے ہونے کا ہے، ان کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی طاقتوں کو شکست دینا ضروری ہے، یہ صحیح ہے کہ نسبت اور وراثت، مواقع کے استعمال میں آسانی پیدا کرتی ہے، جبکہ اس سے محروم افراد کو وہاں تک پہنچنے کے لیے غیر ضروری طور پر ضروری محاذ پر صرف ہونے والی توانائی کو ضائع کرنا پڑتا ہے، اور ان مزاحمتوں سے گزرنا پڑتا، جن سے نسبت اور خاندانی وراثت والوں کو نہیں گزرنا پڑتا ہے، اس کی مثال حالیہ انتخابات میں مختلف پارٹیوں خصوصاً کانگریس کے کامیاب ہونے والے نوجوان امیدوار ہیں، لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا، کہ باصلاحیت، خاندانی سیاست کا پس منظر نہ رکھنے والوں کے لیے دروازہ بند اور راستہ مسدود ہے کانگریس کے نوجوان دستے کے نوجوان ارکان پارلیمنٹ میں مناکشی، نٹراجن اور اشوک تنور، اس کا ثبوت ہیں، ان دونوں کے ساتھ کوئی بااثر وراثت اور خاندانی سیاست کی نسبت نہیں ہے تاہم وراثت اور خاندان کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کانگریس کے تین درجن نوجوانوں ممبران میں سے بیشتر وہ ہیں، جن کو سیاست وراثت میں ملی ہے، ان کے ماں، باپ یا خاندان کے دیگر ممبر پارٹی میں اثر و رسوخ والے رہے ہیں، ان کو بغیر زیادہ محنت کیے ہی پارٹی کا ٹکٹ مل گیا، اور ایوان تک پہنچنا آسان ہوگیا، تین وزراء اعلا شیلا دکشت (دہلی) وائی ایس ریڈی (آندھرا) بھوپیندر سنگھ ہڈا (ہریانہ) کے بیٹے سندیپ دیکشت، جگن ریڈی، دیپیندر ہڈا منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں دیگر ارکان پارلیمنٹ، سچن پائلٹ، حمید اللہ سعید وغیرہ بھی اس زمرے سے الگ نہیں ہیں، اکھلیش یادو، کو ملائم سنگھ سے سیاست وراثت میں ملی ہے، مگر اس کا ایک قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ یہ نوجوان جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہیں انھوں نے اپنی محنت و صلاحیت کا استعمال بھی اپنی جگہ بنانے کے لیے کیا ہے، صرف نسبت اور وراثت پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ رہے، یہ نسبت و وراثت کا مثبت پہلو ہے، جنھوں نے صرف شخصیت اور نسبت سے رائے دہندہ عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی وہ پورے ملک میں دیکھ لیجیے کہ ناکام ہوگئے اور عوام نے ٹھکرانے میں دیر نہیں لگائی ہے، راہل گاندھی نے جس طرح محنت و صلاحیت کا ثبوت، تہذیب و انسانیت کے ساتھ دیا اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، اپنے رہنماؤں اور ملک و سماج کی اعلیٰ قیادت کا فریضہ انجام دینے والوں سے یہ توقع سراسر فضول، لغو اور بیہودہ سوچ کی بات ہوگی کہ وہ چوبیس گھنٹے ہمارے ساتھ رہیں، تسلا میں مٹّی ڈھوئیں، دلت کی جھونپڑی میں رات گزاریں اور ہمارے گھر کا بنا کھانا ساتھ کھائیں، جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلندی، ترقی اور سماج کی تہذیب کے تصور سے ناآشنا و نابلد ہیں، خدا کی ممکن دنیا میں ایسا نہ ہوا اور نہ ہوسکتا ہے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے اپنے گھر آنے والے مہمانوں کے پیردبانے یا ٹرین کے بیت الخلاء کو صاف کردینے یا حضرت فدائے ملتؒ کے دلتوں اور ادت راج کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھالینے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ (بقیہ ص پر)
ایسا روز ہونا چاہیے، ان عظیم شخصیات کا یہ عمل یا راہل گاندھی کا مٹّی ڈھونا،، رات دلت کے گھر گذارنے کا عمل اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ وہ عام انسانی سماج سے ایسا دور نہیں ہیں کہ وہ پس ماندہ اور ادنیٰ طبقات تک ضرورت کے وقت بھی تکالیف میں شامل نہ ہوسکیں، نزدیک آجانے کا ان کی طرف سے راستہ کھولا جانا، سماج کو ساتھ لے کر چلنے کا ثبوت ہے، بہ قول راہل گاندھی بند نظام میں کوئی دروازہ یا کھڑکی کھول دینا ہی اچھی شروعات اور ایک بڑا قدم ہے، ہمیں تمام چیزوں کو منفی انداز میں نہیں لینا چاہیے، راہل گاندھی نے داخلی جمہوریت کو بہتر بنانے کے لیے پنجاب میں آئی وائی سی اور اتراکھنڈ میں این سی یو آئی کے انتخابات کرائے تھے، گرچہ جو وہ کہہ رہے ہیں اور جو خواب دیکھ رہے ہیں اس کے شرمندہئ تعبیر ہونے میں ابھی وقت لگے گا، تاہم ایسا نہیں ہے کہ آج بھی دروازے بند ہیں، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی، رام ولاس پاسوان، لالو پرساد کی پشت پر کوئی بھاری بھرکم موثر خاندانی نسبت وراثت نہیں ہے، پھر وہ سیاسی میدان میں کامیاب اور سماج پر اثر انداز ہوئے ہیں، ایم ایل اے، ایم پی سے وزیر اور وزیر اعلیٰ تک رہے ہیں، اور مایاوتی اب بھی ہیں، اور جس طرح عوامی بیداری بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ صرف خاندانی اور نسبت والے ہی ایوان تک پہنچیں گے، ہاں یہ حالات دیکھ کر ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کام کرنے والوں اور عوامی مسائل سے سروکار رکھنے والوں کو عوام منتخب کریں گے، دکھاوا، ڈرامہ اور جوکری کرنے والے زیادہ دنوں رائے دہند عوام کو بے وقوف نہیں بناسکتے، اوبامہ جیسا آدمی جس کی پشت پر کوئی خاندانی سیاست کی وراثت نہیں ہے، امریکہ کا صدر بن جانا اس بات کی علامت ہے کہ کسی بھی میدان میں چاہے وہ سیاست ہی ہو، آگے بڑھنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے، اور صورت حال پوری دنیا میں تیزی سے بدل رہی ہے، اس لیے اقربا پرستی اور خاندان واد کی حد سے زیادہ منفی باتیں کرکے مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کی تحسین نہیں کی جاسکتی ہے، جیسا کہ آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ نے خاندان واد کے نام پر اپنے تازہ شمارے میں حالیہ انتخابات میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی سعی کی ہے، یوپی اے کی کامیابی خاندان پرستی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں نظریہ، طرز حکمرانی، عوامی مسائل پر توجہ دینے، نہ دینے اور نفرت و شخصیت پرستی کے درمیان رائے دہندگان کی طرف سے انتخاب کا دخل ہے، اور یہ حالات دائمی نہیں ہوتے ہیں، صورت حال کے بدلتے ہی نتائج مختلف بھی نکل سکتے ہیں، جیسا کہ پہلے بھی نکلتے رہے ہیں خاندان واد اور اقربا پرستی ایک قابل بحث موضوع و مدعا ضرور ہے، لیکن وہ اتنا بڑا اور اصل مدعا نہیں ہے کہ تمام تر کامیابی کی اسے ہی بنیاد قرار دیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close